تیسرا باب۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی معاشرے میں مذہبی نظریات کواتنی اہمیت کیوں حاصل ہے؟
ہم اپنی گفتگو کے دوران دیکھ چکے ہیں کہ ہر معاشرے میں تہذیبی اور قانونی پابندیوں کے خلاف لوگوں میں غصے، نفرت اور بغاوت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ معاشرے سے پابندیاں اٹھا دی گئی ہیں اور ہر مرد کو کھلی اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ جس عورت سے چاہے مباشرت کرے اور جس رقیب کو چاہے قتل کرے اورہر شخص کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ جس شخص کی جو چیز پسند کرے، لے لے تو بظاہر تو یہ صورت حال بہت دلکش نظر آتی ہے لیکن ہر شخص کو ہر دوسرے شخص کی چیزیں بے دریغ حاصل کرنے کی اجازت ہو تو حقیقت میں سوائے ایک شخص کے باقی سب لوگ پریشان ہوں گے اور وہ ایک شخص ؛ایک ڈکٹیڑ، ایک ظالم اور ایک جابر انسان ہوگا۔ جس کی نہ تو کوئی عزت کرے گا اور نہ ہی معاشرے کو اس سے فائد ہ ہوگا۔
ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے مذہب نے ہمیں قانون دیا کہ :
”کسی انسان کو دوسرے انسان کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ “ اس گفتگو سے یہ واضح ہے کہ اگر کوئی شخص تہذیب و ثقافت سے نجات حاصل کرنا چاہتاہے تو وہ کوئی دانشمندانہ انداز میں نہیں سوچتا۔ اگر تہذیب ختم ہو جائے گی تو ہم فطرت کے ساتھ حیوانی سطح پر زندگی گزاریں گے اور ایسی زندگی مسائل اور مصائب سے پر ہوگی۔ ایسی صورت میں اگرچہ ہماری خواہشات پر کوئی پابندی تو نہ ہوگی لیکن ہمیں اپنی خواہشات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ فطرت ایک حوالے سے بڑی ظالم ہے اور انسانوں پر بڑے ظلم کرتی ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقا کا ایک مقصد فطرت کے مظالم سے بچنا ہی تو ہے۔ ہم جس قدر مہذب ہو رہے ہیں، اسی قدر ہم فطرت پر قابو پا رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم کبھی بھی پوری طرح فطرت پر قابو نہ پاسکیں گے۔
زلزلے، سیلاب، آندھیاں اور طوفان آتے رہیں گے اور انسانی جانوں کو ضائع کرتے رہیں گے۔ انسان بیماریوں کے زیر عتاب بھی آتے رہیں گے اور اگر ان سب سے بچ بھی گئے تو انہیں موت سے نبرد آزما ہونا پڑے گا جس کا نہ تو ہمیں کوئی علاج مل سکا ہے اور نہ ہی مل پائے گا۔ فطرت کے یہ طاقتور ہتھیار ہمیں بے بس محسوس کرواتے ہیں۔ اسی بے بسی سے نجات حاصل کرنے اور اپنے تئیں طاقتور محسوس کرنے کے لیے انسانوں نے تہذیب کو فروغ دیا ہے۔ جب انسانوں کا فطرت کے جبر سے مقابلہ ہوتاہے تو وہ اپنے مسائل اور تضادات کو ایک طرف رکھ کر فطرت کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں زندگی عزیز ہے۔
جہاں انسان اجتماعی طور پر فطرت سے مقابلہ کرتے ہیں وہیں انسان اپنی انفرادی زندگی میں بھی فطرت سے نبرد آزما رہتے ہیں اور اسے قسمت (Fate) کا نام دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ انسان جو خارجی پابندیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور ان کے خلاف غصے اور نفرت کے جذبات رکھتا ہے وہ قسمت کا کیسے مقابلہ کر تاہے۔ اس سلسلے میں بھی تہذیب انسان کی مدد کرتی ہے تاکہ وہ اپنے محدود وسائل سے ایسا ماحول اور طرز زندگی اختیار کرسکے جس سے فطرت اور قسمت اس پر کم از کم اثر انداز ہوں۔
اس عمل کی ابتدا بچپن سے ہوتی ہے۔ بچہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور مجبور محسوس کرتا ہے اور اپنے والدین سے خوف کھاتا ہے۔ لیکن وہ باپ جس سے وہ ڈرتا ہے وہ باپ اسے باقی دنیا کے مصائب اور مسائل سے بچاتا ہے اور نوجوانی تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنے خوابوں میں فطرت اور دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے باپوں اور خداؤں کے ہیولے بناتاہے اور ان سے مدد مانگتا ہے تاکہ وہ اسے دشمنوں سے بچاتے رہیں۔
