اس نے ایک اجنبی سے محبت کی تھی

وسیم جبران

نے اسے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا تھا۔ سات برسوں میں یہی ایک تبدیلی تھی جو اس میں نظر آ رہی تھی۔ اینا تو اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں سب سے ناتے توڑ کر اسلام آباد میں آ بسی تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی کراچی نہیں جائے گی۔ کراچی نے اسے بہت کچھ دیا تھا مگر بہت کچھ چھینا بھی تھا۔ کراچی سے جڑی یادوں میں سب سے تلخ یاد شہزاد کی تھی۔ وہ اسے یکسر فراموش کر دینا چاہتی تھی۔

”اوہ مائی گاڈ! اینا تم سے یہاں اچانک ملاقات ہو گی یہ تو میں نے سپنے بھی نہیں سوچا تھا۔ “ افرا نے اس کے گلے سے لپٹتے ہوئے کہا۔
”میں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن سپر مارکیٹ میں مجھے تم ملو گی۔ “ اینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”سچی تم بڑی بے وفا ہو۔ کبھی میری یاد نہیں آئی۔ تمہیں پتا ہے جب تم اچانک غائب ہو گئی تھیں تو تمہارے بارے میں کیسے کیسے برے خیال میرے ذہن میں آئے تھے۔ کبھی لگتا تھا کسی نے تمہیں قتل کر کے لاش غائب کر دی ہے، کبھی سوچتی تھی تم کراچی میں ہی کہیں چھپی ہوئی ہو اور ایک دن اچانک نظر آؤ گی مگر تم ملی تو یہاں اسلام آباد میں وہ بھی برسوں بعد“۔ افرا جوش میں تیز تیز بولتی چلی گئی۔

”بس بس! اب کیا ساری باتیں یہاں مارکیٹ میں کھڑی ہو کر ہی کرو گی، چلو گھر چلتے ہیں۔ “ اینا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”ہاں چلو“

اینا نے ایک ٹیکسی والے کو رکنے کا اشارہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ عروج ٹاور کے سامنے کھڑی تھیں۔ اسی بلڈنگ کی تیسری منزل پر اینا کا فلیٹ تھا۔ لفٹ رکی اور وہ دونوں آگے بڑھیں۔ فلیٹ میں داخل ہوتے ہی افرا نے ایک چھ سالہ بچی کو دیکھ کر سوالیہ نظروں سے اینا کی طرف دیکھا۔ اینا مسکرا اٹھی۔

”ماما! “ بچی دوڑ کر اینا سے لپٹ گئی۔
”عینی! افرا آنٹی کو سلام کرو۔ “ اینا نے عینی کے گال چومتے ہوئے کہا۔

”گڈ ایوننگ آنٹی“
”گڈ ایوننگ۔ بیٹا میں تمہاری ماما کی بیسٹ فرینڈ ہوا کرتی تھی۔ “ افرا نے عینی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
”حد ہو گئی افرا۔ تم نے آتے ہی شکایتیں شروع کر دیں، ذرا دم تو لے لو۔ “ اینا بول اٹھی۔

اتنے میں چندا بھی کچن سے باہر آ گئی۔ وہ اینا کی ملازمہ تھی۔ دن بھر گھر میں رہتی تھی اینا کی عدم موجودگی میں عینی کا خیال رکھتی تھی۔ ڈنر کے بعد چلی جاتی تھی۔ اینا نے اسے مہمان کے بارے میں بتایا اور ڈنر کی تیاری کا آرڈر دے دیا۔ عینی اب کھیل رہی تھی اور دونوں سہیلیاں پرانی یادیں تازہ کر رہی تھیں۔

”اینا خدا کے لیے اب تو بتا دو، تمہارے اور شہزاد کے بیچ کیا ہوا تھا؟ تم اچانک غائب کیوں ہو گئی تھیں۔ “ افرا جاننے کے لیے بہت بے تاب تھی۔

اینا ایک گہری سانس لے کر رہ گئی۔ ”فکر مت کرو آج میں سب کچھ بتاؤں گی۔ “ اینا کہیں خلاؤں میں تک رہی تھی۔

