مصنف
کے مطابق ایونکا اور ان کے شوہر کے درمیان مبینہ طور پر یہ معاہدہ ہوا ہے کہ
مستقبل میں وہ صدارتی دوڑ میں حصہ لیں گی
جلد شائع ہونے والی ایک کتاب میں
دعوے کیے گئے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی کامیابی پر انتہائی حیران تھے۔ انھیں
اپنی تقریبِ حلف برداری میں بالکل لطف نہیں آیا اور وہ وائٹ ہاؤس جانے کے بارے میں
خوفزدہ اور پریشان تھے۔
صحافی مائیکل وولف کی کتاب ’فائر اینڈ فیوری: انسائیڈ
دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس‘ جلد شائع ہونے والی ہے۔ اِس کتاب کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ
اس میں صدر ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کے صدارتی امیدوار بننے کے منصوبے کو بھی
فاش کیا جائے گا۔
کتاب میں بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ بھی دعویٰ
کیا گیا ہے کہ وہ میڈیا ٹائٹن روپرٹ مرڈوک کے بہت بڑے مداح ہیں تاہم روپرٹ مرڈوک
ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتے۔
یہ بھی
پڑھیے:
اطلاعات کے مطابق اس کتاب کو لکھنے کے لیے مصنف نے 200
خصوصی انٹرویو کیے۔
تاہم وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز کا کہنا ہے کہ یہ
کتاب ’جھوٹ سے بھری‘ ہوئی ہے۔
اس کتاب میں سامنے آنے والے دس دلچسپ انکشافات مندرجہ
ذیل ہیں:
1. ٹرمپ
جونیئر کی ملاقاتیں ملک سے ’غداری‘ کے مترادف تھیں
نئی کتاب میں سٹیو بینن سے منسوب بیان میں کہا گیا کہ
صدر ٹرمپ کے بیٹے کی روسی حکام سے ملاقات 'غداری' کے زمرے میں آتی ہے۔
جون 2016 میں ہونے والی اس ملاقات میں روسی حکام نے
ڈونلڈ ٹرمپ جونئیر کو امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے خلاف
معلومات فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
مائیکل وولف نے لکھا ہے کہ بینن نے انھیں اس میٹنگ کے
بارے میں بتایا کہ:
’انتخابی
مہم کے تین سینیئر اہلکاروں کا خیال تھا کہ ٹرمپ ٹاور کے 25ویں فلور پر ایک غیر
ملکی حکومت سے بغیر کسی وکیل کی موجودگی میں ملنا ایک اچھا خیال تھا۔
وہاں کوئی بھی وکیل موجود نہیں تھے۔ آپ کے خیال میں اگر یہ
غداری یا حب الوطنی کے منافی، یا بیوقوفی نہیں بھی تھیجو کہ میرے خیال
میں یہ تینوں تھیں، تب بھی آپ کو فوری طور پر ایف بی آئی کو بتانا چاہیے
تھا۔‘
سٹیو بینن نے صحافی مائیکل وولف سے امریکی انتخاب میں
روسی مداخلت کے بارے میں جاری تفتیش کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز منی
لانڈرنگ ہوگا اور وہ لوگ ڈونلڈ جونیئر کو قومی ٹی وی پر انڈے کی طرح توڑ دیں گے۔‘
2. ٹرمپ
اپنی کامیابی سے ’انتہائی پریشان‘ ہوگئے تھے
نیویارک میگ نامی جریدے میں اس کتاب کے ایک حصے کو بطور
ایک آرٹیکل شائع کیا گیا ہے جس میں اپنی انتخابی کامیابی پر ٹرمپ کی حیرانگی اور
پریشانی قلمبند کی گئی ہے۔
’الیکشن
نائٹ پر رات آٹھ بجے کے بعد، جب ایک غیر متوقع رجحان کی تائید ہونے لگیکہ ٹرمپ جیت
سکتے ہیں تو ڈونلڈ جونیئر نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ ایسا معلوم
ہوتا تھا کہ ان کے والد نے کوئی جن دیکھ لیا ہے۔ میلانیا کے آنسو نکل آئے اور
یہ خوشی کے آنسو نہیں تھے۔ سٹیو بینن کے جائزے کے مطابق ایک گھنٹے کے اندر اندر
ایک پریشان ٹرمپ ایک حیران ٹرمپ بن گئے اور پھر ایک خوفزدہ ٹرمپ بن گئے۔ اور کچھ
