امریکہ اور انڈیا کے درمیان خوشگوار تعلقات ماضی قریب میں اس وقت زیادہ دکھائی دینے لگے جب انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس امریکہ کا دورہ کیا اور ’ہاؤڈی مودی‘ کے نام سے منعقدہ شاندار ایونٹ کے ذریعے وہاں موجود انڈین شہریوں سے خطاب کیا۔
پھر 2020 کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کا دورہ کیا اور ان کے لیے ’نمستے ٹرمپ‘ نام کے ایک ایونٹ کا انعقاد کیا گیا۔
امریکی صدر کا یہ دورہ شروع ہونے سے پہلے وائٹ ہاوس کے ٹوئٹر ہینڈل نے انڈین صدر رام نارتھ کووند، انڈین وزیراعظم نریندر مودی، وزیر اعظم آفس، امریکہ میں موجود انڈین سفارتخانے، انڈیا میں موجود امریکی سفارتخانے اور انڈیا میں تعینات امریکی سفارت کار کے ٹویٹر اکاونٹس کو فالو کرنا شروع کر دیا۔
لیکن اس ہفتے کے آغاز میں وائٹ ہاوس نے یکدم ان چھ اکاونٹس کو ان فالو کر دیا۔ یہ بات منظر عام پر آئی تو انڈیا کے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے اس عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا: ’امریکی وائٹ ہاوس کی جانب سے ہمارے صدر اور وزیراعظم کو ان فالو کیے جانے پر میں مضطرب ہوں۔ میں وزارت خارجہ پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے۔‘
اس واقعے پر انڈین عوام نے اپنے غصے کا اظہار سوشل میڈیا پر کچھ الگ ہی انداز میں کرنا شروع کیا۔ ٹوئٹر پر ایک ہیش ٹیگ کورونا کریئر ٹرمپ کے ساتھ لوگوں نے امریکی صدر کو انڈیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ قرار دیا۔
ایک ٹویٹر صارف نے لکھا: ’احمد آباد، آگرہ اور دلی، جہاں بھی صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے دورہ کیا وہ کووڈ 19 وائرس کے حملے سے بری طرح متاثر ہیں۔ کورونا کیرئر ٹرمپ۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’قوم جاننا چاہتی ہے، وائٹ ہاوس نے انڈیا کے وزیراعظم کو ان فالو کیوں کیا؟ نمستے ٹرمپ دوستی کا کیا ہوا؟
اس فالو اور ان فالو کی کہانی پر وائٹ ہاوس کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا کہ وائٹ ہاوس قلیل مدت کے لیے ان ممالک کے آفیشل ٹویٹر اکاونٹس کو فالو کرتا ہے جہاں امریکی صدر دورے پر جاتے ہیں تاکہ اس دورے سے متعلق پیغامات کو عوام کے ساتھ شییر کیا جا سکے۔
لیکن کیا واقعی یہ بات انتی ہی سادہ ہے؟ خطے کی بدلتی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے والے شمشاد احمد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں یہ امریکہ کی جانب سے انڈیا کو ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک ناپسندیدگی کا اشارہ ہے۔
’اس سے کسی سرکاری پالیسی میں تبدیلی کا خطرہ نہیں لیکن انڈیا میں اس وقت جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں ان سے ایک ناراضگی کا اظہار ضرور ہو سکتا ہے۔‘
شمشاد احمد خان کی رائے میں اس وقت امریکہ کی جانب سے ایسا اشارہ بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کورونا کی وبا جب سے پھوٹی ہے تب سے انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔
’انڈیا کے حکمرانوں کو اب یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ وہ دنیا میں آہستہ آہتسہ اپنی ساکھ کھو رہے ہیں، اگر جلد انھوں نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی تو امریکہ اور انڈیا کے تعلقات غلط سمت میں جانے کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے۔‘
سینئر تجزیہ کار ڈاکڑ ہما بقائی کے خیال میں صدر ٹرمپ اور انڈین وزیراعظم کے انداز قیادت میں نظر کا دھوکہ یا آپٹکس کا بڑا کردار ہوتا ہے اور وہ ہر چیز کو اپنے انتخابی کھیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکڑ ہما بقائی اس واقعے کو ایک الگ پیرائے میں دیکھتی ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ٹویٹر پر فالو یا ان فالو کرنے سے سٹریٹیجک تعلقات واضح نہیں ہوتے، اس لیے اسے فوکس نہیں دینا چاہیے۔ لیکن چونکہ اس بات کو کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے اٹھایا ہے اس لیے اس پر سوشل میڈیا پر شور مچ گیا لیکن درحقیت دونوں ممالک کے تعلقات کو جانچنے کے لیے ٹوئٹر اور سوشل میڈیا سے آگے نکل کر دیکھنا ہو گا۔‘