ماحولیاتی تناؤ یا اقتصادی عوامل، مغربی معاشرے کے زوال کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟


ماہرِ اقتصادیات بینجمن فرئیڈمین نے ایک مرتبہ مغربی معاشرے کو ایک بائسیکل کی طرح بتایا تھا۔ جس کے پہیے اقتصادی ترقی کے باعث مستقل گھومتے رہتے ہیں۔
اگر یہ آگے دھکیلنے والی حرکت رک جائے یا کم ہو جائے تو ہمارے معاشرے کی بنیاد وہ ستون جنھیں ہم جمہوریت، انفرادی آزادی، سماجی برداشت اور دیگر کہتے ہیں، ڈولنا شروع کر دیتے ہیں۔
اگر ہم نے اپنے پہیے واپس حرکت میں لانے کا کوئی طریقہ نہ ڈھونڈا تو بالآخر ہمارا معاشرہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ ہماری دنیا ایک نہایت بدصورت جگہ بن جائے گی، جس میں محدود وسائل کے لیے جلد بازی کی جائے گی اور قریبی گروپ کے باہر سب کو رد کر دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
انسانی تاریخ میں ایسی تباہی کئی مرتبہ پہلے بھی ہو چکی ہے اور کوئی بھی تہذیب، چاہے وہ کتنی بھی مضبوط نظر آئے، ان کمزوریوں سے محفوظ نہیں جو ایک معاشرے کو اختتام کی طرف لے کر جا سکتی ہیں۔ قطعہ نظر کے اس وقت چیزیں کتنی بہتر ہو رہی ہیں، حالات کبھی بھی بدل سکتے ہیں۔
وہ عوامل کیا ہیں اور کیا وہ نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس بات پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ انسانیت آج کل غیر مستحکم اور غیر یقینی راستے پر ہے لیکن ہم اس نقطے پر پہنچنے کے کتنے قریب ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں؟
ماحولیاتی تبدیلیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionدنیا کی تقریباً آدھی آبادی تین ڈالر یومیہ پر گزارہ کرتی ہے
اگرچہ مستقبل کی حتمی طور پر پیش گوئی کرنا ناممکن ہے، ریاضی، سائنس اور تاریخ مغربی معاشروں کے طویل مدتی تسلسل کے امکانات سے متعلق اشارے دے سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سسٹم سائنٹسٹ صفا موتیشارئی نے مقامی اور عالمی استحکام یا تباہی کے مکینزم کو گہرائی سے جاننے کے لیے ایک کمپیوٹر ماڈل کا استعمال کیا ہے۔
سنہ 2014 میں شائع ہونی والی ایک تحقیق میں موتیشارئی اور ان کی ٹیم نے بتایا تھا کہ ایسے دو عوامل ماحولیاتی تناؤ اور اقتصادی درجہ بندی ہوتے ہیں، جن کا اثر پڑتا۔
ماحولیاتی تناؤ ممکنہ تباہی کا زیادہ جانا پہچانا راستہ ہے، خصوصاً قدرتی وسائل جیسا کہ زمین کے اندر پانی، مٹی، ماہی گیری اور جنگلات میں کمی۔ یہ سب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
موتیشارئی اور ان کے ساتھیوں کے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ اقتصادی درجہ بندی اکیلے ہی ڈھیر کر سکتی ہے۔ اس کے مطابق اشرافیہ دولت اور ذرائع کی بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کر کے معاشرے کو عدم استحکام اور حتمی تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور صارفین کے لیے بہت کم یا کچھ نہیں چھوڑتے جو کہ اگرچہ ان سے بہت زیادہ ہیں لیکن پھر بھی اپنی محنت سے ان کی مدد کرتے ہیں۔
