اشیش اور ان کی والدہ واٹس ایپ
کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں
جب
اس ہفتے اس بات کا انکشاف ہوا کہ انڈیا میں انٹرنیٹ کی سست رفتار کے پیچھے 'صبح
بخیر' کے کروڑوں پیغامات ہیں جو لوگ واٹس ایپ پر ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں تو بہت
سے لوگوں کو اپنی ماؤں کا خیال آیا۔
صرف مائیں ہی نہیں،
بلکہ خیال رکھنے والے چچا، پیار کرنے والی خالائیں اور اسی طرح کے دوسرے عزیز و
اقارب۔ ڈیجیٹل دور میں داخل ہونے والے اِن انڈین شہریوں کو احساس ہوا ہے کہ وہ ایک
بٹن دبا کر اپنے عزیزوں سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں انڈیا
میں مسئلہ پیش آ رہا تھا کہ ہر تین میں سے دو صارفین کو شکایت تھی کہ ان کے فون کی
سپیس ہر روز ختم ہو جاتی ہے۔ گوگل نے اس معاملے پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس کے
پیچھے وٹس ایپ کے پیغامات ہیں۔
گوگل نے وال سٹریٹ جرنل
کو بتایا کہ اس نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک ایپ متعارف کروا دی ہے۔
بی بی سی مراٹھی سروس
کے ایڈیٹر اشیش ڈکشٹ کو ان کی والدہ اور دوسرے رشتے داروں کی طرف سے روزانہ کئی
پیغامات وٹس ایپ پر موصول ہوتے ہیں۔
وہ اکیلے نہیں ہیں: 'آپ
ہمارے دفتر میں کسی سے بھی بات کر لیں، ہر کسی کی یہی کہانی ملے گی۔ مجھے روزانہ
صبح 15 سے 20 پیغام ملتے ہیں۔ یہ زیادہ تر رشتے داروں کی طرف سے ہوتے ہیں۔
'البتہ بعض پیغامات ایسے
لوگوں کی جانب سے بھی آئے ہوتے ہیں جنھیں میں سال دو سال بعد ہی ملتا ہوں۔'
ان پیغامات کی اکثریت
تصاویر اینی میشن پر مبنی ہوتی ہے۔
اشیش کہتے ہیں: 'میرے
خاندان کے معمر افراد کو وٹس ایپ کا نشہ سا ہو گیا ہے۔ وہ مسلسل اسے استعمال کرتے
رہتے ہیں۔ میری امی صبح سویرے اٹھ کر وٹس ایپ آن کرتی ہیں اور سینکڑوں پیغامات
فارورڈ کرتی ہیں۔ اس کے جواب میں انھیں بھی سینکڑوں پیغامات موصول ہوتے ہیں۔
'وہ ان سب پیغامات کو
اپنے سارے کنٹیکس کو بھیج دیتی ہیں۔'
اشیش کہتے ہیں کہ یہ
رویہ 1960 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں میں عام ہے۔
خود اشیش کا فون ان
پیغامات سے بھر جاتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ ان کی والدہ کا فون ہے۔
وہ روزانہ سینکڑوں
ویڈیوز اور تصاویر بھیجتی رہتی ہیں جن میں حسن نکھارنے کے ٹوٹکوں سے لے کر صحت کے
پیغامات اور دوسری چیزیں شامل ہوتی ہیں جس سے ان کا فون بھر کر کریش ہو جاتا ہے۔
ان کی نسل کے بیشتر
لوگوں کا یہ کسی بھی قسم کے کمپیوٹر سے پہلا واسطہ ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹ اشیش کی والدہ کی جانب سے ایک محبت بھرا پیغام
اشیش کہتے ہیں: 'وٹس
ایپ سے انڈیا میں یکایک تبدیلی آئی ہے۔ فون سستے ہو گئے ہیں اور ڈیٹا اور بھی سستا
ہے۔'
ان کی والدہ سمجھتی ہیں
کہ وہ مفت میں پیغامات بھیجتی رہتی ہیں اور اس سے انھیں خوشی ملتی ہے۔
'اگر میں ان کے پیغامات
نہ پڑھوں تو وہ پریشان ہو جاتی ہیں اور مجھے فون کر کے پوچھتی ہیں۔ میں کہتا ہوں
کہ میرے پاس سینکڑوں پیغام پڑھنے کا وقت نہیں ہے۔'
وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے
خاندان جن کے افراد ملک کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں، ان کی وجہ سے وٹس ایپ زیادہ
مصروف رہتا ہے۔
'وہ بوڑھے ہیں اور انھیں
ہر چیز فارورڈ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے بات کرنا اور رابطے میں رہنا
چاہتے ہیں۔
'بہت سے لوگ زیادہ فاصلے
کی وجہ سے اپنوں سے مل نہیں پاتے۔ انٹرنیٹ نے انھیں قریب لانے کا طریقہ فراہم کر
دیا ہے۔'
بشکریہ بی بی سی اردو