ہی دیر میں ڈونلڈ ٹرمپ ماننے لگے کے نہ صرف صدارت ان کا حق ہے بلکہ وہ اس کی صلاحیت
بھی رکھتے ہیں۔‘
تصویر کے کاپی رائٹ
’میلانیا
کے آنسو نکل آئے اور یہ خوشی کے آنسو نہیں تھے‘
3. تقریبِ
حلف برداری پر ڈونلڈ ٹرمپ ’انتہائی غصے‘ میں تھے
مصنف لکھتے ہیں:
’ ٹرمپ
اپنی تقریبِ حلف برداری پر انتہائی غصے میں تھے۔ انھیں غصہ تھا کہ سب سے بڑے
ستاروں نے اس موقعے پر آنے سے انکار کر دیا تھا، انھیں بلیئر ہاؤس کے
کمرے پسند نہیں آ رہے تھے اور وہ اپنی بیوی سے لڑ رہے تھے جو کہ واضح طور پر رونے
کے قریب تھیں۔‘
تصویر کے کاپی رائٹ
4. ٹرمپ
کو وائٹ ہاؤس سے خوف آتا ہے
مصنف کا کہنا ہے کہ’ ٹرمپ
وائٹ ہاؤس سے انتہائی ناخوش رہتے ہیں اور یہاں تک کہ انھیں اس سے خوف آتا ہے۔
انھوں نے اپنا علحیدہ بیڈ روم تیار کروا لیا ہے جو کہ کینیڈی صدارت کے بعد سے پہلا
موقع ہے کہ صدارتی جوڑے نے دو علیحدہ بیڈ روم استعمال کیے ہوں۔ انھوں نے کمرے میں
موجود ٹی وی سکرین کے علاوہ دو اضافی سکرینوں کا آرڈر دیا اور اس دروازے پر تالا
لگوانے کی کوشش کی تو سیکریٹ سروس کے ساتھ لڑائی ہوئی کیونکہ سیکریٹ سروسوالوں کا
کہنا تھا انھیں کمرے تک رسائی درکار ہے۔‘
5 ٹرمپ
کا محبوب مشغلہ دوستوں کی ’بیویوں
پر نظر‘ رکھنا
ہے
کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کہا کرتے تھے
کہ ’دوستوں کی بیویوں کے ساتھ سونا ہی زندگی کا مزہ ہے‘۔
کتاب میں صدر ٹرمپ کے ایک دوست کا ذکر کیا گیا ہے جو
کہتے ہیں 'ٹرمپ اپنے دوست کی بیوی پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُن کا
شوہر وہ نہیں جو وہ سمجھتی ہیں۔'
اِس کوشش میں وہ دوست کی بیوی کو بلا کر ان کے شوہر کے
ساتھ اپنی گفتگو فون کے سپیکر پر سنواتے ہیں۔ ٹرمپ جان بوجھ کر اِس امید میں اپنے
دوست سے ایسے سوالات کرتے ہیں کہ شاید وہ کوئی ایسا جواب دیں جو بیوی کو اچھا نہ
لگے۔ مثلاً ’کیا آپ اب بھی اپنی بیوی کے ساتھ سیکس کرتے ہیں؟ کتنی مرتبہ؟‘
تصویر کے کاپی رائٹ
6. ایونکا
کو صدر بننے کی امید ہے
مصنف کے مطابق ایونکا اور ان کے شوہر کے درمیان مبینہ
طور پر یہ معاہدہ ہوا ہے کہ مستقبل میں وہ صدارتی دوڑ میں حصہ لیں گی۔
’نفع
نقصان کا اندازہ رکھتے ہوئے دونوں ایونکا ٹرمپ اور ان کے شوہر جیرڈ کشنر نے شاید
اپنے دوست احباب کے مشوروں کے خلاف وائٹ ہاؤس میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ اس
جوڑے کا مشترکہ فیصلہ تھا اور ایک طرح سے ایک مشترکہ کام ہے۔ شاید دونوں نے آپس
میں ایک فیصلہ کر رکھا ہے۔ اگر مستقبل میں موقع ملا تو وہ صدر کا الیکشن
لڑیں گی۔ ایونکا ٹرمپ نے ماضی میں یہ بھی کہا تھا کہ پہلی خاتون صدر ہلیری کلنٹن
نہیں ایونکا ٹرمپ ہوں گی۔ بظاہر دونوں کے اس معاہدے کا جب سٹیو بینن کو پتا چلا تو
وہ انتہائی ناخوش ہوئے۔‘
7. ایونکا
والد کے بالوں کا مذاق اڑاتی ہیں
کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایوانکا اپنے والد کا ذکر
خاصی لاتعلقی بلکہ کچھ طنز کے ساتھ بھی کرتی ہیں اور اُن کے ہروقت بنے سنورے بالوں
کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہیئر سٹائل کے بارے میں وہ اپنی دوستوں کو کچھ
یوں بتاتی ہیں:
’چندیا
گھٹانے کی سرجری کے بعد اُن کا سر ایک ایسا چکنا جزیرہ لگتا ہے جسے تین
اطراف سے بالوں نے گھرا ہوا ہو۔ اِن سارے گیسوؤں کے سِروں کو سر کے بیچ