دلچسپی کی با ت یہ ہے کہ وہی خدا جنہوں نے فطرت کو جنم دیا ہے، وہ عام حالات میں فطرت کے قوانین میں دخل اندازی نہیں کرتے اور اگر مذہبی کتابوں میں دخل اندازی کا ذکر آتا بھی ہے تو ہم انہیں معجزے (Miracles) کہتے ہیں۔
انسانی ارتقاء کے سفر میں انسان اپنی فطرت کی تکمیل کرنا چاہتاہے اور جسم کی ضروریات سے زیادہ اپنے ذہن اور شخصیت کی تسکین اور نشوونما چاہتاہے۔ آہستہ آہستہ انسان ایسی خصوصیات کا حامل بن جاتاہے کہ جو اسے زندگی اور موت کے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں مدد دیتی ہیں۔ اسے احساس ہوتاہے کہ انسانی زندگی کی طرح کائنات میں جمادات اور نبادات کی زندگیاں قوانینِ فطرت کے تابع ہیں اور جب قوانین شکنی ہوتی ہے۔ چاہے وہ حیوانوں سے ہو یا انسانوں سے تو ان کے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ انسانوں نے یہ باور کرلیا کہ اگر انسانی نتائج مرتب ہونے سے پہلے مرجائیں تو وہ اعمال ان کی حیات بعدالموت کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر انسان دوسرے انسانوں پر ظلم کرتے ہیں تو انہیں ان کی سزا مرنے کے بعد ملتی ہے۔
انسانوں نے ایسے مذہبی نظریات وضع کیے جس کے تحت انسانی زندگی کا ایک مقصد قرار پا یا اور انہیں بتایا گیا کہ روزِ محشر تمام نیکیوں کا انعام اور سب بدیوں کی سزا ملے گی کیونکہ یہی انصاف کاتقاضا ہے۔ اس طرح سب ظالموں کو سزا ملے گی اور سب مظلوم اپنی دنیاوی زندگی کی تکالیف کا اجر اخروی زندگی میں پائیں گے۔ انسانوں نے نیکی بدی کے اس حساب کے لیے آسمانی اور روحانی طاقتوں کو تخلیق کیا جن کا کام دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ تما م روحانی اور آسمانی طاقتیں ایک طاقت میں جمع ہوگئیں، جسے ہم نے خد ا کا نام دے دیا۔ اس طرح انسان اور خدا کے رشتے میں بچے اور باپ کے رشتے کی قربت اور گہرائی پیدا ہوگئی اور خدا کے ماننے والے انسانوں نے خدا کے ساتھ ایک خاص رشتہ قائم کرلیا اور اپنے آپ کو اس کے چہیتے لوگوں (Chosen People) میں شامل کرلیا۔
میں نے جن مذہبی تصورات کا اختصار سے ذکر کیا ہے۔ ان کے ارتقا ء میں کئی قوموں اور کئی تہذیبوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ میں نے یہاں صرف عیسائی نظریات کی طرف اشارہ کیاہے۔
عیسائی معاشروں میں مذہبی نظریات کو بہت اہم اور مقدس سمجھا جاتا ہے۔ لوگ ان کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان نظریات کی نفسیاتی اہمیت کیا ہے اور انسانوں کے لیے یہ نظریات اتنے مقدس کیوں کر بن گئے ہیں۔
چوتھا باب
ہماری گفتگو کے اس مرحلے پر عین ممکن ہے میرے خیالات کا مخالف مجھ سے کہے ”آپ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ معاشرے کی تہذیب نے ان مذہبی نظریات کو جنم دیا ہے اور اس مہذب معاشرے کے لوگ ان سے چھٹکارا بھی حاصل کر سکتے ہیں تو مجھے یہ بات عجیب سی لگتی ہے۔ مجھے مذہبی نظریات معاشرے کے ان قوانین کی طرح نہیں لگے جن کے تحت لوگ دولت اور محنت کی تقسیم اور بچوں اور عورتوں کے حقوق کے فیصلے کرتے ہیں۔ “
میرے مخالف کی بات بجا لیکن میں پھر بھی اس بات پر اصرار کروں گا کہ میری نگاہ میں مذہبی نظریات نے بھی انسانی تہذیب کی باقی روایات کی طرح انسان کی فطرت کی بالادستی سے نجات پانے کے لیے پرورش پائی ہے۔ انسان جب کسی معاشرے میں پرورش پاتاہے تو وہ ریاضی کے مروجہ قوانین کی طرح مذہبی نظریات بھی وراثت میں پاتاہے۔ فرق یہ ہے کہ ان نظریات کو روحانی رنگ میں پیش کیاجاتاہے اور اسے بتایا جاتاہے کہ ان نظریات کو انسانوں نے وحی کے توسط سے حاصل کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان نظریات کو مقدس سمجھا جاتاہے۔ ان نظریات کو وحی کے طور پر پیش کرنے سے ان کی تاریخی اہمیت کو کم کرنے اور مذہبی اہمیت کو بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مجھ سے اختلاف کرنے والے کہہ سکتے ہیں۔ ”آپ کی یہ دلیل کہ انسانی تہذیب کا ارتقا فطرت پر بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش کا ماحصل ہے کچھ زیادہ وزنی نہیں لگتی۔ ہو سکتاہے کہ و ہ انسانی تجسس کا نتیجہ ہو۔ آپ نے خدا کے تصور کو پہلے باپ کے تصور سے تشبیہ دی اور پھر انسان کو بچوں کی طرح معذور اور مجبور ثابت کیا، آخر میں ان دلائل کا ماخد کیا ہے؟ “