آخر کار کام کرنے والی آبادی تباہ ہو جاتی ہے کیونکہ ان کو دولت کا جو حصہ دیا جاتا ہے وہ ان کے لیے بہت کم ہوتا ہے اور اس کے بعد اشرافیہ بھی تباہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے لیے کام کرنے والے مزدور نہیں رہے۔ آج کل جو ہم ملک کے اندر اور ملکوں کے درمیان عدم مساوات دیکھ رہے ہیں وہ پہلے ہی اس فرق کی نشاندہی کرتی ہے۔
مثال کے طور پر عالمی طور پر سب سے زیادہ کمانے والوں میں سے 10 فیصد تقریباً اتنا ہی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ہیں جتنا مل کر باقی 90 فیصد ہے۔ اسی طرح دنیا کی تقریباً آدھی آبادی تین ڈالر یومیہ پر گزارہ کرتی ہے۔
دونوں صورتوں میں یہ ماڈل بتاتے ہیں کہ ان میں کسی چیز کو لے کر چلنے کی کتنی صلاحیت ہے جو کہ آبادی کی وہ سطح ہے جو ماحولیاتی ذرائع لمبے عرصے کے لیے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ صلاحیت ضرورت سے بہت زیادہ ہو جائے تو تباہی لازمی ہو جاتی ہے۔
معاشرہتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionانسانیت آج کل غیر مستحکم اور غیر یقینی راستے پر ہے لیکن ہم اس نقطے پر پہنچنے کے کتنے قریب ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں
تاہم اس سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ موتیشارئی کہتے ہیں ’اگر ہم عدم مساوات، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، قدرتی وسائل کے خاتمے اور آلودگی کی شرح جیسے عناصر کو کم کرنے کے لیے معقول انتخاب کریں، جو کہ ممکن ہے، تو ہم تباہی سے بچ سکتے ہیں اور پائیدار رفتار پر مضبوط ہو سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’ہم ساری عمر اس طرح کے فیصلے کرنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔‘
بدقسمتی سے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے سخت فیصلے کرنا ہماری سیاسی اور نفسیاتی صلاحیتوں سے بہت آگے کی بات ہے۔
بی آئی نارویجیئن بزنس سکول کی آب و ہوا کی حکمتِ عملی کے اعزازی پروفیسر اور ’2052: اے گلوبل فارکاسٹ فار دی نیکسٹ فورٹی ایئرز‘ کے مصنف یورگن رینڈرز کے مطابق ’دنیا آب و ہوا کے حل جیسے توجہ طلب مسئلے پر اس صدی میں توجہ نہیں دے گی کیونکہ معمول کی طرح ایکٹنگ کرنے کی نسبت اس مسئلے کا قلیل المدتی حل بہت مہنگا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’آب و ہوا کا مسئلہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا کیونکہ ہم نے پیرس معاہدے اور دیگر معاہدوں میں جو وعدے کیے تھے، ان پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا۔‘
اگرچہ ہم اس دنیا میں اکٹھے ہیں لیکن تباہی کے اثرات سب سے پہلے دنیا کے غریب لوگ محسوس کریں گے۔ بے شک کچھ ممالک پہلے ہی ان مسائل کے متعلق خبردار کر رہے ہیں جو آخر کار زیادہ امیر ممالک کو بھی لے ڈوبیں گے۔
مثال کے طور پر شام میں ایک وقت میں شرح پیدائش بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے آبادی تیزی سے بڑھتی گئی۔ سنہ 2000 کے اواخر میں شدید خشک سالی نے، جو شاید انسان کی طرف سے برپا کی جانے والی موسمیاتی تبدیلی سے مزید بگڑ گئی، زمین کے اندر پانی کی کمی کے ساتھ مل کر ذراعت کی پیداوار کو مزید برباد کر دیا۔
اس بحران کی وجہ سے زیادہ تر لوگ، جن میں نوجوان بھی شامل تھے، بے روزگار، غیر مطمئن اور مایوس ہو گئے۔ اکثر شہروں کی طرف نکل گئے، جس کی وجہ سے وہاں کے محدود وسائل اور سروسز پر گہرا اثر پڑا۔ پہلے سے موجود نسلی تناؤ بڑھ گیا، جس نے تشدد اور لڑائی کے لیے زرخیز زمین مہیا کی۔
