تقریباً دو ماہ سے سویڈن کے شہر سے لاپتہ ہونے کے بعد مقامی پولیس نے پاکستانی صحافی ساجد حسین کی موت کی تصدیق کردی ہے۔
سٹاک ہوم پولیس کی ترجمان کے مطابق ساجد کی لاش ایک ہفتے پہلے اُپسالہ شہر کے نزدیک دریا کے کنارے ملی تھی، جس کے بعد ساجد کے گھر والوں سے ساجد کی لاش کی شناخت کرنے میں وقت لگا۔
ساجد کے ساتھ سویڈن میں رہائش پذیر اُن کے دوست تاج بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مقامی پولیس ساجد کی شناخت کرنے کے لیے اُن کے خاندان سے سوالات کرتی رہی کہ انھوں نے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے، کیا دانتوں کی کوئی سرجری کرائی تھی اور دیگر ملتے جُلتے سوالات۔‘
بالآخر جمعرات 30 اپریل کی رات کو پولیس نے تصدیق کردی کہ اُپسالہ کے دریا کے کنارے ملنے والی لاش ساجد کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تاج نے بتایا کہ اُپسالہ کا شہر ندی، نالوں اور دریاؤں سے گھِرا ہوا ہے۔ اور ساجد کے لاپتہ ہونے کے بعد جب بھی دریا یا ندی سے کوئی لاش برآمد ہوتی تو ہم خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیتے تھے۔ اب تک ساجد کے مرنے کی وجہ ثابت نہیں ہوئی ہے۔
پولیس تاحال ساجد کی آٹوپسی کے لیے ثبوت اکٹھا کررہی ہے اور ترجمان کے مطابق رپورٹ آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
بلوچستان کے علاقے کیچ سے تعلق رکھنے والے ساجد سویڈن کی اُپسالہ یونیورسٹی میں ماسٹرز کا کورس کر رہے تھے۔ اس کی خاطر انھوں نے حال ہی میں سٹاک ہوم سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع شہر اُپسالہ میں ایک ہاسٹل میں کمرہ کرائے پر لیا تھا۔
لیکن دو مارچ سے ساجد ہاسٹل میں شفٹ ہونے کے بعد سے لاپتہ رہے۔
ساجد کی گمشدگی کی اطلاع اُپسالہ یونیورسٹی کی ایرانی زبان کی پروفیسر کرینہ جہانی نے 2 مارچ کو پولیس کو دی۔کرینہ اور ساجد پچھلے کئی ماہ سے بلوچی اور انگریزی زبان کی لغت تیار کرنے میں مصروف ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پروفیسر کرینہ جہانی نے کہا کہ ’اس وقت ہم آٹوپسی رپورٹ کے منتظر ہیں۔ اُس سے بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ اب تک تو پولیس کسی بھی جرم کی تصدیق نہیں کررہی ہے۔‘
اُن کے دوستوں نے پولیس میں تین مارچ کو رپورٹ درج کرائی اور مقامی پولیس نے باقاعدہ طور پر پانچ مارچ کو کام شروع کیا۔
پولیس کے ترجمان کے مطابق ہاسٹل کے کمرے سے ساجد کا بیگ اور لیپ ٹاپ ملا تھا جبکہ سفر کے کاغذات جیسا کہ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات غائب تھیں۔
دوسری جانب سٹاک ہوم میں مِسنگ پرسنز پر کام کرنے والے ادارے سے منسلک جینی جوہینسن اور ان کے ساتھیوں نے دو مارچ سے اب تک کے عرصے میں ہاسٹل کے گرد و نواح جبکہ شہر کے جنگلات اور ندیوں میں بھی تلاش جاری رکھی ہوئی تھی۔
اور دو ماہ بعد ساجد کی لاش اُپسالہ کے نزدیک دریا سے ملی۔
ساجد حسین نے کراچی میں پہلے ڈیلی ٹائمز اور پھر دی نیوز اخبار میں 2008 سے 2012 تک کام کیا ہے۔
ساجد کے بھائی نے بتایا کہ 2012 میں 'ساجد نے اپنی جان بچانے کے لیے ہنگامی حالات میں ملک چھوڑ کر عمان میں پناہ لی تھی۔'
ساجد کے دوست تاج بلوچ کے مطابق ساجد کے خاندان اور دوست احباب کے جبری طور پر گمشدہ اور بعد میں قتل ہونے کے نتیجے میں ساجد نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان کے دوست کے مطابق ساجد کو ملک میں رہتے ہوئے اپنے زندہ رہنے کی امید نہیں تھی۔
اس لیے انھوں نے عمان جانے سے پہلے اپنی زیرِ تحریر کتاب کا ایک باب اپنے دوست کو ای میل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ باب اُن کی بیٹی تہیر کو تب دینا جب وہ اٹھارہ سال کی ہوجائے۔
دو سال عمان میں رہنے کے بعد ساجد دبئی اور پھر وہاں سے یوگنڈا منتقل ہوئے۔
اس عرصے میں ساجد نے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کیا۔ اس دوران ساجد نے صحافت کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے صحافی سے ٹرانسپورٹر بننے تک کے سفر پر ایک مضمون بھی لکھا۔
ساجد سنہ 2017 میں سویڈن پہنچے جہاں پر وہ اُپسالہ یونیورسٹی میں ایرانی زبان میں ماسٹرز کررہے تھے۔ ساجد نے سنہ 2019 میں سویڈن میں پناہ لینے کے لیے درخواست دی جو قبول ہوچکی تھی۔ مارچ سے پہلے تک ساجد اپنے ایک دوست کے ساتھ سٹاک ہوم میں رہ رہے تھے۔
اور اُپسالہ آنے کا فیصلہ انھوں نے یونیورسٹی سے نزدیکی کی بنیاد پر لیا۔ ساجد اپنی بیٹی اور بیوی کا سویڈن منتقل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
کراچی میں دی نیوز کے سینئیر ایڈیٹر طلعت اسلم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ساجد ایک باصلاحیت اور قابل انسان تھے۔ اُن کا اچانک سے ملک اور صحافت چھوڑ دینا ہم سب کے لیے کافی افسوسناک تھا۔'
ساجد آن لائن اخبار بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر اِن چیف تھے۔