تصویر کے کاپی رائٹ
دلی پولیس نے پچھلے مہینے 9 دسمبر 2017 کو دو لڑکیوں کے
ایک گینگ کو پکڑا جو گھروں میں کام کرتی تھیں، لیکن موقع دیکھ کر رفوچکر ہو جاتی
تھیں۔ ان میں سے ایک نے پٹیل نگر کے گھر سے 10 لاکھ روپے کی چوری کی اور پولیس کو
بتایا کہ وہ بھی اپنے مالک کی طرح پراپرٹی ڈیلر بننا چاہتی تھیں۔
لیکن یہ کوئی پہلا ایسا معاملہ نہیں ہے۔ اگر آپ سوچتے
ہیں کہ ساری چوریاں چور کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ دلی میں ’چورنیوں‘ کے
گینگ بھی کام کرتے ہیں۔
شادیوں
میں ہاتھ صاف کرنے والا گینگ۔۔
تصویر کے کاپی رائٹ
انڈیا میں تو شادیاں لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ کی طرح
منائی جاتی ہیں۔ چاہے متوسط طبقے کی ہوں یا امیروں کی۔ شادی یا تو ٹینٹ لگا کر کی
جاتی ہے یا پھر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں۔ کوں خیال کرتا ہے کہ شادی میں کون آ رہا
ہے، کون کھا رہا ہے، کون چرا رہا ہے!
تین لڑکیاں، مہنگے برینڈ کے کپڑے پہنے ہوئے، سجی دھجی
کسی فائیو سٹار ہوٹل کی شادی میں جائیں تو کس کو شک ہوگا کہ یہ 'کام' پر نکلی ہیں
اور بڑا ہاتھ صاف کرنے کے چکر میں ہیں؟ شادیوں پر ٹکٹ یا پاس تو ہوتا نہیں کہ کوئی
دکھانے کو پی کہہ دے۔
اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ یہ تین لڑکیاں انپڑھ ہیں،
مدھیہ پردیش کے راجگڑھ کے گلکھیڑی گاؤں کی ہیں، تو کیا تب بھی آپ اس بات پر یقین
کریں گے کہ یہ گروہ 6-7 فائیو سٹار ہوٹلز میں ہونے والی شادیوں میں بھاری مال
چرانے میں کامیاب ہوا؟
چھوروں
سے کم ہیں کے؟
تصویر کے کاپی رائٹ
رانو، منیشا اور ورشا۔۔ تینوں 20-25 برس کی لڑکیاں ہیں۔
یہ ایسے ہی منہ اٹھا کر دلی کی فائیو سٹار شادیوں میں چوری کرنے نہیں آ گئیں۔
باقاعدہ اپنے گاؤں کی دوسری 'سینئیر' چورنیوں سے ٹریننگ لی تھی۔
دلی پولیس کے ترجمان ڈی سی پی مدھر ورما نے اس بارے میں
کئی دلچسپ باتیں واضح کیں۔ انہوں نے کہا، 'یہ سب شادیوں میں ایک دم سج دھج کر،
مہنگے کپڑے پہن کر جاتیں۔ بات چیت اور چال ڈھال کی ایسی ٹریننگ کہ کسی کو شک بھی
نہ ہو۔'
اس گینگ میں کام کرنے کا طریقہ بھی دلچسپ ہوتا ہے۔ وہ
ایسے وقت پر شادی میں شامل ہوتی ہیں جب بارات پہنچ چکی ہوتی ہے، اور چاروں اور بھیڑ
اور شور شرابے کا عالم ہوتا ہے۔ لڑکی والے سمجھتے ہیں کہ لڑکے والے ہیں اور لڑکے
والے سمجھتے ہیں کہ لڑکی والوں کی طرف سے ہوں گی۔ کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں کرتا کہ
آپ ہیں کون! لڑکے یا لڑکی کی چاچی کی بہن کی پوتی بھی تو ہو سکتی ہے!