خانہ جنگیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionفیصلے کرنے کے لیے منطق اور سائنس کے استعمال کے ساتھ غیر معمولی قیادت اوراچھی نیک نیتی سے انسانی معاشرہ بہبود اور ترقی کی اونچی بلندیوں کی سطح پر پہنچ سکتا ہے
اس پر سونے پر سہاگہ بری حکمرانی تھا جس میں وہ نیو لبرل پالیسیاں بھی شامل تھیں جن میں خشک سالی کے دوران پانی پر سبسڈی کا خاتمہ کیا گیا۔
اس کی وجہ سے ملک میں 2011 میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ایک طرف خطرناک حد تک جھکاؤ نے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔
کینیڈا کے شہر واٹرلو میں قائم بالسیل سکول آف انٹرنیشنل افیئرز کے تھامس ہومر ڈکسن کہتے ہیں کہ شام اور تاریخ میں کئی دوسرے تباہی کے واقعات میں ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات تھیں۔
ہومر ڈکسن جو کتاب ’اپ سائیڈ ڈاؤن‘ کے مصنف بھی ہیں، ان متحدہ قوتوں کو ان کے کام کرنے کے طریقے کی وجہ سے ’ٹیکٹونک‘ دباؤ کہتے ہیں، جس میں وہ خاموشی سے بڑھتی رہتی ہیں اورپھر ایک دم پھٹ پڑتی ہیں اور کسی بھی مستحکم کرنے والے مکینیزم پر جو کہ معاشرے میں توازن رکھتا ہے زیادہ بوجھ ڈال دیتی ہیں۔
شام کی مثال کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیں تو بھی ہومر ڈکسن کے مطابق ایک اور اشارہ کہ ہم خطرناک علاقے میں داخل ہو رہے ہیں ان واقعات کا ’تیزی سے ہونا ہے جنھیں ماہرین نان لینیئریٹیز یا دنیا میں اچانک غیر متوقع تبدیلیوں کا ہونا کہتے ہیں جیسا کہ سنہ 2008 کا اقتصادی بحران، داعش کا نمودار ہونا، بریگزٹ یا ڈونلڈ ٹرمپ کا الیکشن وغیرہ۔
مستقبل میں کیا ہو گا اس کے اشارے ماضی بھی دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر رومی سلطنت کا عروج اور زوال، 100ویں صدی (قبل از مسیح) میں رومی بحیرہ روم کے آر پار ان جگہوں پر پھیل گئے تھے جہاں سمندر کے راستے آسانی سے جایا جا سکتا تھا۔ ان کو ادھر رک جانا چاہیے تھا لیکن جب سب چیزیں اچھی طرح سے چل رہی تھیں تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ زمینی راستوں سے نئی سرحدوں تک پھیلا جائے۔
غربتتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاگر ہم آب و ہوا کی تبدیلی، آبادی میں اضافہ اور توانائی میں کمی کا جرات مندی سے سامنا کر لیں تو ہم اپنے معاشروں کو منظم اور بہتر بنا سکتے ہیں
سمندر کے راستے نقل و حمل پر نسبتاً کم خرچہ آتا تھا لیکن زمین کے راستے یہ سست رفتار اور مہنگا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو حد سے زیادہ پھیلا رہے تھے جس کی ایک مہنگی قیمت تھی۔ سلطنت اپنے آپ کو آنے والی کچھ صدیوں میں مستحکم رکھنے میں کامیاب تو رہی لیکن تیسری صدی میں اپنے آپ کو وسائل سے زیادہ پھیلانے کے اثرات سامنے آ گئے اور خانہ جنگی اور چڑھائیاں شروع ہو گئیں۔
اگرچہ فوج اس کا بجٹ کھا چکی تھی اور حکومت نے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی کرنسی کی قدر و قیمت میں کمی بھی کی جس کی وجہ سے مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی، سلطنت نے اپنا اہم علاقہ برقرار رکھنے کی پھر بھی کوشش کی۔
