رومانیہ کا بدلتا چہرہ، اب لوگ سیاہ فام افراد کو ’گھور‘ کے نہیں دیکھتے

ٹوبی
تصویر کے کاپی رائٹ.
ٹوبی کو یہ شہرت 2015 میں اس وقت ملی جب وہ گلوکاری کے مقابلے 'وائس آف رومانیہ' میں تیسرے نمبر پر آئے
ٹوبی ابیٹوئے 15 برس کی عمر میں نائجیریا سے رومانیہ آئے اور ان کے بقول رومانیہ آ کر انھیں احساس ہوا کہ ان کی رنگت کیسے انھیں مقامی لوگوں سے منفرد کرتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کچھ دن بعد ہی میں انھوں نے محسوس کیا کہ لوگ انھیں گھور کر کیوں دیکھتے ہیں اور جب کسی کو ایسے دیکھا جائے کہ جیسے وہ کوئی تماشا ہے تو یقیناً بہت برا محسوس ہوتا ہے۔
اپنے والد کی رومانیہ تعیناتی کی خبر سے پہلے میں نے کبھی اس ملک کے بارے میں نہیں سنا تھا۔
لیکن آٹھ سال بعد سب کچھ بدل چکا ہے، وہ ایک مشہور موسیقار بن چکے ہیں۔ ان کے بڑی تعداد میں مداح ہیں اور انھیں نے حال ہی میں ایک ریکارڈ ڈیل بھی کی ہے۔
اب لوگ انھیں اس لیے گھورتے ہیں کیونکہ وہ پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا یہ شخص واقعی ٹوبی ابیٹوئے ہے۔
ٹوبی کو یہ شہرت 2015 میں اس وقت ملی جب وہ گلوکاری کے مقابلے ’وائس آف رومانیہ‘ میں تیسرے نمبر پر آئے۔
سنہ 2009 میں ٹوبی کے والد کی رومانیہ میں موجود نائجیریا کے سفارتخانے میں تعیناتی کے بعد جب وہ رومانیہ آئے تو ان کو ملک میں جس سلوک کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔
رومانیہ کا شمار یورپ کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں افریقی نژاد لوگ بہت ہی کم تعداد میں آباد ہیں۔
رومانیہ میں معاشرتی مساوات کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ ’اینا کراکیون‘ کے مطابق ملک میں موجود بڑی عمر کے لوگ معاشرتی تنوع کے تصور سے نابلد ہیں اور وہ اس حوالے سے کسی بھی تبدیلی کے خلاف ہیں۔
ٹوبی کے بقول ’اگر کوئی سیاہ فام شخص ملک کے کسی بھی چھوٹے شہر میں جائے گا تو لوگ اسے گھور کر دیکھیں گے، کچھ لوگ حیرانگی اور کچھ تجسس کے باعث ایسا کرتے ہیں۔
TOBI IBITOYE
تصویر کے کاپی رائٹ
رومانیہ کا شمار یورپ کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں افریقی نژاد لوگ بہت ہی کم تعداد میں آباد ہیں
کیا رومانیہ تبدیل ہو رہا ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب لوگ انٹرنیٹ کے دور میں رہ رہے ہیں جس کی وجہ ان کے رویوں میں تبدیلی اور برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹوبی کی کامیابی اکیلا واقعہ نہیں ہے حال ہی میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے ایک اور سنگر وائس آف رومانیہ میں دوسرے نمبر پر آئے ہیں اور ایک مخلوط نسل خاتون گلوکارہ نے یہ مقابلہ جیتا بھی ہے۔
یہ نسل پرستی نہیں ہے
لیکن کیا ٹوبی سمجھتے ہیں کہ انھیں لوگ اس لیے ووٹ دیتے ہیں کیونکہ وہ مختلف ہیں؟ نا کہ ان کے فن پر مہارت کی وجہ سے؟
میرے خیال میں دونوں وجوہات کے باعث لوگ مجھے ووٹ دیتے ہیں، ان دونوں کو آپ الگ نہیں کر سکتے۔
میں تو لوگوں کی حمایت سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور پھر مجھے احساس ہوا کہ جسے میں ایک مشغلے کے طور پر دیکھتا تھا در حقیقت وہ میرا ٹیلنٹ ہے اور لوگ بھی اسی ٹیلنٹ کو دیکھ رہے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو سے وابستہ ’کاژمن ویرو‘ کے بقول اگرچہ رویوں میں تبدیلی آرہی ہے لیکن دہی آبادیوں میں ایسا نہیں ہے۔
ان کے بقول ’ اس کی وجہ نسل پرستی نہیں ہے بلکہ ان کا بیرونی دنیا سے محدود رابطہ ہے۔
کاژمن کا کہنا ہے کہ نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے تجربے کو آپ تمام معاشرے کے روئیے کا مظہر نہیں قرار دے سکتے۔