ان اعتراضات کے جوابات میں، میں کہوں گا کہ انسان کا متجسس ہونا بجا، لیکن تجسس اس پورے ارتقا کی ادھوری تشریح ہے۔ انسان فطرت کو سمجھنا چاہتاہے تاکہ بعد میں اس پر قابو پا سکے اور بالادستی حاصل کرسکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انسانوں میں بچپن کی بے بسی کا احساس بلوغت کے بعد بھی رہتاہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی صورت بدل جاتی ہے۔ بچپن میں پہلے بچہ اپنی ماں کے قریب ہوتاہے کیونکہ وہ اس کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے اور اس کی خواہشات کی تسکین کرتی ہے۔ بعد میں بچہ باپ کے قریب ہو جاتاہے کیونکہ باپ اسے تحفظ کا احساس دلاتاہے، لیکن باپ کے ساتھ یہ رشتہ دو دھاری تلوار کی طرح ہوتاہے۔ ایک طرف بچہ باپ کی طاقت سے ڈرتا ہے اور دوسری طرف وہ باقی دنیا سے باپ کی طاقت کے پیچھے چھپنا بھی چاہتا ہے۔ بعد میں یہی احساس اور یہی جذبہ انسان کو مذہب کے قریب لے آتا ہے اور جوانی میں ہمیں بچے اور باپ کے رشتے کا عکس انسان اور خدا کے رشتے میں نظر آتا ہے۔
پانچواں باب۔ سراب کا مستقبل
آئیں ہم اپنی گفتگو کو ایک قدم آگے بڑھائیں اور مذہبی نظریات کی نفسیاتی اہمیت جاننے کی کوشش کریں۔
میری نگاہ میں مذہبی خیالات وہ حقائق اور نظریات ہیں جن تک انسان منطق کے ذریعے نہیں بلکہ ایمان کے راستے پہنچتا ہے۔ اس لئے اسے بہت عزیز رکھتا ہے۔ مذہبی انسان ان لوگوں کو جو ایمان نہیں رکھتے کم فہم سمجھتا ہے اور اپنے نظریات کی وجہ سے اپنے آپ کو خوش قسمت اور ایمان کی دولت سے مالا مال سمجھتا ہے۔
مذہبی علوم اور دیگر علوم میں یہ فرق ہے کہ اگر ہم بچپن میں جغرافیہ کا سبق پڑھتے ہیں تو بعد میں ہم ان کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ ہم جوانی میں دنیا بھر میں گھوم کر ان جگہوں کو خود جا کر دیکھ سکتے ہیں، جنہیں ہمیں جغرافیے کے اساتذہ نے پڑھایا تھا یا ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا، لیکن مذہبی علوم پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔ جب ہم مذہبی نظریات کی حقیقت کے بارے میں اساتذہ سے سوال پوچھتے ہیں تو ہمیں کچھ اس قسم کے جواب ملتے ہیں۔
ہمیں ان نظریات کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے اور ان کے بارے میں سوال نہیں پوچھنے چاہیں۔
ایک وہ زمانہ تھا جب ان نظریات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو سزا ملتی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر وہ نظریات سچے ہیں تو پھر ان پر سوالات اور اعتراضات کی ممانعت کیوں؟ سوال تو وہ نظریہ برداشت نہیں کر سکتاہے جو عدم برداشت کا شکار ہو۔ اگر مذہبی نظریات حقائق اور سچائیوں پر مبنی ہوتے تو وہ ہر قسم کے سوالات کو خوش آمدید کہتے۔
مذہبی عقائد کے بارے میں یہ دلیل پیش کرنا کہ ہمارے آباؤ اجداد ان پر ایمان لائے تھے، کوئی موثر دلیل نہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد اور بزرگ کئی حوالوں سے کم علم اور کم فہم تھے۔ وہ بہت سی ایسی چیزوں پر یقین رکھتے تھے جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا مذہبی عقائد بھی تو اس گروہ کا حصہ نہیں ہیں؟ ہمارے بزرگوں نے اپنے عقائد کے حق میں جو دلائل پیش کیے ہیں۔ وہ نہ صرف کچھ زیادہ جاندار نہیں ہیں بلکہ غلط بیانیوں اور تضادات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان عقائد کے بارے میں روحانیت اور وحی کے دلائل پیش کرنا انہیں معتبر اور قابل قبول نہیں بناتا۔