اگرچہ کچھ سکالرز سلطنت کے زوال کا سال 410 بتاتے ہیں جب وسیگوتھس نے دارالحکومت پر چڑھائی کر کے اسے لوٹ لیا تھا لیکن اس ڈرامائی واقعے کے پیچھے ایک صدی سے زیادہ کے وہ واقعات تھے جو اسے اس نہج پر لائے تھے۔
یوٹاہ سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور کتاب ’دی کولییپس آف کمپلیکس سوسائٹیز‘ کے مصنف جوزف ٹینٹر کے مطابق روم کے زوال کا سب سے اہم سبق یہ تھا کہ پیچیدگی کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ تھرموڈائنیمکس کے قانون کے مطابق کسی پیچیدہ اور منظم حالت کو کسی بھی نظام میں برقرار رکھنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی معاشرے پر بھی یہی قانون لاگو ہوتا ہے۔
صرف اپنا سٹیٹس کو برقرار رکھنے اور اپنے آپ کو پیچھے کی طرف گرنے سے روکنے کے لیے تیسری صدی تک روم متواتر نئی چیزوں کا اضافہ کرتا رہا تھا۔ اس کی فوج دو گنی ہو گئی تھی، گھڑ سوار تھے، تقسیم در تقسیم صوبے تھے جن میں سے ہر ایک کو اپنی بیوروکریسی، عدالتیں اور دفاع چاہیے تھا۔
آخر کار وہ ان بڑھی چڑھی پیچیدگیوں کو سہارا دینا مزید برداشت نہ کر سکا۔ یہ مالیاتی کمزوری تھی، نہ کہ جنگ، جو سلطنت کے زوال کا سبب بنی۔
ابھی تک جدید مغربی معاشرے تباہی لانے والے ان عوامل کو حیاتیاتی ایندھن اور صنعتی ٹیکنالوجی کے ذریعے ملتوی کرنے میں زیادہ تر کامیاب رہے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسے مناسب وقت پر سنہ 2008 میں ہائیڈرولک فریکچرنگ آ گئی تھی۔
خانہ جنگیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionہومر ڈکسن کہتے ہیں کہ روم کی طرح مغربی معاشروں کے زوال سے پہلے لوگوں اور وسائل کی واپسی ان کے بنیادی ممالک کی طرف شروع ہو جائے گی
ٹینٹر کہتے ہیں کہ ایسا ہمیشہ نہیں ہو گا۔ ’ذرا سوچیں کہ مین ہیٹن کے گرد طوفانوں اور اٹھتی ہوئی لہروں سے تحفظ کے لیے سمندر پر دیوار بنانے کی قیمت کیا ہو گی۔‘ آخر کار مسئلے کے حل کے لیے پیچیدگی میں سرمایہ کاری کی حکمتِ عملی کم آمدنی حاصل کرنے کی حد تک پہنچ جاتی ہے، جس کی وجہ مالیاتی کمزوری اور تباہی ہوتی ہے۔
ہومر ڈکسن کہتے ہیں کہ روم کی طرح مغربی معاشروں کے زوال سے پہلے لوگوں اور وسائل کی واپسی ان کے بنیادی ممالک کی طرف شروع ہو جائے گی۔
جیسے جیسے غریب ممالک جنگوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے، پناہ گزینوں کی بڑی لہریں ان ناکام علاقوں سے باہر نکلیں گی اور زیادہ محفوظ ممالک میں پناہ کی تلاش کریں گی۔
مغربی معاشرے رکاوٹیں اور امیگریشن پر مکمل پابندیاں لگا کر ردِ عمل ظاہر کریں گے، اربوں ڈالر کی دیواریں اور سرحدوں پر پہرہ دینے والے ڈرونز اور فوجی آئیں گے، کون اور کیا آتا ہے اس پر سکیورٹی سخت کر دی جائے گی اور زیادہ آمرانہ عوامیت پسند طرز حکمرانی جنم لے گا۔
دریں اثنا ان مغربی معاشروں میں جو پہلے سے ہی کمزور ہیں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق مزید عدم استحکام پیدا کرے گا۔
رینڈرز کہتے ہیں ’سنہ 2050 تک امریکہ اور برطانیہ میں دو طبقوں والے معاشرے کا ارتقا ہو چکا ہو گا جہاں اشرافیہ کی ایک چھوٹی تعداد اچھی زندگی گزارے گی اور اکثریت کی فلاح و بہبود میں تنزلی جاری رہے گی۔‘