”یہ تو تم جانتی ہی ہو کہ میں بچپن میں ہی اپنے ماں باپ سے محروم ہو گئی تھی۔ مجھے میرے خالو نے پالا تھا۔ انہوں نے مجھے تعلیم دلوائی یہ ان کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے لیکن سچ پوچھو تو وہ مجھ سے نفرت کرتے تھے۔ ماں باپ کی وفات کے بعد میری خالہ مجھے بیٹی بنا کر گھر تو لے آئی تھیں لیکن خالو نے مجھے کبھی بیٹی نہیں سمجھا تھا۔ میں ان کے لیے ایک بوجھ تھی۔ میں اکثر ان کی جلی کٹی باتیں سن کر چھپ چھپ کر روتی تھی۔ جہاں تک سکول کالج بھیجنے کی بات ہے تو میں ہمیشہ سرکاری اداروں میں پڑھی ہوں جہاں فیس برائے نام ہوتی تھی۔

خالو کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے مجھے سکول نہ بھیجا تو لوگ باتیں کریں گے اور ان کی نیک نامی پر حرف آئے گا۔ وہ کئی بار خالہ سے الجھتے بھی تھے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اس منحوس کی فیس بھی دینی پڑتی ہے۔ اس طرح کے حالات میں جوان ہوئی۔ مجھے پتا تھا کہ تعلیم ہی میرا واحد سہارا ہے اس لیے دل لگا کر پڑھتی تھی۔ کالج کے زمانے میں ہی مجھے اچھی جاب مل گئی۔ اور میں نے جینا شروع کیا۔ ”

”یہ سب تو پرانی باتیں ہیں اگلی بات بتاؤ جب تمہاری شادی شہزاد سے ہوئی تھی۔ “ اینا سانس لینے کے لیے رکی تو افرا نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔

”شہزاد بھی اسی آفس میں کام کرتا تھا جہاں میں تھی مگر یقین کرو میں نے کبھی اس سے بات تک نہیں کی تھی۔ ایک دن اس نے رشتہ بھجوا دیا۔ خالو شاید اسی انتظار میں بیٹھے تھے انہوں نے اس پہلے رشتے کو ہاں کر دی۔ وہ میری شادی تھوڑا ہی کر رہے تھے وہ تو مجھ سے جان چھڑا رہے تھے لہٰذا نہ انہوں نے شہزاد کے خاندان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی نہ مجھے سوچنے کا موقع دیا فوراً میری شادی کر دی۔ شادی کی پہلی رات شہزاد کا موڈ بہت آف تھا۔

تب پتہ چلا کہ شادی کی خوشی سے زیادہ اسے اس بات کا قلق تھا کہ میرے خالو نے مجھے جہیز نہیں دیا تھا۔ اس دن سے میرے دکھوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں نے اس وقت تمہارے سمیت کالج کی کسی سہیلی کو کبھی کچھ نہ بتایا۔ میرے حالات بگڑتے چلے گئے۔ روز روز کی جھک جھک سے میرا جینا حرام ہو چکا تھا۔ اب اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھانا بھی شروع کر دیا تھا۔ شادی کو ابھی چھ ماہ ہوئے تھے کہ ایک دن پھر کسی بات پر شہزاد نے جھگڑنا شروع کر دیا لیکن اس بار اس نے ہاتھ اٹھایا تو میں نے اس کا ہاتھ روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے وہیں کھڑے کھڑے مجھے طلاق دے دی۔

میرے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ میں کہاں جاؤں؟ یہ تو پہلے ہی سوچا ہوا تھا کہ خالو کے گھر تو کبھی نہیں جاؤں گی۔ میری جاب ابھی جاری تھی۔ ایک دن پہلے ہی تنخواہ ملی تھی۔ میں سیدھی ریلوے اسٹیشن چلی گئی اور ٹرین میں بیٹھ گئی۔ آخری سٹیشن راولپنڈی تھا سو یہاں آ گئی۔ شاید قدرت کو مجھ پر رحم آ گیا تھا۔ یہاں آتے ہی مجھے اسلام آباد میں جاب مل گئی۔ میں نے یہ فلیٹ کرائے پر لے لیا اور یہاں رہنے لگی۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ایک نئی زندگی گزاروں گی اور کبھی کسی جاننے والے سے کبھی رابطہ نہیں کروں گی لیکن آج تم سے مل کر میں بہت خوش ہوں۔ ”

