مصر
کے قدیم تاریخی اہرام، فائل فوٹو
واشنگٹن — مصر کے علی عبدالعزیز بچوں کا خدا
کا تحفہ سمجھتے ہیں، اسی لیے ان کے اپنے 10 بچے ہیں۔ ان کی سوچ کے برعکس مصر کی
حکومت کے نزدیک آبادی میں بے تحاشا اضافہ تباہ کن ہے۔
عبدالعزیز
دارالحکومت بغداد میں ایک چھوٹی سی نوکری کرتے ہیں جب کہ ان کے 10 بچے جنوبی صوبے
منیا میں اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں جہاں زندگی گذارنے کے اخراجات کم ہیں۔
مصر کی
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی معیشت پر بوجھ میں اضافہ کر رہی ہے، جب کہ مصر کو پہلے
ہی سن 2011 میں صدر حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے سیاسی اور
سلامتی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مصر
میں اس وقت 9 کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ افراد رہ رہے ہیں، جب کہ 94 لاکھ لوگ بیرونی
ملکوں میں ہیں۔
عرب
دنیا میں مصر کی آبادی سب سے زیادہ ہے اور اس ملک میں ہر سال 16 لاکھ افراد کا
اضافہ ہو رہا ہے۔
آبادیات
سے متعلق عالمی ادارے کی مئی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آبادی میں
اضافے کی موجودہ شرح برقرار رہنے سے سن 2030 میں مصر کی آبادی 11 کروڑ 90 لاکھ تک
پہنچ جائے گی۔
مصر کا
95 فی صد رقبہ بیابان اور لق و دق صحراؤں پر مشتمل ہے جو رہائش کے قابل نہیں۔
مصر کی
زیادہ تر آبادی دریائے نیل کی وادی اور ڈیلٹا کے چھوٹے سے حصے میں سمٹی ہوئی ہے۔
جب کہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کی ساحلی پٹی کے ساتھ چھوٹی سی آبادیاں ہیں۔
سن 70
کے عشرے سے بچوں کی اموات کی شرح میں کمی ہونے کے بعد مصر کی آبادی میں تیزی سے
اضافہ ہوا ہے۔
مصر کی
آبادی کا سب سے بڑا اجتماع دارالحکومت قاہرہ میں ہے۔ صرف اس ایک شہر کی آبادی 2
کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر اتنا گنجان آباد ہے کہ ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں
50 ہزار سے زیادہ لوگ رہ رہے ہیں، یعنی لندن جیسے گنجان شہر کے مقابلے میں 10 گنا
زیادہ۔
مصر کے
صدر عبدالفتح السیسی نے کہا ہے کہ آبادی میں اضافہ بھی مصر کے لیے اتنا ہی بڑا
چیلنج ہے جتنا کہ دہشت گردی۔
آبادی
پر کنٹرول کے لیے حکومت نے اس سال خاندانی منصوبہ بندی کی ایک نئی مہم شروع کی ہے
جس کا نعرہ ہے ’بچے دو ہی کافی ہیں‘۔
لیکن
علی عبدالعزیز جیسے لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
آبادی
میں تیز رفتار اضافے کا اثر ملکی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے اور ستمبر میں افراط زر
کی شرح 33 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی، جس سے مصری پاؤنڈ کی قیمت نصف تک گر چکی ہے۔
معاشی
ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح 2.6 فی صد ہے جو ملک کے لیے
تباہ کن ہے۔ ایک ماہر اقتصادیات ابوبکر الغندی کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے یہ
موجودہ شرح غربت میں مزید اضافہ کرے گی۔ مگر دوسری جانب عام لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ
گھر میں جتنے زیادہ بچے ہوں گے، اتنے ہی کمانے والے ہاتھ بھی زیادہ ہوں گے۔ جب کہ
بہت سے مصری باشندے خاندانی منصوبہ بندی کو خلاف اسلام سمجھتے ہیں۔
حال ہی میں قاہرہ کی الاظہر جامع مسجد کے نائب امام
عباس شعمان نے کہا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی حلال ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کے اس فتوی
کا آبادی کی رفتار پر کیا اثر پڑتا ہے۔