موجودہ زمانے میں ہم ہمیشہ گزرے ہوئے زمانے کو برا کہتے ہیں، ہم ہمیشہ بگڑے حالات و ماحول کو دیکھھ کر یہی اندازہ لگاتے ہیں کہ آج کل کا ماحول خراب ہے یا آج کل زیادہ تر یہی تبصرے سننے کو ملتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے زمانہ خراب کر دیا ہے۔ کبھی نیٹ، کبھی کیبل یا کبھی کوئی لڑکی یا کبھی یونیورسٹی اور کالج کا ماحول۔ ہم کبھی بھی اپنی پرورش اور اپنی کوتاہی پر غور ہی نہیں کرتے کہ ہماری نگہداشت یا پرورش میں کہیں کوئی کوتاہی تو سرزد نہیں ہوئی۔ یہ ہماری ابتدا سے عادت رہی ہے کہ اپنا کیچڑ دوسرے کے سر پر اچھالنا، یہی ہمارے معاشرے میں چلنے کا طریقہ کار شروع سے رہا ہے۔
کچھ روز قبل میں کراچی گئی، ماموں جان کے اصرار کرنے پر میں ان کے گھر کی جانب روانہ ہوئی۔ جیسے ہی لفٹ میں ساتویں منزل کے لئے بٹن دبایا تو ایک لڑکی سے میرا سامنہ ہوا، جس کو میں نے سلام کیا مگر اس نے سلام کا جواب دینے کے باوجود مجھے نظرانداز کر دیا۔ میں سمجھی شاید اس کا ذاتی مسئلہ ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح وہ آٹھویں منزل پر اور میں ساتویں فلور پر ماموں جان والوں سے مل کر اس بات کو بھول گئی۔ ایک رات وہاں رکنے کے بعد صبح 8 بجے مجھے واپس ٹریننگ کے لئے جانا تھا۔
میں ماموں کے ساتھ جیسے لفٹ کے پاس پہنچی تو میں نے اسی لڑکی کو واپس جاتے دیکھا لیکن میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ ماموں نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے اس لڑکی کی کہانی سنائی اور بتایا کہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ کال گرل تھی۔ میں نے ماموں سے زیادہ بات چیت نہیں کی لیکن مجھے دل میں یہ بات محسوس ہوئی کہ دنیا میں کرنے کو اور بھی کام ہیں مگر چند لڑکیاں یہی پیشہ کیوں چن لیتی ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی اور مجھے پریشان کرنے لگی۔ میں نے اسی دن سے کال گرل، طوائف اور جسم فروشی کرنے والی عورتوں پر ریسرچ کرنا شروع کردی۔
اسی دوران میں نے مختلف فلم، ڈرامے اور کتابیں مل گئیں، جن میں نامور ناولسٹ پاؤلو کولو کی کتاب ”15 منٹ“ میرے ہاتھ لگی، جس میں بتایا گیا کہ جو لڑکیاں اپنا آئیڈیل ڈھونڈنے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے جو خواب بنتی ہیں، ان ہی خوابوں کی دنیا میں دراصل وہ ایک غلط راہ پر آجاتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جھوٹی تعریفیں کرنے والے مرد ان سے محبت نہیں بلکہ ہوس کے پجاری ہوتے ہیں، کیونکہ عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو اگر کسی مرد کے ساتھ سچی ہو جائے تو اسے خدا سمجھ بیٹھتی ہے اور مرد کسی ایک عورت پر نہیں ٹکتا، وہ اپنے دل میں چھوٹے چھوٹے بہت سے خدا بناتا ہے اور ہر ایک کو اپنی ضرورت کے حساب سے پوجتا ہے۔ لڑکیاں اسی ہوس کو سچی محبت سمجھ کر اپنی عزت گنوا دیتی ہیں اور نتیجتا وہ یا تو اپنے آپ کو سنبھال لیتی ہیں یا پھر غلط راہ پر آ جاتی ہیں۔
اردو زبان کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے عورت کی جو کھلے الفاظ میں تعریف بیان کی وہ قابل تحسین ہے۔ سعادت حسن منٹو خوبصورت عورت کو بے وقوف کہتے ہیں اور آگے چل کر بہت سی جگہوں پر وہ طوائف اور مظلوم عورت کی طرفداری بھی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو سعادت حسن منٹو اس دور کے لکھاری تھے جب ایک عورت نے تانگہ چلایا تو اسے گندہ کر کے کوٹھے پر بٹھایا گیا۔ جس کا ذکر ہمیں ان کے ایک افسانے “لائسنس” میں ملتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ لڑکیاں جب بڑی ہوتی ہیں وہ حساس اور نازک مزاج کی مالک بن جاتی ہیں اور بہت سے والدین ان کو ترجیح نہیں دیتے، ان کی کمزوریوں کو پورا نہیں کرتے اور ان پر بے جا سختیاں لگا کر عزت کا ٹھیکیدار انہی کو بنا دیتے ہیں۔ پھر وہ لڑکیاں بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کو دور سے چمکتا پتھر بھی ایک ہیرا لگتا ہے جو ان کو ہر شے سے زیادہ عزیز ہو جاتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ کوئی ایسا دور تھا جب تالپور، میر، خواجہ سرا کو اپنے گھر کا غلام قرار دیتے تھے، ان کو عورتوں کی فکر اور آبرو کی پرواہ ہونے کے باوجود وہ گھر میں ملازم تک خواجہ سرا رکھتے تھے کہ ہماری عورتیں مردوں سے محفوظ رہیں لیکن ایک گھر کے اندر ایسا بھی ہوا کہ ایک عورت خواجہ سرا کے عشق میں گرفتار ہوگئی، کیونکہ عورت کبھی بھی اپنا عورت پن نہیں چھوڑتی، وہ ہر حال میں اپنے دل کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتی ہے اور اسے انہیں پوری کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔
پاکستان اور انڈیا جب آزاد نہیں ہوئے تھے تب دہلی، لکھنؤ کے کوٹھے عروج پر تھے اور بڑے بڑے نواب وہاں جا کے اپنا وقت گزارا کرتے تھے۔ بعد میں جب پاکستان ایک آزاد ملک بنا تو کوٹھوں کا راج ختم ہوگیا اور لاہور آباد ہوا۔ مختلف حکومتوں کی پالیسیوں کے ذریعے ان کوٹھوں کے بہت نقصان ہوا لیکن آج بھی یہ چیز عروج پر ہے۔ پہلے ایک مخصوص جگہ ہوا کرتی تھی لیکن اب ہر گلی، ہر گاؤں اور ہر شہر میں لوگوں نے رینٹ پر مکانات لے رکھے ہیں اور کام چلا رہے ہیں۔ سندھ کے مشہور شہر حیدرآباد کے علاقے سرے گھاٹ میں بھی ایک کوٹھا موجود ہے جو آج بھی اپنے عروج پر ہے۔
اس سلسلے میں جب ایک دلال سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ہمارے پاس بہت سی عورتیں ہیں جن میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو مالی مسائل اور اپنی غربت کو دور کرنے کے لئے ادھر آتی ہیں اور کچھ غط لڑکوں کے ذریعے سپلائی ہوتی ہیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ کچھ وقت قبل ایک لڑکی ہمارے پاس آئی اور اسے وہ لڑکا پچھلے 6 برس سے خود استعمال کرتا رہا اور پھر دوستوں کے ہاتھوں اس کو استعمال کرواتا رہا، پھر وہ خوشی سے یہاں آگئی۔
مجھے ریسرچ کے بعد کچھ ایسی معلومات بھی ملی کہ کچھ ایسی لڑکیاں ہیں اور مافیا ہیں جو ویڈیو کال یا وائیس کال کے ذریعے بھی نوجوان لڑکیوں کو اسی طرح کی ٹریننگ دیتی رہتی ہیں اور کچھ ابھی کمسن ہیں، کچھ ایسی لڑکیاں ملازم رکھی ہوئی ہیں جو ویڈیو کال کے ذریعے اپنے کسٹمرز کا دل لبھاتی ہیں۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ پیسہ، دولت، شہرت اور اپنے خوابوں کے تعبیر ہی زندگی ہے۔ کیا اس کے علاوہ دنیا میں کچھ نہیں اور میرا جسم۔ میری مرضی کا نعرا لگانے سے کیا ہم لبرل ہو جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ ہم جتنی اپنی حفاظت خود کر سکتے ہیں اتنی کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی چیزوں سے بچیں اور صحیح۔ غلط کی پہچان کریں اور والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی بچیوں کا خیال رکھیں، کڑی نظر رکھیں اور دوست بن کر رہیں۔ والدین ان کے دوستوں پر ان کی مصروفیات پر بھی نظر رکھیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بلاوجہ پابندی نہ لگائیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ بھی اس معاملے میں والدین کی طرح اپنا کردار نبھائیں تو کافی لڑکیاں ان معاملات سے بچ سکتی ہیں۔