”اوہ تو یہ کہانی تھی۔ تمہارے جانے کے بعد ہم نے تمہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ ہم دو تین سہیلیاں شہزاد کے گھر بھی گئی تھیں۔ وہ واقعی بد تمیز آدمی تھا۔ اس نے دروازے میں کھڑے کھڑے کہا تھا کہ مجھے نہیں پتا وہ کہاں ہے؟ میں اسے طلاق دے چکا ہوں۔ اینا۔ یہ عینی؟“ افرا نے کہا۔

”جب مجھے طلاق ہوئی تو میں حاملہ تھی۔ عینی یہیں پیدا ہوئی تھی۔ “
”بہت پیاری بچی ہے۔ “ افرا مسکرا اٹھی۔ عین اسی وقت اس کا فون بج اٹھا۔ وہ کسی سے بات کرنے لگی۔

”اکی کا فون تھا۔ ویسے نام تو اس کا اکرم ہے لیکن سب دوست اسے اکی ہی کہتے ہیں۔ ان فیکٹ میں یہاں اسی کے اصرار پر آئی ہوں سوچا سیر بھی ہو جائے گی اور اس سے ملاقات بھی۔ تم بھی میرے بارے میں جاننا چاہتی ہوگی تو سنو میں نے ابھی تک شادی نہیں کی اور نہ کرنے کا ارادہ ہے۔ ابھی دوستوں کے ساتھ وقت گزارتی ہوں۔ دوست بہت ہیں میرے۔ ان میں سے ایک اکی بھی ہے۔ اچھا کل کا دن تم میرے ساتھ گزارو گی۔ میں تمہیں اکی سے بھی ملواؤں گی۔ “ افرا نے جلدی جلدی کہا۔

”ایک تو تم بولتی بہت ہو۔ کل میں چھٹی نہیں لے سکتی، آفس میں بہت کام ہے۔ “ اینا بولی۔

”تو آفس کے بعد سہی، چھوڑوں گی تو نہیں تمہیں۔ “

اینا مسکرا کر رہ گئی۔ کھانا تیار ہو گیا تھا۔ چندا نے اطلاع دی ان کی گفتگو کا سلسلہ رک گیا۔

اینا نہیں جانتی تھی کہ افرا سے ملاقات اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے آئے گی۔ اگلے روز شام کو وہ افرا سے ملنے گئی۔ افرا نے اسے ایک ریسٹورانٹ میں بلایا تھا۔ جب وہ دونوں بیٹھی تھیں تو پہلی بار اس کا اکی سے آمنا سامنا ہوا۔ ”وہ آ رہا ہے“۔ افرا نے اسے دور سے دیکھ کرسرگوشی کی۔


اکی ورزشی جسم کا ہینڈسم شخص تھا۔ اس کی عمر تیس برس رہی ہوگی۔ وہ ٹو پیس سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ اینا کو اس کی شخصیت پر کشش لگی تھی۔ اس نے آ کر شرارتی انداز میں ہیلو ہائے کی اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ کھانے کے دوران بھی وہ چٹکلے چھوڑتا رہا۔ اینا اور افرا بار بار ہنستی رہیں۔ کھانے کے بعد وہ ٹہلنے چلے گئے۔ پھر اکی نے آئس کریم کی آفر کر دی۔ انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ انہوں نے ڈھیروں باتیں کیں لیکن جی ہی نہیں بھرتا تھا۔ آخر اینا نے نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت لی اور گھر آ گئی۔ چندا دیر سے آنے پر دبے لفظوں میں شکایت کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس کی ڈیوٹی بہت لمبی ہو گئی تھی لیکن اینا کو خوش دیکھ کر چپ ہو رہی۔

عینی کو اس کے بیڈ روم میں سلا کر وہ اپنے بیڈ روم میں لیٹی تو ایک میسیج آ گیا۔ اس نے چونک کر فون چیک کیا۔ ”کہاں ہو؟ گھر پہنچ کر کم از کم خیریت کا ایک میسیج تو کر دیتیں۔ “

اکی کا میسیج تھا۔ وہ مسکرا اٹھی۔ ایسے بے تکلف ہو رہا ہے جیسے برسوں سے میرا واقف ہو۔ ”تم کہاں ہو؟ “ اینا نے سوال کے بدلے سوال بھیجا۔ رات گئے تک میسیجنگ جاری رہی۔