اس گفتگو سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ بچپن میں ہمیں جو علم دیا جاتا ہے اس کا سب سے اہم حصہ جس کا تعلق زندگی کے رازوں سے ہوتاہے۔ سب سے زیادہ غیر معتبر ہو تاہے کیونکہ ہم اس کی کوئی تصدیق نہیں کر سکتے۔ یہ صورت حال ہمارے لئے ایک نفسیاتی الجھن پیدا کرتی ہے۔ میرا یہ کہنا کہ ہم مذہبی عقائد کے حق میں کوئی عقلی ثبوت یا کوئی منطقی دلیل پیش نہیں کرسکتے، کوئی نئی بات نہیں۔ ہم سے پہلے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں مذہبی عقائد کے سلسلے میں سوال اور شک پیدا ہوئے۔ لیکن ان پر معاشرتی پابندیاں اتنی زیادہ تھیں کہ انہیں ان جذبات او رخیالات کے اظہار کی اجازت نہ دی گئی۔ انہیں ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی اور انہیں بہت سی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مذہبی عقائد کے بارے میں جتنے بھی ثبوت فراہم کیے جاتے ہیں ان کا تعلق ماضی سے ہوتاہے۔ اگر ان عقائد میں سے چند ایک کا بھی ثبوت فراہم کیا جاسکتا تو عین ممکن تھا کہ وہ لوگوں کی نظروں میں کچھ معتبر قرار پاتے۔ مثال کے طور پر مذہبی لوگ انسانی روح پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمیں بھی اس کا قائل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی طور پر بھی یہ ثابت نہیں کر سکتے اور لوگ اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ عقیدہ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ مذہبی لوگوں کے ذہن کی اختراع ہے۔ وہ عظیم لوگوں کی روحوں سے گفتگو کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں۔ لیکن جو گفتگو وہ بیان کرتے ہیں وہ نہایت ناقص ہوتی ہے۔
جب مذہبی لوگوں کا اس قسم کے سوالوں اور اعتراضات سے سامنا ہوتاہے تو وہ کہتے ہیں کہ مذہبی عقائد منطق کے دائرے سے باہر اور بالاتر ہیں، ایسے عقائد کی سچائیوں کو انسان اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔ انہیں عقل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ حقیقت ہے کہ مذہبی عقائد کو قبول کرنے کے لیے ایک داخلی تجربے کی ضرورت ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہیں عمر بھر یہ تجربہ نصیب نہ ہو۔ ان لوگوں کو، جو عقل کی بجائے کسی داخلی تجربے کی وجہ سے نظریات قبول کریں، کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ نہ صرف اصرار کریں کہ دوسرے لوگ ان کے نظریات کو قبول کریں بلکہ ان پر عمل بھی کریں۔
بعض دفعہ مذہبی لوگ یہ بھی کہتے ہیں ”فرض کریں اگر ایسا ہو گیا تو؟ “
میرے نزدیک ایسے نظریات کا تعلق حقیقت سے کم اور فکشن سے زیادہ ہے جنہیں عاقل و بالغ انسان اپنی زندگیوں کے لیے مشعل راہ نہیں بنا سکتے۔
جب میں اپنے بچوں کو پریوں کی کہانیا ں سنایا کرتا تھا تو وہ پوچھا کرتے تھے۔ ”ابو! کیا یہ کہانی سچی ہے یا ہم فرض کرلیں اور جب میں یہ کہا کرتا تھا کہ وہ کہانی سچی نہیں ہے تو ان کے چہروں پر ناگواری کے جذبات نمایاں ہوتے تھے۔ انہیں یوں لگتا تھا جیسے ان کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہو۔ میرے خیال میں مذہبی لوگ کتنا ہی اپنے عقائد کی پریوں کی کہانیاں سنالیں، سمجھدار لوگ ان کے دام میں نہیں آئیں گے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ مذہبی عقائد کے نا معتبر ہونے کے باوجود مدتوں لوگوں کو ان پر اعتراض کرنے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور اب ہم ان عقائد کو انسانی فکر اور تجربے کے ترازو میں تول سکتے ہیں۔