اس وقت بلوچستان کے 829 سکولوں کے 1489 اساتذہ گزشتہ 5 ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے سکولوں کے اساتذہ مشکلات جھیل رہی ہیں۔
بلوچستان ایجوکیشن پراجیکٹ کے اساتذہ جو اس وقت تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کنٹریکٹ آرڈرز کے جاری نہ ہونے سے مشکلات سے دوچار ہیں ان کی مشکلات پر ذمہ داران توجہ نہیں دے پا رہے۔
بلوچستان ایجوکیشن پراجیکٹ کے تحت سکولوں کے اس منصوبے کا آغاز جولائی 2015 کو ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت سکولوں کے قیام کا باقاعدہ آغاز 2016 کو ہوا قیام کے ساتھ ہی اساتذہ کی بھرتیاں شروع کی گئیں یہ بھرتیاں این ٹی ایس اور ڈسٹرکٹ ریکروٹمنٹ کمیٹی کے ذریعے سے کی گئیں۔ سکولوں کے قیام اور اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے جو نیا فارمولا استعمال میں لایا گیا اسے ہر سطح پر سراہا گیا۔ بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان 2013۔ 18 کو بنیاد بنا کر اہم اصلاحات یہ لایا گیا کہ سکولوں کو جینڈر فری قرار دے کر سکولوں سے بوائز اور گرلز کا ٹیگ ہٹایا گیا اور ماضی کے برعکس پرائمری سیکشن میں خواتین ٹیچرز کی تعیناتیاں عمل میں لائی گئیں۔ سکولوں کے قیام سے 2018 تک سکولوں سے باہر 42 ہزار طلبا و طالبات کو مذکورہ سکولوں میں داخلہ مل گیا۔
جون 2018 تک انہی اساتذہ کو بلوچستان ایجوکیشن پراجیکٹ کے ذریعے تنخواہیں ملتی رہیں اس دوران بلوچستان ایجوکیشن پراجیکٹ اور محکمہ تعلیم بلوچستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا معاہدے کے مطابق اساتذہ اور سکولوں کا نظام محکمہ تعلیم کے پاس آگیا۔ اساتذہ کو جون 2019 تک تنخواہوں کی ادائیگیاں محکمہ تعلیم کے ذریعے ہوتی رہیں تاہم انہیں نیا کنٹریکٹ نامہ جاری نہیں ہوا۔ جون 2019 کو ان کو آخری بار تنخواہ ملی۔ اور 709 نئے سکول اور 120 اپ گریڈ سکولز کے 1489 اساتذہ جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر اور نومبر کی تنخواہوں سے محرومی ہیں مشکلات کے شکار یہ اساتذہ تدریسی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔
الماس قادر گورنمنٹ پرائمری سکول کمبی نال میں بطور جے وی ٹیچر فرائض انجام دے رہی ہیں۔ تنخواہوں کے عدم حصول نے ان کے لیے پریشانیاں پیدا کی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ”ایک طرف فرض ہے جسے نبھا رہی ہوں دوسری جانب مالی مشکلات ہیں موجودہ دور میں اگر آپ کے پاس پیسے نہ ہوں تو آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا نہیں سکتیں“ الماس شادی شدہ خاتون ہے اسے نہ صرف ٹرانسپورٹیشن اور گھر کا خرچہ چلانے کے لیے مالی مشکلات کا سامنا ہے بلکہ شوہر کی بیماری کے سلسلے میں ان کی علاج اور ادویات کے لیے قرضوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ یہ مشکلات ایک ٹیچر کو مزید نفسیاتی مسائل سے دوچار کرتی ہیں۔
ڈسٹرکٹ فوکل پرسن پراجیکٹ خضدار رخسانہ کریم کہتی ہیں۔ ”اس وقت میرے انڈر بلوچستان ایجوکیشن پروجیکٹ کے 29 نئے اور 5 اپ گریڈ سکولز ییں جن میں اساتذہ کی تعداد 65 ہے اور تمام سکولوں کے اساتذہ تنخواہوں کے حصول سے محروم ہیں۔ تنخواہوں سے متعلق ان استانیوں کی کالز آتی ہیں میرے پاس ان کو تسلی دینے کے سوا کچھ نہیں۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کنٹریکٹ میں عدم توسیع نے تمام اساتذہ کو تشویش میں مبتلا کیا ہے کہ کہیں ان کی ملازمت تو چلی نہیں گئی ہے۔ “
ریجنل ایجوکیشن افسر منصوبہ گل زمان کہتے ہیں ”یہ منصوبہ مکمل طور محکمہ تعلیم کے پاس چلا گیا ہے اب یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس پر فوری کام شروع کرتے جو وہ نہ کر سکے اس صورتحال نے اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کا عمل روک دیا ہے محکمہ تعلیم کے صوبائی ذمہ داران نے ہم سے اس حوالے سے مدد مانگی ہے اور ہم اس حوالے سے کوشش کر رہے ہیں کہ اساتذہ کی تنخواہوں کا معاملہ محکمہ تعلیم کے توسط سے جلد حل ہو جائے۔ “
بلوچستان ایجوکیشن پراجیکٹ کے زیرانتظام چلنے والی یہ پراجیکٹ ایک لحاظ سے کامیاب اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اسے بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان 2013۔ 18 کے تحت چلایا گیا۔ مگر جہاں اساتذہ پانچ ماہ سے تنخواہوں کے حصول سے محروم ہوں تو وہاں سوال ضرور اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ تعلیمی پالیسیاں اتنی ناقص کیوں ہیں؟ اب اگر ایک سیکرٹری یا ڈائریکٹر ایجوکیشن کی دو ماہ کی تنخواہ بند ہوجائے تو کیا وہ ذمہ داریاں نبھا پائیں گے۔
بلوچستان ایجوکیشن سسٹم محکمہ تعلیم کے ذمہ داران سے مطالبہ کرتا ہے کہ اساتذہ کو نہ صرف بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے بلکہ ان کے حق میں کنٹریکٹ جاری کرکے انہیں ذہنی ازیت سے نجات دلائیں۔ بلوچستان ایجوکیشن سسٹم ذمہ دار و حاضر باش اساتذہ کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