ارتقاء کے اعتبار سے چمپینزی کو انسانوں کے سب سے نزدیک تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ دونوں کی حیاتیاتی بناوٹ یا ڈھانچے پر غور کریں تو پہلی نظر میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ چمپینزیوں میں کئی ایسے اعضا ہوں گے جو انسانوں میں موجود نہیں۔
حیاتیاتی بناوٹ میں فرق کی وجہ انسانوں کی مسلسل ارتقا ہے۔ لیکن حیاتیاتی ارتقا کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے انسانوں کے جسم میں آج بھی کئی ایسے پٹھے اور ہڈیاں پائی جاتی ہیں جو اب کسی کام کی نہیں ہیں۔
ڈورسا کا خیال ہے کہ انسانی جسم قدرتی تاریخ کے عجائب گھر کی طرح ہے۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب ان حصوں کی کوئی ضرورت نہیں باقی رہی تو کئی لوگوں میں آج بھی یہ پٹھے اور ہڈیاں کیوں موجود ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حیاتیاتی ارتقا کی رفتار سست ہے، اس لیے ایسے اعضا کو پوری طرح ختم ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔
کچھ معاملوں میں یہ اعضا اپنے لیے نئے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں۔ اور اس عمل کو ’ایکسپیٹیشن‘ کہتے ہیں۔
ڈورسا نے بی بی سی کو بتایا ’آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں کیسے پتہ کہ انسان کے جسم میں ان حصوں کا کیا کام تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس بارے میں صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔‘
آئیے انسنان کے جسم میں کچھ ایسے ہی اعضا کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
1۔ پیڑ پر چڑھنے میں مدد کرنے والے پٹھے
انسانی کلائی میں موجود اس حصے کو سمجھنے کے لیے آپ کو صرف ایک کام کرنا ہے۔ ایک چپٹی سطح پر اپنا ہاتھ رکھیے اور اس کے بعد اپنے انگوٹھے سے اپنی سب سے چھوٹی انگلی کو چھونے کی کوشش کیجیے۔
کیا آپ کو اپنی کلائی پر دو پٹھے (جیسا تصویر میں دکھایا گیا ہے) دکھائی دیتے ہیں؟
اگر اپنی کلائی پر آپ کو یہ پٹھے نہیں دکھائی دیے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ 18 فیصد انسانوں میں یہ پٹھے موجود نہیں ہوتے ہیں۔ اور اس کا تعلق کسی چیز کی کمی سے بھی نہیں ہے۔
ٹھیک ایسے ہی پٹھے اورنگ اوٹان جیسے جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
ڈورسا نے بتایا کہ ’اس سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ یہ پٹھے انسانوں کو پیڑوں پر چڑھنے میں مدد کرتے رہے ہوں گے۔ لیکن آج کل ڈاکٹروں کی نظر اس پٹھے پر ہوتی ہے کیوں کہ ری کنسٹرکٹو سرجری کرتے وقت وہ اس پٹھے کا استعمال کر سکتے ہیں۔‘
2۔ کان کے پٹھے
جیری کاوین اپنی کتاب ’وائے ایوولیوشن از ٹرو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اگر آپ اپنے کان ہلا سکتے ہیں تو آپ حیاتیاتی ارتقا کے چلتے پھرتے ثبوت ہیں۔‘
کان کو ہلانے میں مدد کرنے کے لیے تین پٹھے ذمہ دار ہیں۔
اس بارے میں سب سے پہلے چارلس ڈارون نے لکھا تھا۔ ڈارون نے اسے ٹیوبرکل نام دیا۔
ڈورسا کہتے ہیں کہ ’حالانکہ اس بارے میں بحث جاری ہے کہ ان پٹھوں کو انسان کی حیاتیاتی ارتقا میں بیکار بچا ہوا سامان کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔‘
کاوین نے بتایا کہ بلی اور گھوڑے جیسے جانوروں میں یہ پٹھے آج بھی کان ہلانے کے کام آتے ہیں۔
ایسا کرنے سے انہیں دوسری آوازوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
3۔ ٹیل بون یا دم کی ہڈی
ڈورسا امیر نے بتایا کہ ’ٹیل بون ہماری کھوئی ہوئی دم کی یاد دلاتی ہے۔ پیڑوں پر چڑھتے وقت یہ توازن بنانے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔‘
اب یہ ہڈی چھوٹی ہو گئی ہے لیکن اب بھی یہ ہمارے پٹھوں کو سہارا دینے کا کام کرتی ہے۔
لیکن ہمارے جسم میں بہت سی ایسی چیزیں باقی نہیں رہ سکیں جو پہلے کام آتی تھیں۔
ڈورسا نے بتایا کہ ’حیاتیاتی ارتقا کے شروعاتی دور میں انسان کی انگلیوں میں ایک جال سا موجود تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ جال ختم ہو گیا۔‘
4۔ آنکھ میں تیسری پلک
کیا آپ نے کبھی انسانی آنکھ میں گلابی رنگ کے پٹھے دیکھے ہیں؟
اسے ’نیکٹیٹنگ میمبرین‘ یا تیسری پلک کہا جاتا ہے۔
ڈورسا کہتے ہیں کہ تیسری پلک کا کام عمودی ڈھنگ سے جھپکنا تھا۔ لیکن یہ اب کسی کام کی نہیں۔
بلیوں سے لیکر چڑیوں اور دوسری متعدد جانوروں میں آپ اس حصے کو کام کرتا دیکھ سکتے ہیں۔
5۔ رونگٹے کھڑے ہونا
کیا آپ جانتے ہیں بلیاں خود کو خطرے میں دیکھ کر اپنے رونگٹے کھڑے کر لیتی ہیں؟
یہ اسی طرح ہے جیسے سردی یا ڈر لگنے کی وجہ سے انسانوں کے جسم میں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سائنسدان اسے ’پلو ایریکشن ریفلیکس‘ کہتے ہیں۔
ڈورسا نے بتایا کہ ’انسانوں نے ایک لمبا عرصہ بالوں سے ڈھکے جسم میں گزارا ہے۔ پلو ایریکشن ریفلیکس ایک بے حد قدیمی طریقہ ہے جس کی مدد سے جانور اپنے اصل سائز سے بڑے دکھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سردی میں انہی بالوں کی مدد سے جسم میں گرمی رکی رہتی تھی۔
6۔ نو عمروں کا ہاتھ پکڑنا
آپ نے دیکھے ہوگا کہ اگر آپ اپنا ہاتھ کسی نو عمر کے ہاتھ کی طرف بڑھائیں تو وہ اپنی انگلی سے آپ کی انگلی پکڑ لیتا ہے۔
نوعمروں میں پائے جانے والی اس علامت کو گراسپنگ ریفلیکس کہتے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس علامت کا اصل مقصد یہی تھا۔
اسی طرح اپینڈکس بھی انسانی جسم کا ایسا ہی ایک حصہ ہے جس کا اب کوئی کام نہیں لیکن شاید یہ ہمارے آباؤ اجداد کو کھانا ہضم کرنے میں مدد کرتا ہوگا۔