معاشی تنگ تنگدستی آپ کو کوئی بھی کام کرنے پر مجبور کروا سکتی ہے۔ کیوں کہ انسان دو لباسوں کے ساتھ کئی مہینے گزار سکتا ہے۔ ایک جوتے کے ساتھ کئی کئی دن اور مہینے نکال سکتا ہے۔ لیکن روٹی کے بغیر تو ایک دن بھی نہیں نکال سکتا۔ کیوں کہ پیٹ یہ کب دیکھتا ہے کہ پیسے ہیں یا نہیں، زندہ رہنے کے لیے اور سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے روٹی ضروری ہے۔
پاکستان کے چھوٹے بڑے سبھی شہروں میں گھروں میں کام کاج کے لیے ملازمائیں رکھنا معمول کا کام ہے۔ بلکہ اب تو قصبوں میں بھی آپ کو خواتین، اور چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی گھریلو ملازمہ کے طور پر گھروں میں کام کرتی نظر آئیں گی۔ بظاہر اس کی ایک ہی وجہ جو نظر آتی ہے وہ معاشی تنگدستی یعنی غربت ہے۔
چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں جن کی عمر بمشکل آٹھ، دس سال بھی نہیں ہوتی اور وہ گھروں میں کام پر لگا دی جاتی ہیں۔ حالانکہ یہ عمر تو گڑیوں اور کھلونوں سے کھیلنے کی ہوتی ہے۔ لیکن حالات یہ سب کرنے پر مجبور کروا دیتے ہیں۔ گھریلو ملازماؤں کی کئی درناک داستانیں آپ نے سنی ہوں گی۔ لاہور میں کمسن ملازمہ کو مار مار کے زخمی کر دیا اور استری کے ساتھ بھی اسے ٹارچر کیا گیا۔ فیصل آ باد میں ہونے والا واقعہ سب کویاد ہو گا۔ ایسے بے شمار واقعات آئے دن اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
میرے اپنے گاؤں میں ایک بچی جو کہ بمشکل آٹھ یا نو سال کی ہو گی۔ وہ اپنی مالکن کے بچوں کو کھلا رہی تھی جس کے خود ابھی کھیلنے کے دن ہیں۔ ایسے ہی کھیلتے کھیلتے ایک بار اس سے بچہ سنبھلا نہیں گیا۔ وہ نیچے گر گیا اور اس بچے کے ہلکی سی چوٹ لگ گئی، جس پر اس خاتون نے یعنی بچے کی ماں نے اسے اتنا مارا کے اس بچی کے ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ اور بچی جس طرح سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ بچی جس کے ناک سے خون بہہ رہا تھا، آنسووں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ سسکیاں ایسی کہ جیسے وہ خدا سے شکوہ کر رہی ہو، کہ اللہ میں بھی تو اس بچے کی طرح ہوں۔ میں بھی تو تیری ہی مخلوق ہوں۔ مجھے کس غلطی کی سزا مل رہی ہے۔ مگر پھر بھی وہ اپنے قدموں پر قائم بچے کو اٹھائے اسے چپ کروا رہی تھی۔
یہ تو ایک واقعہ ہے جو میں نے اپنے محلے میں دیکھا ہے۔ ایسی کتنی ہی بچیوں کے ساتھ اس طرح کا نا روا سلوک رکھا جاتا ہے۔ کیا جہاں پر یہ کام کرتی ہیں وہ خواتین ان کو اپنے جیسا نہیں سمجھتیں۔ یہ بھی تو کسی کی بیٹیاں ہیں۔ نا جانے کس مجبوری کے تحت وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہوئی ہوں گی۔ چھوٹی عمر میں گھر کی مالکن کی سننی پڑتی ہیں۔ اور جب تھوڑا اور بڑی ہوتی ہیں چودہ، پندرہ سال کی عمر کو پہنچتی ہیں۔ تو گھر کے مرد حضرات کی کی غلیظ نظروں کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
کالج میں تھے تو تب اس بے حس معاشرے میں کب احساس ہوتا تھا ان چیزوں کا، جبکہ ایک دفعہ تو میرے کلاس فیلو نے مجھے بتایا کے امی نے ایک کام والی رکھی ہے گھر میں۔ جس کی عمر پندرہ، سولہ سال کے لگ بھگ تھی۔ والدہ ٹیچر تھی اور والد صاحب ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرنے چلے جاتے۔ اور یہ بھائی صاحب مجھے روز روز آ کر بتاتے کہ کس طرح اس معصوم کو ہراساں کرتا رہا۔
بات کرنے کا مقصد ہے، کہ کیا یہ جو مظلوم قابل رحم طبقہ ہے وہ یہ سب سہنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ چھوٹی عمر میں کام کی زیادتی اور تھوڑا سا بڑا ہونے پر پہلے اس گھر کے کام کرو، برتن دھو کے دو، کپڑے دھو، اور پِھر مردوں کی ذلیل اور گھٹیا نظروں کا شکار ہوتی رہو۔ اور جنسی ہراسانی بھی تو مفت میں کروانی پڑتی ہے۔
اس میں گھر کی عورتوں کا بھی کردار ہوتا ہے۔ کیا عورتوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان کے شوہر کیا گل کھلا سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ان کو چاہیے کہ کوشش کریں شوہر کی موجودگی میں ملازمہ کو گھر میں اکیلا نا چھوڑا جائے۔ اور ماؤں کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی تربیت بھی اس طریقے سے کی جائے کہ ان کو پتا ہو یہ بھی کسی کی بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ جیسے ان کی اپنی ہیں۔ اور خدارا ہم مردوں کو بھی یہ سب سمجھنا چاہیے اس مصنوعی بے راہ روی سے نکلنا چاہیے۔ کیوں کہ ایسا نہ ہو اس مظلوم کے بد دعا کے لیے ہاتھ اٹھ جائیں کیوں کہ کہتے ہیں مظلوم کی دعا عرش ہلا دیتی ہے۔