تحریر: انیلا ”نیل“ میرانی ۔۔۔ ترجمہ: یاسر قاضی * * * * * اُس دن گرمی کی شدّت اپنے عروج پر تھی اور شام ڈھلنے کے باوجود تپش ابھی تک برقرار تھی۔ لیکن موسموں کی سختی ہمیشہ غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہی ہوا کرتی ہے اور ان ہی کو جھیلنی پڑتی ہے۔ امراء کی لُغت میں تو شاید اس چیز کا نام و نشان ہی نہیں ہوتا کہ ان کی دولت موسمِ گرما کو سرما اور جاڑے کو گرمیوں میں بدلنے کی قُوّت رکھتی ہے۔ ثناء اپنی سہیلی زینت کے ساتھ سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈ مال میں داخل ہوئی۔ گاڑی سے اتر کر مال میں داخل ہونے کے تھوڑے سے فاصلے نے بھی دونوں کے پسینے نکال دیے۔ شاپنگ …
اسپتال کے احاطے میں اسی سے متعلق ایک چھوٹی سی عمارت بنی ہوئی ہے جس کے چاروں طرف گوکھرو، بچھوا اور جنگلی سن کے پودوں کا جنگل کا جنگل کھڑا ہے۔ اس کی چھت زنگ آلود ہے، چمنی ٹکڑے ٹکڑے ہو چلی ہے، برساتی کی گلی سڑی چوبی سیڑھیوں پر گھاس اُگی ہوئی ہے اور جہاں تک دیواروں کا تعلق ہے تو انہیں غور سے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر کبھی پلستر بھی کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کے رخ پر اسپتال ہے اور عقب میں ایک کھیت جس سے اسے باہر نکلی ہوئی ڈھیروں کیلوں والے بدرنگ جنگلے نے الگ کر رکھا ہے۔ آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کیلوں، جنگلے اور خود اس عمارت کی خ…
Social Plugin