ڈی سی پی مدھر ورما نے بتایا کہ ان کا ہدف شگن والا بیگ
ہوتا ہے۔ پولیس میں معاملے درج ہوئے۔ پہلے پہلے تو عورتوں پر پولیس کو شک تک نہیں
ہوا۔ کئی ایسے لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی جو اس طرح کے واقعات میں پہلے پکڑے جا چکے
تھے۔ لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔
دلی
پسندیدہ جگہ ہے۔۔
تصویر کے کاپی رائٹ
ڈی سی پی مدھر ورما ان دنوں کرائم برانچ میں تعینات
تھے۔ انہوں نے اے سی پی سنجے سہراوت اور انسپیکٹر نیرج چودھری کی سربراہی میں ایک
ٹیم بنائی۔ جن شادیوں میں چوری ہوئی تھی ان سبھی شادیوں کی ویڈیوز منگائی گئیں۔
ویڈیو والے بھائی صاحب کے کیمرے سے کوئی خاتوں کہاں بچ سکتی
ہے! ان سبھی شادیوں کے ویڈیوز میں یہ تینوں نظر آئیں۔ شادی والے گھروں سے پوچھا تو
انہیں کوئی پہنچانتا ہی نہیں تھا۔ تو ایسی یہ تین بن گئیں 'پرائم سسپیکٹ'۔
شادی کے سیزن میں دلی جیسے شہر میں تو ایک دن میں 25-25
ہزار شادیاں بھی ہوتی ہیں۔ پولیس کہاں کہاں ڈھونڈھتی ان لڑکیوں کو۔ فروری 2017 میں
رویل پیلیس ہوٹل میں شادی تھی اور لڑکیوں نے پھر سے اپنا ہنر دکھا دیا۔
اشوک وہار تھانا پولیس نے اس بار انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ
لیا۔ مدھر ورما کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ممکن ہوا کیوں کہ پولیس کے ہاتھ ایک سراغ
لگ چکا تھا، اور وہ تھا ایک اوٹو رشکا ڈرائیور جسے یہ ہر چوری میں بھاگنے کے لیے
استعمال کرتی تھیں۔
چورنیوں کا تہلکہ
ڈی ایس پی ورما نے بتایا کہ فی الحال یہ چورنیاں ضمانت
پر باہر ہیں اور معاملہ ابھی عدالت میں چل رہا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ان لڑکیوں
نے پوچھ گچھ کے دوران بنتایا کہ ان کے گاؤں کی کئی لڑکیاں اسی طرح چوریاں کرتی ہیں
اور دلی ان کی پسندیدہ جگہ ہے۔ سیزن میں آ جاتی ہیں اور پھر کماکر اپنے گاؤں لوٹ
جاتی ہیں۔
رانو تو پچھلے 6 سال سے چوریاں کر رہی تھیں۔ منیشا پر
پہلے سے ہی 5 چوری کے معاملے درج تھے۔ تھانہ اتم نگر، تھانہ راجیندر نگر اور تھانہ
مہرولی میں منیشا کے خلاف کیس درج ہیں۔ اسی طرح رانو کے خلاف باراکھمبا روڈ تھانے
اور حوض خاص تھانے میں کیس درج ہے، جبکہ ورشا کے خلاف آر کے مارگ تھانے میں کیس
درج ہے۔ یعنی پوری دلی میں ان 'چورنیوں' کا تہلکہ تھا۔
لاجپت
نگر کا گرل گینگ
'اور میڈم سب لڑکیاں تھیں۔ اتنا بڑا
تالا توڑا، اتنا بھری شٹر اٹھایا۔۔ دکان میں رکھے نوے ہزار روپے چوری کر لے گئیں۔
صبح 5-6 بجے کی بات ہے۔۔' لاجپت نگر کے ای بلاک میں بیکر باسکیٹ دکان کے مالک آشیش
آج بھی اس صبح کو یاد کرتے ہیں تو حیرانی ان کے چہرے پر صاف نظر آتی ہے۔
وہ حیران تھے کہ لڑکیاں بھی کب سے گینگ بنا کر چوریاں
کرنے لگ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سی سی ٹی وی میں قید تصویریں دیکھ دیکھ کر
پریشان تھا۔ پولیس کی کوششوں کے باوجود آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ اب بس دکان میں
پیسے رکھنے بند کر دیے ہیں۔
جیب
کترنے میں خواتین نے بازی ماری
اب بس یہی کسر رہ گئی ہے کہ بورڈ کے امتحانوں کے ساتھ
ساتھ ایسی شہ سرخیاں جیب کاٹنے والوں کے لیے بھی بننے لگیں۔
سینٹرل ریزرو پولس کا کہنا ہے کہ دلی میٹرو میں جیب
کتری کے معاملے میں جتنے لوگ پکڑے جاتے ہیں ان میں نوے فیصد کے قریب عورتیں ہوتی
ہیں۔
تو بھائی لوگ، کُڑیاں صرف دل نہیں چراتیں!
بشکریہ بی بی سی اردو