اب تو روز کا ملنا شروع ہو گیا تھا۔ جب اینا گھر آ جاتی تو فون شروع ہو جاتے۔ ہاں ایک بات تھی جب وہ تینوں ہوتے تھے تو اکی کا رویہ دوستوں جیسا ہوتا تھا۔ لیکن فون پر ایسا لگتا تھا جیسے وہ اینا پر مر مٹا ہے۔ اینا جیسے پھر سے جینے لگی تھی۔ اسے اب احساس ہو رہا تھا کہ برسوں سے وہ کبھی دل سے تیار بھی نہیں ہوئی تھی، نہ میک اپ کیا تھا اور نہ اچھے کپڑے خریدے تھے۔ وہ ایک روکھی پھیکی زندگی گزار رہی تھی۔ گزشتہ ایک ہفتے میں وہ جتنا ہنسی تھی اتنا تو سات برسوں میں نہ ہنس سکی تھی۔

وہ آئینے کے سامنے بیٹھ کر خود کو دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی اسے اکی کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ ”ٹھیک ہی تو کہتا ہے میں واقعی بڑی پیاری ہوں۔ “ وہ دل ہی دل میں سوچ کر خوش ہو رہی تھی مگر وہ اور پیاری لگنا چاہتی تھی خاص طور پر اکی کے سامنے۔ اس نے اکی کو ڈنر پر بلایا تھا، صرف اکی کو۔ ایسا اس نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں وہ چاہتی تھی بس وہ دونوں ہوں کوئی اور نہ ہو۔

چندا نے کھانا بہت اچھا بنایا تھا۔ اکی بار بار تعریفیں کر رہا تھا۔ اینا خواہ مخواہ اترا رہی تھی۔ کھانے کے بعد باتوں کا دور چلا۔ چندا چلی گئی تھی۔ عینی سونے کی ضد کر رہی تھی۔ اکی نے دھیرے سے اجازت چاہی۔

”ابھی نہ جاؤ ناں، میں ابھی کافی بناتی ہوں۔ “ اکی بھی شاید باتوں کے موڈ میں تھا رک گیا۔ اینا عینی کو سلا کر کافی بنا لائی۔ کافی پینے کے بعد اینا بولی۔
”اکی اب تم جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔ “

”کیا تم مجھے اپنے گھر سے نکال رہی ہو؟ “ اکی نے جھوٹ موٹ ناراضی سے کہا۔
”ارے نہیں میں تمہیں کیوں نکالوں گی۔ تم یہیں سو جاؤ۔ “ اینا نے ہنستے ہوئے مذاق سے کہا۔

”پہلے مجھے اپنا بیڈ روم دکھاؤ پھر میں فیصلہ کروں گا کہ وہ سونے کے قابل ہے یا نہیں۔ “
”چلیے جناب“

اینا اٹھ کھڑی ہوئی۔ اکی نے بیڈ روم کا ایک طائرانہ جائزہ لیا اور بڑی بے تکلفی سے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”آؤ ناں، باتیں کرتے ہیں“۔

اینا مسکراتے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گئی۔ ”ذرا اپنا ہاتھ دو، میں دیکھوں تمہارے ہاتھ کی لکیروں میں کیا لکھا ہے؟ “ اس نے اینا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ اینا کے سارے بدن میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔ وہ جب جب اسے چھوتا تھا اس کا بدن تپنے لگتا تھا اور آج تو تپش کچھ زیادہ ہی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے پتہ نہیں کیا کہہ رہا تھا۔ اینا کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اینا کو ایسا لگ رہا تھا جیسے بخار ہو گیا ہو۔ بدن کی حرارت بڑھتی جا رہی تھی۔

”اینا بولو ناں، تم تو چپ ہی ہو گئی ہو۔ “ اکی کی بات سن کر وہ چونک اٹھی۔
”اکی! کاش تم ہمیشہ میرے پاس رہتے۔ میرے ہو جاؤ ناں، مجھ سے شادی کر لو“۔ اینا جیسے بے خودی میں بول رہی تھی۔ اکی نے اپنا بازو اس کی کمر کے گرد رکھا پھر کھینچ کر اسے گلے لگا لیا۔ ”میں تو کب سے تمہارا ہو چکا ہوں۔ “ اس نے دھیرے سے کہا۔ اینا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ پورے زور سے اس کے سینے سے لگ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے بدن میں آگ سی بھر گئی ہو۔

صبح جب اینا کی آنکھ کھلی تو خود کو دیکھ کر مسکرا اٹھی۔ رات اسے اتنی گرمی لگ رہی تھی کہ کپڑے گرم کمبل کی طرح لگ رہے تھے۔ اس نے اکی پر نظر ڈالی وہ چت لیٹا بے خبر سو رہا تھا۔ اینا نے اس کے بدن پر چادر ڈالی پھر قالین سے اپنی قمیص اٹھا کر واش روم میں گھس گئی۔

اکی جب ناشتے کے لیے ٹیبل پرآیا تو اینا دفتر جانے کے لیے تیار ہو چکی تھی۔
”جانو! آؤ ناشتہ کر لیں۔ “ اکی نے اسے دیکھ کر کہا۔ اینا اس کے اس انداز پر مسکرا اٹھی۔
”جی نہیں، مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے اور میں ناشتہ بھی کر چکی ہوں۔ آپ ناشتہ کریں میں جا رہی ہوں۔ “ اس نے تیزی سے کہا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

آفس میں سارا دن اس کا کام میں دھیان ہی نہیں تھا۔ ہر طرف اکی کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ وہ بس ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ کئی بار اس کا دل چاہا کہ اکی کو فون کرے لیکن پھر رک جاتی تھی۔ اب آفس کے بعد ہی اس سے ملوں گی۔ اس نے دل میں سوچا۔

گھر آئی تو اکی کے بارے میں پوچھا۔ چندا نے بتایا کہ وہ ناشتے کے بعد چلا گیا تھا۔ عینی بھی سکول سے آ چکی تھی۔ وہ اسی ایریا کے سکول میں پڑھتی تھی۔ اسے سکول لے جانا اور لانا بھی چندا کے ذمے تھا۔ وہ اپنی بیٹی سے باتیں کرنے لگی۔ اس کا دھیان فون کی طرف تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اکی کا فون آئے گا۔ رات ہو گئی مگر فون نہ آیا۔ اینا کو بہت غصہ آ رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا اکی سے خوب جھگڑا کرے۔

تنگ آ کر اس نے فون ملایا۔ اکی کا فون بند تھا۔ اگلے دن افرا سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ اکی کچھ دنوں کے لئے کہیں گیا ہے۔
”کہاں گیا ہے؟ “ اس نے حیرت سے پوچھا۔

”کمال ہے اس نے تمہیں بتایا نہیں، بھئی وہ بزنس مین ہے۔ اسے مختلف جگہوں پر آنا جانا پڑتا ہے۔ ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔ “ افرا بولی۔
”لیکن اس کا فون کیوں بند ہے؟ “
”جب وہ کام پر ہوتا ہے تو یہ نمبر بند رکھتا ہے۔ دیکھنا فرصت ملتے ہی خود فون کرے گا۔ “

اینا کے دل کو چین نہیں مل رہا تھا۔ دو تین دن بعد افرا بھی واپس کراچی چلی گئی۔ اینا بے حد اداس تھی۔ دن گزر رہے تھے اوراکی کا کوئی فون نہیں آیا تھا۔ اینا کو اپنے بدن میں کسی تبدیلی کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر عظمیٰ کے پاس چلی گئی۔ ”مبارک ہو رپورٹ پازیٹو ہے۔ “

ڈاکٹر کے یہ الفاظ سن کر وہ ساکت سی ہو گئی۔ گھر آ کر اس نے بار بار اکی کا نمبر ملایا مگر اس کا فون اب بھی بند تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کرے۔ اس نے افرا کا نمبر ملایا۔ بیل جا رہی تھی۔

”ہاں اینا کیسی ہو؟ “ دوسری طرف سے افرا کی آواز سنائی دی۔ ”شکر ہے کسی نے تو فون اٹھایا۔ ’اینا بول اٹھی۔
” کیوں کیا ہوا؟ “ افرا بولی اس کے ساتھ ہی پیچھے کسی کی آواز سنائی دی۔ ”جانو کس سے بات کر رہی ہو؟ آؤ ناں میرے پاس آؤ۔ “

اینا کی کنپٹیاں سلگنے لگیں۔ وہ آواز اکی کی تھی۔ ”افرا کیا اکی تمہارے ساتھ ہے؟ “ اینا نے پوچھا۔
”ہاں اینا! وہ مجھے بلا رہا ہے۔ تمہیں تو پتا ہے وہ جسم میں آگ سی بھر دیتا ہے۔ میں تم سے پھر بات کروں گی، او کے، بائے۔ “ افرا نے فون بند کر دیا۔ اینا کے ہاتھ سے فون گر پڑا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