طاہرہ اقبال کا ناول: نیلی بار


ایک عہد کا بیانیہ، تاریخ کا آئینہ۔ نیلی بار ناول محض ایک ناول نہیں ہے نہ اُسے صرف ادب اور فکشن تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے عہد کا مکمل بیانیہ ہے۔ ایک آئینہ ہے جس کی روشنی میں تاریخ داں تاریخ سے انصاف کر سکتے ہیں۔
نیلی بار ناول ایّوب خان کے کے دور سے بھٹو کے اِنقلاب اور اس کی پھانسی کے وقت سے لے کر موجودہ دور تک محیط ہے۔ اس دوران کے سارے واقعات، روایت، تہذیب و تمدن سے لے کر اِنقلاب کی آہٹ تبدیلی کی سرگوشی تک سبھی کو ناول نگار نے بہت خوبصورتی سے ایک موتی میں پرویا ہے۔ ناول کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ناول نگار نے تمام مسائل جو پاکستان کو درپیش تھے اور ہیں اُن کو بخوبی بیان کیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ، درگاہیں، گدیاں، پیریاں مریدیاں، مدارس، علمی و ادبی، مذہبی سیاسی و اقتصادی نظام، جاگیر داروں، وڈیروں، مہاجروں، غریب عورتوں کا جنسی استحصال کرنے والوں، حکومت بنانے گرانے والوں، شادی بیاہ کی رسومات، میڈیا سب کو نہایت اعلیٰ اور شاندار طریقے سے ناول میں سمیٹا ہے۔ ناول کی کامیابی اور اُس کی اہمیت کا اندازہ آپ اسی سے لگا سکتے ہیں کہ جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب پیش لفظ میں کہتے ہیں۔
” اردو کے بیشتر ناول گونگے ہیں، وہ بولتے نہیں۔ طاہرہ کا ناول بولتا ہے۔ ”
ناول شروع ہوتا ہے پنجاب کے نیلی بار کے رنگ، موسم اور لوگوں سے۔ شادی کی دھوم سے۔ بار کے تہذیب اور کلچر کو بہت خوبصورتی سے کاغذ پے اتارا گیا ہے۔ پنجابی کی سوندھی سی مہک ان کی زبان کی چاشنی بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اچانک ڈولی کے لوٹنے کے ساتھ شروع ہوتا ہے بار کے ذیلدار اور ڈیروں کی کہانی۔ کس قدر بھیانک اور کریہہ صورت ہے اس نظام کی کہ آج کا قاری حیرت زدہ اور نفرت سے بھر جاتا ہے۔
جہاں مرد بیویوں کے سامنے ڈولیا ں لوٹ کر اُنھیں حجلہ عروسی میں لے جاتے ہیں۔ اپنی عیاشی کو اپنا حق سمجھ کر اُس کا مزہ اٹھاتے ہیں اور بیویاں آرام سے اس فعل کو قبول کرتی ہیں۔ یہ خود تو عیش کرتے ہیں لیکن اپنی بٹیوں کو قیدی بنا کر رکھتے ہیں۔ کِسی نے جرات کی سر بدن سے الگ۔
یہ اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کرتے۔ ناول کے ایک کردار صفورہ کی زبانی۔
”اس حویلی کی فضاؤں نے تو کبھی کِسی گڑیا کو رخصت ہی نہیں کیا۔ یہاں گڈ ے بیاہے جاتے تھے اور روز بیاھے جاتے تھے۔ گڑیا تو اپنے ہی اکلاپے سے بیاہ دی جاتی تھیں۔ اپنے ہی وجود کے محبس میں اپنے ہی تصوّرات کی سرکشی سے نکا ہی جاتی تھیں۔ جہاں اُن کے دولہوں کی براتیں کبھی نہیں اترتی تھیں۔ اپنے ہی سان گمان کی بار ات کو اپنا ہی لہو اور بوٹیاں کھلاتی اپنے ہی اندر چھڑی دیگوں میں خود ہی گھلتی پکتی بھسم ہوتی رہتی تھیں۔ “
لیکن انہی میں سے کوئی ست بھری اور رقیہ ہیں جو ان روایتوں کی باغی ہوکر اپنی راہیں چن لیتی ہیں۔