میں جمع کرکے پیچھے کی جانب سنوارا جاتا ہے اور پھر بال ٹھہرانے والے اسپرے کے
ذریعے اِسے مستقل سنبھال کررکھا جاتا ہے'۔
کتاب میں کہا گیا ہے:
’بالوں
کے مخصوص رنگ کے بارے میں مذاق میں کہتی تھیں کہ یہ صرف 'جسٹ فور
مین' نامی ایک پروڈکٹ کے ذریعے ممکن ہے جسے جتنا لمبا عرصہ بالوں پر لگا رہنے دیا
جائے اتنا ہی رنگ چوکھا ہوتا ہے لیکن ڈونلڈٹرمپ کی جلد بازی کا نتیجہ اُن کے بالوں
کا اورینج بلونڈ ہونا ہے‘۔
8. انتظامیہ
کو اپنی ترجیحات کا اندازہ ہی نہیں ہے
وائٹ ہاؤس کی ڈپٹی چیف آف سٹاف کیٹی والس نے صدر کے سینئر
مشیر کے طور پر جیرڈ کشنر سے پوچھا کہ ان کی انتظامیہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مگر
اس کتاب کے مطابق کشنر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
’کیٹی
والش نے پوچھا کہ ’بس مجھے ان تین چیزوں کا بتا دیں جس پر صدر ٹرمپ اپنی توجہ سب
سے زیادہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس وائٹ ہاؤس کی تین ترجیحات کیا ہیں؟ یہ ایک
انتہائی بنیادی سوال ہے جس کے بارے میں صدر بننے کے اہل کسی بھی امیدوار کو
وائٹ ہاؤس میں رہائش حاصل کرنے سے کہیں پہلے سوچ لینا چاہیے۔ صدارت کے چھ ہفتے بعد
بھی جیرڈ کشنر کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ انھوں نے کیٹی والس سے کہا ’ہاں، ہمیں
اس کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔‘
9. روپرٹ
مرڈوک کے لیے ٹرمپ کی محبت
مائیکل وولف ماضی میں روپرٹ مرڈوک کی سوانح عمری لکھ
چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ روپرٹ مرڈوک کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔
’ایک
مرتبہ روپرٹ مرڈوک نو منتخب صدر سے ملنے کے لیے جا رہے تھے کہ انھیں
تاخیر ہوگئی۔ جب محفل سے کچھ دیگر مہمان جانے لگے اور ظاہری طور پر انتہائی
ناخوش ٹرمپ نے مہمانوں کو یقین دہانی کروائی کہ مرڈوک آ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ
’وہ ایک عظیم آدمی ہیں، شاید عظیم آدمیوں میں سے آخری۔ آپ کو ان سے ملنے کے لیے
رکنا چاہیے۔‘ ٹرمپ شاید یہ سمجھ ہی نہیں سکے تھے کہ اب وہ دنیا کے طاقتور ترین
انسان تھے اور وہ اب بھی اس میڈیا موگل کے سامنے اچھا بننے کی کوشش کر رہے
تھے جو کہ خود ان کو ایک بیوقوف کے طور پر دیکھتا تھا۔‘
تصویر کے کاپی رائٹ
وولف
کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ روپرٹ مرڈوک کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں
10. مرڈوک
ٹرمپ کو ’احمق‘ سمجھتے ہیں
تاہم یہ محبت باہمی نہیں ہے۔ وولف کا کہنا ہے کہ روپرٹ
مرڈوک سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’سیلیکون ویلی کو میری بڑی ضرورت
ہے کیونکہ اوباما نے ان پر بہت سختی کی تھی‘۔ مرڈوک نے انھیں سمجھایا کہ ’گذشتہ
آٹھ سال میں تو صدر ان کی جیب میں تھا، انھیں تمھاری ضرورت نہیں‘۔ فون کال کے
اختتام پر فون رکھتے ہی مرڈوک نے کہا کہ ’یہ آدمی کتنا احمق ہے‘۔
تصویر کے کاپی رائٹ
11. فلِن کو
معلوم تھا کہ روسیوں سے پیسے لینا مسئلہ بنے گا
اس کتاب کے مطابق سابق نیشنل سکیورٹی مشیر مائیک فلن کو
معلوم تھا کہ روسیوں سے تقاریر کے لیے پیسے لینا مسئلہ بن سکتا ہے۔ اس بارے میں
انھوں نے ایک ساتھی سے کہا ’مسئلہ تو تب بنے گا اگر ہم جیت گئے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو