مغلیہ دور میں خواجہ سرا حرم کی تمام سر گرمیوں پر نظر رکھتے تھے اور اُس کی اطّلاعات بادشاہِ وقت کو پہنچاتے تھے۔ اُن کا دربار میں کافی اثر ہوتا تھا۔ اکثر امرا بادشاہِ وقت کی خوش نودی کے لیے بھی اُنھیں استعمال کرتے تھے۔ مغلیہ دور میں محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں خواجہ سراﺅں کو ایک خاص حیثیت حاصل ہوئی۔ ”فرہنگِ آصفیہ“ میں اِس کا ذکر یوں ہے:
ہمارے ہندوستان میں محمد شاہ رنگیلے کے وقت سے اِس فرقے نے رونق پکڑی، کیوں کہ بادشاہِ مذکور نے محلوں میں آنے جانے کے واسطے قلماقنیوں، ترکنوں، جسولنیوں، یعنی بساولنیوں وغیرہ کے بجاے ایسے ہی لوگوں کو مقرّر فرما کر ’ناظر‘ اور ’خوجہ‘ کے لقب سے ملقّب کیا، جیسے ناظر محبوب علی خاں وزیرِ بہادر شاہ، ناظر بسنت علی خاں وزیرِ شاہ عالم۔ ناظر بلال علی خاں، ناظر محفوظ علی خاںوغیرہ وغیرہ اب تک نام رکھے جاتے تھے۔ اِسی عہد میں جب کثرت سے یہ لوگ ہوگئے اور دیکھا کہ محمد شاہ کو راگ رنگ سے بہت شوق ہے تو اِن لوگوں نے ناچنا گانا اختیار کیا اور اپنا ایک علاحدہ ہی فرقہ مقرّر کر کے میربَہُوجی ایک خنثے کو، جیسے میر بھُچڑی کہنے لگے، اپنا پیر قرار دیا۔ وہ گرو بنے، یہ چیلے کہلائے اور آگے کو گرو اورچیلے کا سلسلہ چلا اور اِن سب کا سردار ’بادشاہ‘ کہلایا جس کی گدّی، یعنی تخت پہاڑ گنج واقعِ دہلی ہے۔ لاوارث ہیجڑے کا مال، یعنی جس کا گُرو یا چیلا زندہ نہ ہو، بادشاہ کے سپرد کیا جاتا اور ہر قسم کی آمدنی میں بادشاہ کو بہ طورِ خراج کچھ دیا جاتا ہے۔ شہر میں جہاں کہیں بیٹا ہوتا ہے، وہاں اُس علاقے، یعنی بِرت کے ہیجڑے جاکر ناچتے گاتے اور اپنی بدھائی لاتے ہیں؛ ہولی، دیوالی، دسہرے میں، مگر زیادہ تر صرف دیوالی میں یہ لوگ دُکان دُکان ڈھولک بجا کر ناچتے، چھلّے گاتے اور مانگتے پھرتے ہیں۔ میر بھُچڑی کی کڑھائی اِن کے ہاں ایک مشہور نیاز ہے ہیجڑے کا مُردہ کسی نے نہیں دیکھا، بل کہ مثل بہت مشہور ہے کہ کھتری کی بارات اور ہیجڑے کا مُردہ کسی نے نہیں دیکھا۔ جس کی وجہ، یہ ہے کہ مذہبِ اسلام میں اِن کے مُردے کی نماز جائز نہیں، پس یہ لوگ اپنا مُردہ شُہدوں یا قلیوں کے سپرد کر کے دھو کے سے نماز پڑھوا لیتے ہیں اور اُنھی سے دفن کرا دیتے ہیں،بعد میں قبر پر جا کر روتے پیٹتے اور خوب ماتم کرتے ہیں۔ دہلی میںعلی الصّباح ہر ایک محلے میں ایک ہیجڑا آتا اور یہ پُکارتا ہوا پھیری لگا جاتا ہے: ”ہوا بیٹا! کسی کے ہوا بیٹا! کون سا گھر جاگا! “ جس گھر میں لڑکا پیدا ہوتا ہے، وہاں کی خبر لگا جاتا اور دوسرے روز اپنی ٹولی کو لے کر بِرت مانگنے آکھڑا ہوتا ہے، اور جو کچھ قسمت کا ہوتا ہے، یہ سب ناچ گا کر بدھائی لے جاتے ہیں:
بیٹا ہوا کسی کے، جو سن پاویں ہیجڑے
سنتے ہی اُس کے گھر میں پھر آ جاویں ہیجڑے
ناچیں بجا کے تالیاں اور گاویں ہیجڑے
لے لے کے بیل، بھاو بھی بتلاویں ہیجڑے
اُس کے بڑے نصیب، جہاں آویں ہیجڑے
(نظیر اکبرآبادی)
سپہ سالار خواجہ سرا، مَلِک کافور
برِّصغیر کے خواجہ سراﺅں میں ایک بڑا نام ملک کافور تھاجو علاءالدّین خلجی دورِحکومت میں سپہ سالار کے عہدے تک پہنچا۔ مفتی شوکت علی فہمی اپنی کتاب ”ہندوستان پر اسلامی حکومت“ میں اِس کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
اِس سے قبل ہم بتا چکے ہیں کہ سلطان علاءالدّین نے کھمبایت سے آئے ہوئے کافورنامی ایک خوب رُو اور نو عمر غلام کو اپنا منظورِ نظر بنا لیا تھا۔ یہ خوب صورت لڑکا امرد تھاجس نے بہت جلد سلطان کے مزاج میں اِس قدر دخل حاصل کر لیا کہ 706ھ مطابق 1307ءمیں سلطان نے اُس کا درجہ تمام امرا سے بلند کرکے اُس کو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ تفویض کر دیا اور اِس کے ساتھ ہی اُسے سپہ سالار بناکراور ایک لاکھ فوج دے کر دکن کی تسخیر کے لیے روانہ کر دیا۔