ناول آگے بڑھتا ہے۔ اور کلیدی کردار زارا، علی جواد، اور پاکیزہ کی صورت میں نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ اِنقلاب کی آہٹ اور بھٹو کی آمد سے دوسرا باب شروع ہوتا ہے۔ ملک شیر کے قتل کے بعد اُن کے بیٹے عبدالرحمن کے سر پر سرداری کی دستار سجتی ہے۔ رقیہ بیگم نے اپنے بیٹے عبدالرحمن سے خاموش رہنے کی ڈیل کی اور اپنی دونوں بچیوں کے ساتھ شہر کی کوٹھی میں منتقل ہو گئیں۔
زارا کی شادی علی جواد سے ہو جاتی ہے اور پھر حالات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں طلاق ہو جاتی ہے۔ طلاق کے بعد علی جواد جو اشتراکیت کا حامی تھا اب مذہبی لبادے میں نام بدلکر مدرسے میں درس و تدریس کرنے لگتا ہے۔ اُسکے حجرے کی ایک تصویر کا نقشہ۔ جس میں ناول نگار نے ان مدارس اور حجروں کے۔ مقاصد کی بخیہ اُدھیڑ دی ہے۔
”حجرہ مذہبی نسخوں، تفسیروں، احادیث، اسلام کی تاریخوں“ فقّہ کی کتابوں سے چھت تک ا ٹا اٹ تھا۔
اتنا علم، اتنا مذہب، اصول، قاعدے، تحدید، سرزنش، جانور فطرت کو سدھارنے والے اتنے کیل نکیل، تھپکیاں، انعام، ڈراوے، کوڑے، عبرت، ترغیب، جنت، دوزخ۔
لیکن کیا ہوا کہ جن کے لیے یہ حدود و قیود اتریں۔ اُنہوں نے خود اپنے ہی ہم نسلوں پر اُنھیں لاگو کر دیا اور خود خدائی صفات اوڑھ کر مسند گاہوں سے لگے ارضی جنتوں سے لطف اندوز ہونے لگے اور سماوی راہ داریاں لکھ لکھ کر تقسیم کرنے لگے۔ ”
ناول کی دوسری اہم کردار زارا غیر ملک سے ڈگری لے کر واپس یونیورسٹی میں لیکچرار ہو جاتی ہے۔ اولاد کی خواہش اور اُسے ایک اعلیٰ حسب دینے کی خاطر وہ ایک پیر صاحب سے شادی کر لیتی ہے۔ حیرت اس بات پر کہ پیر صاحب کی پہلے سے تین بیویاں اور جوان اولادیں موجود ہیں پھر بھی زا را جیسی آزاد خیال یورپ سے تعلیم یافتہ لڑکی جو پہلے تو اس نظام کے خلاف تقریریں کیا کرتی تھی پھر کیوں اُسی نظام کا حصہ بننے پر آمادہ ہو گئی؟
ناول میں اس سوچ کو کتنی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
” اقتدار، دولت، طاقت اور عیش و عشرت بھی ایک ڈپریشن پیدا کرتے ہیں۔ مارنے لوٹنے، حاوی اور امر ہو جانے کا شدید ڈیپریشن۔ جو خاموش زہر کی طرح ان خاندانوں کو کہا جاتا ہے اور دو تین نسلوں کے بعد یہ خود اپنے ہاتھوں مٹ جاتے ہیں لیکن یہ سوچ ختم نہیں ہوتی۔ اُن کی جگہ نئے خانوادے لے لیتے ہیں اور اسی فلسفے سے دولت اور اقتدار کا سرکل اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ پتلے جلانے اور نعرے لگانے والے صدیوں پرانے اس نظام کو نہیں بدل سکتے“قانونِ قدرت کا چکر ہی تبدیلی لاتا ہے۔ “
پھر پیری مریدی کی جو ہولناک داستان شروع ہوتی ہے وہ ہم جیسے آج کے ڈیجیٹل دنیا میں رہنے والے لوگوں کے لیے نہایت عجوبہ ہونے کے ساتھ ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم حیرت میں ڈوبے سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کوئی دنیا ایسی بھی تھی؟
ملاحظہ ہو یہ اقتباس