ہومر ڈکسن کہتے ہیں چاہے وہ امریکہ میں ہو، برطانیہ میں ہو یا کہیں اور لوگ جتنے زیادہ غیر مطمئن اور ڈرے ہوئے ہوں گے وہ اتنے ہی زیادہ اپنی ان گروپ شناخت کے ساتھ جوڑیں گے جیسا کہ مذہبی، نسلی یا قومی شناخت۔ معاشرتی زوال اور ثبوتوں کے ذریعے پیش کی گئی حقیقت سے بڑے پیمانے پر انکار ہو گا۔
اگر لوگ تسلیم کریں گے بھی کہ مسئلہ کہیں ہے تو پھر بھی وہ اپنے ان گروپ کے علاوہ سبھی پر اس کا الزام لگائیں گے۔ ہومر ڈکسن کہتے ہیں ’آپ بڑے پیمانے پر تشدد کی نفسیاتی اور سماجی شرائط قائم کر رہے ہیں۔ جب مقامی طور پر تشدد ابھرے گا، یا کوئی ملک یا گروہ چڑھائی کا فیصلہ کرے گا تو تباہی سے بچنا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘
مشرق وسطیٰتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionدوسری طرف ہو سکتا ہے کہ مغربی معاشروں کا بھی پرتشدد اور ڈرامائی اختتام نہ ہو
افریقہ سے قریب ہونے، مشرقِ وسطیٰ سے زمینی رابطے اور مشرق کے غیر مستحکم ممالک کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے یورپ پہلے دباؤ محسوس کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اپنے گرد سمندروں کے ’بفر‘ یا دیوار کی وجہ سے ذرا زیادہ دیر تک بچا رہے۔
دوسری طرف ہو سکتا ہے کہ مغربی معاشروں کا بھی پرتشدد اور ڈرامائی اختتام نہ ہو۔ کئی واقعات میں تہذیبیں صرف اپنا وجود کھو بیٹھتیں ہیں اور تاریخ کا حصہ کسی بڑے دھماکے سے نہیں بلکہ ہلکی سی سسکی بن جاتا ہے۔
رینڈرز کہتے ہیں کہ برطانوی سلطنت اس راستے پر سنہ 1918 سے تھی اور دوسری مغربی ریاستیں بھی شاید اس راستے پر چلیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مغربی ممالک تباہ نہیں ہوں گے لیکن مغربی معاشرے کا ہموار آپریشن اور دوستانہ فطرت غائب ہو جائے گی کیونکہ عدم مساوات مزید بڑھنے والی ہے۔
’جمہوری، آزاد معاشرہ ناکام ہو جائے گا جبکہ چین کی طرح کی مظبوط حکومتیں فاتح ہوں گی۔‘
ان میں سے کچھ پیش گوئیاں اور ابتدائی انتباہ کی نشانیاں جانی پہچانی لگنی چاہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی جاری ہیں۔ اگرچہ ہومر ڈکسن کو دنیا کے حالیہ واقعات پر حیرانی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے سنہ 2006 میں شائع ہونی والی اپنی کتاب میں پہلے ہی ان کے متعلق پیش گوئی کی تھی لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ سنہ 2020 کی دہائی کے وسط سے پہلے کوئی ایسی پیشرفت ہو۔
تاہم ہومر ڈکسن کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب ناکام نہیں ہوئی۔ فیصلے کرنے کے لیے منطق اور سائنس کے استعمال کے ساتھ غیر معمولی قیادت اوراچھی نیک نیتی سے انسانی معاشرہ بہبود اور ترقی کی اونچی بلندیوں کی سطح پر پہنچ سکتا ہے۔
تاہم اگر ہم آب و ہوا کی تبدیلی، آبادی میں اضافہ اور توانائی میں کمی کا جرات مندی سے سامنا کر لیں تو ہم اپنے معاشروں کو منظم اور بہتر بنا سکتے ہیں لیکن جب اس طرح کے انتہائی دباؤ کا سامنا ہو تو اس کے لیے اس قدرتی خواہش کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں کم تعاون کرنے والا، کم فراغ دل اور منطق تسلیم نہ کرنے والا بناتی ہے۔