”فرہنگِ آصفیہ“ کے مرتّب مولوی سیّد احمد دہلوی گو کہ ملک کافور کی بہادری اور دلیری کے قائل ہیں، لیکن وہ خواجہ سرائی کے پس منظر میں ملک کافور کا ذکر اِن الفاظ میں کرتے ہیں:
اِس جاہلانہ حرکت میں اہلِ خطا سے ہی یہ حرکت سرزد نہیں ہوئی، بل کہ ہندوستان کے بادشاہ سلطان علاءالدّین خلجی کے عہد میں بھی ملک کافور کو ہمارے ہندوستان میں شاہانِ خطا کے زمانے سے کم اقتدار اور مرتبہ حاصل نہیں ہوا۔ ملک کافور سلطنت کے اعلا ارکان میں تھا۔ اُس سے بڑے بڑے نمایاں کارنامے ظہور میں آئے تھے۔ یہ شخص چار مرتبہ تسخیرِ دکن کے واسطے بھیجا گیا۔ راجہ رام دیو کو اِسی نے قید کر کے دہلی روانہ کیا۔ دوار کے راجگان کو اِسی نے مغلوب کیا۔ وارنگل کے راجہ کو اِسی نے باج گزار بنایا۔ تمام دکن کو گولکنڈا تک تہ، و بالا کر کے وہاں ایک مسجد مسلمانوں کے عہدِ سلطنت کی یادگار تعمیر کی۔ غرض ہندوستان کی تیرھویں عیسوی صدی بھی خواجہ سراﺅں کی تاریخ کے واسطے ایک قابلِ فخر صدی ہوئی ہے۔
سلطان علی عادل شاہ کی خواجہ سراﺅں میں دل چسپی
”تاریخِ فرشتہ“ میں سلاطینِ بیجا پور کے ایک سلطان علی عادل شاہ کی خواجہ سراﺅں سے دل چسپی اور بعد ازاں ایک خواجہ سرا کے ہاتھوں قتل کا ذکر یوں ہے:
اُسے خوب صورت خواجہ سراﺅں اور غلاموں کو جمع کرنے کابہت شوق تھا، ایک مرتبہ علی عادل شاہ نے اپنا ایک قاصد امیر برید کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا: ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمھارے پاس دو نہایت ہی حسین اور خوب صورت خواجہ سرا ہیں، تم فورًا اُن خواجہ سراﺅں کو میرے پاس روانہ کر دو۔“ امیربرید نے چند دن تک ٹال مٹول کی اور خواجہ سراﺅں کو علی عادل شاہ کے پاس روانہ نہ کیا۔ اُنھی دنوں مرتضیٰ نظام شاہ بحری نے امیر علی برید پر حملہ کردیا۔ برید علی عادل شاہ سے مدد کا طالب ہوا۔ علی عادل شاہ نے دو ہزار سوار اُس کی مدد کے لیے روانہ کیے۔ برید اِس سے متاثر ہوا اور اُس نے وہ دونوں حسین خواجہ سرا، جن کو علی عادل نے طلب کیا تھا، بیدر سے بیچا پور بھیج دیے۔
یہ دونوں خواجہ سرا جب بیجاپور پہنچے اور اُن کو اپنے یہاں آنے کی وجہ، معلوم ہوئی توایک خواجہ سرا کو بہت ناگوار گزرا۔ اُس نے عادل شاہ کا کام تمام کرنے کا ارادہ کر لیا۔ جس روز یہ دونوں خواجہ سرا شاہی حضور میں پیش ہوئے، اُسی رات متذکّرہ بالا خواجہ سرا نے علی عادل شاہ کو چاقو سے قتل کردیا۔ یہ حادثہ 23 صفر 989ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ اِس کا مادّہ تاریخ ”ظلم دید“ سے برآمد ہوتا ہے، مُلّا رضائی مشہدی نے علی عادل شاہ کا بہت ہی غم انگیز اور جاںگداز مرثیہ لکھا۔ ملک کے تمام امیر اور جملہ ارا کینِ سلطنت اِس سانحہ دل شکن سے بے حد افسردہ تھے۔
ایک اَور بادشاہ برہان شاہ کی یوسف خواجہ سرا سے محبّت کا یہ عالم تھا کہ یوسف نے بادشاہ کو قتل کرنے کی کوشش کی اور بادشاہ نے اُس کی کوشش کو ناکام بنا دیا، اِس کے باوجود بادشاہ کے دل میں یوسف کے لیے کوئی مَیل نہیں آیا۔ محمد قاسم فرشتہ اِس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ایک مقرّبِ شاہی یوسف خواجہ سرا نے، جو حسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھا، رات کے وقت بادشاہ کو قتل کر کے اُس کے بیٹے اسمٰعیل کو تخت پر بٹھانے کا ارادہ کیا۔ برہان شاہ کو اِس کی اطّلاع ہو گئی، لیکن اُسے یقین نہیں آیا کہ یوسف اُس کے بارے میں ایسا بھی سوچ سکتا ہے۔
ایک رات بادشاہ نیند کے بہانے خواب گاہ میں گیا۔ یوسف خواجہ سرا بھی خنجر ہاتھ میں لے کر خیمے میں آ گیا۔ برہان شاہ نے اُس کو دیکھ لیا اور چھلانگ لگا کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یوسف سے بادشاہ کو بڑی محبت تھی، لہٰذا اُس نے اُسے کچھ نہ کہا، بل کہ اِس واقعے سے ایسی چشم پوشی کی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