”زیارت کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ مریدین کی لمبی لمبی قطاریں بندھی تھیں۔ سروں پر رومال باندھے سینوں پر دونوں ہاتھ جوڑے نگاہیں جھکی قدم قدم حدِ ادب میں بڑھتے ہوئے کہیں سوئے ادب نہ ہو جائے۔ خبردار یہ بارگاہِ ادب و احترام ہے۔ بے ادبی کا شائبہ بھی عمروں اور آنے والی نسلوں کو برباد کر دے گا۔
مزار کی گوٹا کناری جڑ ی چادروں کی طرح اپنی کنواری نو عمر لڑکیاں بھی پیرخانوں کو ”نذر“ کر جاتے تھے۔ یہ لاڈلیاں اچھی طرح جانتی تھیں کہ پیرخانے کا ذلیل ترین کام بھی قیامت کے روز نامہ اعمال میں سب سے اتم لکھا جائے گا بلکہ جیتنا ذلیل ہوگا جنت کا حصول اُتنا ہی سہل ہوتا چلا جائے گا اور وہ اپنے گنہگار والدین کے لیے جنت کے دروازے پر دربان بن کر کھڑی ہو جائیں گی۔ ”
زارا وزیر حج و مذہبی امور بن جاتی ہے۔ اُدھر علامہ محمد علی معاویہ یعنی علی جواد مدرسے میں جہادی درس کا کام انجام دیتا ہے۔ ایک دِن زا را کا 12 سال کا بیٹا جب شہادت کی خواہش میں جہادی کمک میں شامل ہونے کو گھر چھوڑ دیتا ہے تو پھر زارا فتح شیر اپنا غرور، شان و شوکت بھلا کر ایک مجبور ماں کی طرح علی جواد کے قدموں میں گر کر اپنا بیٹا مانگتی ہے۔ بیٹا واپس بلا لیا جاتا ہے۔ وہ اپنی وزارت، پیری مریدی سب چھوڑکر بیٹے کو لے کر امریکہ چلی جاتی ہے۔ 4 سال بعد واپس پرانی یونیورسٹی جوائن کرتی ہے۔ وہیں اُسے خبر ملتی ہے کہ علامہ محمد علی معاویہ کو اس کے ہی ایک شاگرد خودکش بمبار نے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
کہانی میں واقعات سلسلے وار بیان کیے گئے ہیں۔ ناول نگار نے کمال خوبصورتی سے سیاست کی روداد حکومت کی تبدیلی، اِنقلاب کی آہٹ، مارشل لا کی حقیقت کو مختصر مگر جامع طریقے سے منظرِ عام پر رکھا ہے۔ انقلاب کے نام پر خواب دکھا کر فوجی نصیر جیسے لوگ عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ انقلاب کتنی کوشش کر لے مگر حکومت جاگیردار کی ہی دسترس میں رہتی ہے عوام صرف قربان ہونے کے لیے ہیں نعر ے لگانے کے لیے، سڑکوں پر مرنے کے لیے ہے۔ دیکھیے ناول سے ایک مثال۔
”کھوکھلے بے عمل لفظ گڑھنے والے خود تو انعام و اکرام، ستائش و قصائد کی بارش میں نہاتے رہتے ہیں لیکن وہ زبانیں کٹتی ہیں وہ سر پھوٹتے رہتے ہیں۔ جن سروں میں ان کا انقلابی سودا سما جاتا ہے، جن میں اُن کا خنّاس بھر جاتا ہے“
ناول ہر مسئلے اور موضوع کی پوری تصویر اور اُس کے پس پردہ عزائم اور مقاصد کی ترسیل قاری تک غیرجانبدار انہ طریقے سے کرتا ہے۔ روس کے خاتمے میں امریکہ کا کردار اس کا پاکستان کو اپنے مفاد کو لے کر مذہب کا استعمال کرنا اور پاکستان کو دہشت گرد ی کی آگ میں جھونک دینا۔ یہ سارے واقعات کا انکشاف اور اعتراف ناول نہایت ایمانداری سے کرتا ہے۔
جیسے نائن الیون کا واقعہ جس نے پاکستان کی سیاست اور مذہب کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اس واقعے نے ساری دنیا کو بدل دیا تھا لیکن یہاں جو بدلاؤ تھا وہ یہ کہ ملّا اور مولوی اپنی حیثیت و مقام اور تقدیس میں بہت چڑھ گیا تھا۔ بس میں تعداد سے زیادہ جان نثاروں کو اکٹھا کرتے ہوئے وہ اچانک مولانا صاحب ہو گئے تھے۔ جوانوں کو حوروں  کے خواب دکھا کر شہادت کے لیے تیار کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ عارف بھٹی جیسے لوگ حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں وہ کہتا ہے۔
”یہ فتوے یہ ترغیبات برین واشنگ جو ایک سپر پاور دوسری سپر پاور کی تباہی کے لیے پلان کرتی رہی ہے۔ اب ایک کاروبار کی شکل میں پھل پھول رہا ہے اب اس کے کارخانے دھڑا دھڑ مال تیار کر کے منڈیوں میں پھینک رہے ہیں، جس نے کساد بازاری پیدا کر دی ہے۔ یورپ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی منڈی ایشیا ہے تو ایشیا کی مجاہد ساز کمپنیوں کی منڈی۔ “
مگر اس کی کافرانہ بات کوئی سننے کو تیار نہیں، اور جب امریکہ اُن مجاہدوں کو جن کو اپنے عزائم کے استعمال کے لیے عسکری تربیت دی، جدید اسلحہ دیا، اسلام کا سپاہی قرار دیا تھا۔ دہشت گرد کا ٹھپہ لگا دیتا ہے۔ گل خان کہتا ہے
” باسٹرڈ۔ مغالطے میں رکھا کافروں نے ہمیں اسلام بچانے کا حکم دے کر خا تمہ کیا اپنے دشمن کا واحد سپر پاور بننے کے لیے ہمیں استعمال کیا گیا۔
باقی میڈیا کا جو نقشہ اُنہوں نے کھینچا ہے اس میں وہی تصویر دکھتی ہے جو ہم روز اپنے ملک ہندوستان میں دیکھتے ہیں۔ جو حال ادھر کا ہے وہی اُدھر بھی۔ جو تماشے یہاں سکرین پر چمکتے ہیں وہی وہاں۔
ساتھ ہی پاکیزہ کے کردار میں طاہرہ اقبال نے صدیوں سے دبی کچلی عورت کو پیش کیا ہے جو ادھوری کہانیوں میں زندگی کے راز تلاش کرتی ہے۔ حویلی کی چاردیواری میں قید ہوکر بھی اپنے خیال اور تصوّر کو پرواز کرنے دیتی ہے۔ بار کی ثقافت۔ جاگیرداروں کے ظلم کی کہانی کہتی، اقتدار کی گھٹن میں خاموش احتجاج کرتی، عورت کی نفسیات کو سمجھتی، دل میں نرم جذبہ رکھتی ہوئی۔ ناول نگار کی زبانی۔
”بس اس لڑکی کی اتنی سی جنم کتھا کہ وہ اندیکھے نگروں کی کہانیاں سنتی اُن کے انجام سے غیر مطمئن ہوتی اور پھر فکری استعداد کے مطابق اُن میں تبدیلیاں کرتی اور اُنھیں نئی ترکیب اور انجام دیتی ہے“ انہی گھو گو گھوڑوں سے کھیلتی جوان ہو گئی۔ جوانی ڈھلان کی سمت رواں ہو گئی۔ کیا وہ خود اپنی زندگی کی کہانی کو دوبارہ ترتیب دے سکتی ہے۔ “
اس کردار کے ذریعے ناول نگار نے زندگی کے بہت سے را ز سے پردہ اٹھایا ہے۔ نفسیات کی بیچیدگیوں میں غوطہ لگایا ہے اور فلسفیانہ گفتگو کو بھی سمیٹا ہے۔ کہیں نہ کہیں اس کردار کے ذریعہ طاہرہ اقبال نے اپنے موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر نہایت عمدہ طریقے سے کہ کہیں بھی اس میں نصیحیت کو حاوی نہیں ہونے دیا۔
ناول کا اسلوب نہایت شاندار ہے۔ زبان اور الفاظ سے بہت خوبصورت انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ کرداروں کے خا کے اتنے جاندار ہیں کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے وہ عہد اپنے تمامتر جزیات کے ساتھ زندہ ہو جاتا ہے۔ آپ ایک سحر میں ڈوبے ناول کو پڑھتے چلے جاتے ہیں اور دلچسپی کا یہ عالم کہ کہیں بوجھل نہیں ہوتے۔
طاہرہ اقبال صاحبہ کو مبارک باد کہ اُنہوں نے ایک نہایت شاندار ناول اردو ادب کو دیا۔ جو حقیقتاً بولتا ہوا قاری کے اندر ہمیشہ زندہ رہے گا۔