ہہاءالدین زکریا بلیک میلنگ سکینڈل میں کون کون ملوث ہے؟

محمد عامر حسینی
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ سرائیکی میں ایم اے کی طالبہ (م) نے ویمن پولیس سٹیشن گلگشت ملتان میں ایک درخواست دی ہے جس کے مطابق اس کا کلاس فیلو رضا علی قریشی، اس کے شعبہ کا لیکچرار اجمل مہار، بی زیڈ یو ملتان میں بینک برانچ کا مینجر اور مزید تین افراد نے اس کا کئی بار ریپ کیا۔ریپ کے دوران اس کی فلم بنائی اور اسے بلیک میل کرتے رہے۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزمان علی رضا، لیکچرار شعبہ سرائیکی بی زیڈ یو ملتان کے قبضے سے نوجوان لڑکیوں سے زیادتی کی درجنوں فلمیں برآمد ہوئی ہیں۔بتایا گیا کہ سرائیکی شعبے کا لیکچرار اجمل مہار بی زیڈ یو کی طالبات سے جنسی زیادتی اور بلیک میلنگ کا گھناؤنا کام کافی عرصے سے کررہا تھا۔اس حوالے سے مزید کئی اور چھپے جنسی درندوں کے نام سامنے آجانے کی بات کی جارہی ہے۔
ایس ایس پی گلگشت ملتان جلیل عمران غلزئی نے مجھے بتایا کہ سرائیکی شعبہ کے لیکچرار اجمل مہار کے بارے میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ یہ زمانہ طالب علمی سے ہی لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ اور فحش حرکات کے حوالے سے بدنام تھا۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں بھی اس کی شہرت اچھی نہ تھی جہاں سے اس نے ایم اے سرائیکی کيا تھا۔
اجمل مہار ایک اوسط درجے سے بھی گری ہوئی دانش کا مالک شخص ہے، سوال یہ ہے کہ ایسےآدمی کو کیسے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی شعبے میں آنے کا موقعہ ملا؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں کئی سال پیچھے جانا پڑے گا۔
2000ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر غلام مصطفی چودھری مرحوم نے ’سرائیکی ریسرچ سنٹر‘ (ایس آر سی) کی بنیاد رکھی تو انہوں نے حیرت انگیز طور پہ اس ریسرچ سنٹر کا سربراہ کسی سرائیکی دانشور کو بنانے کی بجائے، اس وقت اردو ڈیپارٹمنٹ کے چئرمین ڈاکٹر انوار احمد کو اس کا ڈائریکٹر بنادیا گیا۔
بیشتر سرائیکی دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سرائیکی زبان کے ماہرین نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی اور اس مخالفت اور تنقید میں اس وقت تیزی آگئی جب ڈاکٹر  انوار احمد نے اردو ڈیپارٹمنٹ سے ہی اپنے چہیتے شاگردوں کو اس سنٹر میں ریسرچ سکالر اور ریسرچ آفیسر کے طور پہ بھرتی کرنا شروع کر دیا۔
2009ء میں سرائیکی ریسرچ سنٹر سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں تبدیل ہوا تو اس وقت بھی اس کے سربراہ ڈاکٹر انوار احمد مقرر ہوئے اور اس دوران اجمل مہار جو کہ اردو ڈیپارٹمنٹ سے اردو میں ایم فل کررہے تھے تو ان کو پہلے ریسرچ سکالر کے طور پہ بھرتی کیا گیا اور پھر ان کو ریسرچ آفیسر کے طور پہ ترقی دے دی گئی اور بعد ازاں وہ سرائیکی شعبے میں لیکچرار کے طور پہ بھرتی کرلیے گئے۔
سرائیکی شعبے کے حوالے سے ایک اور بات بہت اہم ہے کہ ڈاکٹر انوار احمد جب شعبہ اردو سے ریٹائر ہوگئے تو اس شعبے کا چئیرمین انہوں نے اردو کے ہی ایک اور پروفیسر علمدار حسین کو مقرر کروایا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد  آج اس شعبے کے چئرمین ڈاکٹر انوار احمد کے ہی شاگرد قاضی عابد ہیں۔ان کا تعلق بھی شعبہ اردو سے ہے۔
اس شعبے میں آج تک سرائیکی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے اور سرائیکی شعر و ادب کی پہچان بننے والے ملتان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام کیوں نہیں آسکے اور وہ کیوں اس شعبے میں ریسرچ سکالر، ریسرچ آفیسر اور لیکچرار بھرتی نہ ہوسکے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف یہ ہے کہ ڈاکٹر انوار احمد اور ان کے چند شاگردوں اور دوستوں کی لابی نے ایسا ہونے نہیں دیا اور اس کے لیے ڈاکٹر انوار احمد نے خود اپنے ہی اصولوں کو کئی بار توڑا۔مفاد کے لیے انہوں نے جماعت اسلامی سے ہاتھ ملانے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔ان کے ایک شاگرد نے حال ہی میں جماعت اسلامی کی لابی کی حمایت سے یونیورسٹی میں الیکشن جیتا ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی سربراہی کے زمانے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی اور میرٹ کا خون بھی کیا۔اردو ڈیپارٹمنٹ اور سرائیکی شعبوں میں ان کی ذاتی پسند ناپسند کی بھینٹ بہت سے لوگ چڑھ گئے۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر انوار احمد نے جماعت اسلامی کی لابی کو خوش کرنے کے لیے پروفیسر عامر سہیل کو اردو ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار بھرتی نہ کیا لیکن اس ’لبرل‘ کو سرگودھا یونیورسٹی کے جماعت اسلامی کے ہمدرد اکرام چودھری نے رکھ لیا۔
ڈاکٹر انوار احمد کے جو قصے ان کے مخالفین (ان میں سے ایک بھی غیر ترقی پسند اور جماعت اسلامی کا نہیں ہے) سناتے رہے، ہم نے ان کا کبھی یقین نہیں کیا لیکن آج جب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ان کے بھرتی کیے جانے والے لیکچرار اجمل مہار کا اخلاقی سیکنڈل سامنے آیا اور میں نے اس پہ فیس بک پہ پوسٹ لگائی تو مجھے انباکس میں چار ایسی خواتین کے پیغامات موصول ہوئے جن کی کہی کہانیوں پہ میں اب بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوں۔
مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ ڈاکٹر انوار احمد نے ذاتی چشمک اور نفرت و بغض کو ایک طرف رکھ کر خوب دیکھ بھال اور میرٹ پہ فیصلے کیے ہوتے تو شاید ہم اس طرح کے المیوں سے بچ جاتے۔
اگر ایسی کوئی ٹریجڈی سامنے آتی تو کم از کم ہم اپنے ’کبھی ہیرو رہے‘ ڈاکٹر انوار احمد کی صفائی دیتے کہ انہوں نے تو اپنے طور پہ بہترین انتخاب ہمارے سامنے رکھا تھا اب یہ بدبختی ہے جو ہمارے سامنے آگئی لیکن انہوں نے ایک کرمنل کو مسلط کردیا اور اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
اجمل مہار کی اڑائی کیچڑ کے دھبے خود ڈاکٹر انوار احمد کے چہرے پہ اس پیرانہ سالی میں پڑگئے ہیں جو نہ جانے کیسے صاف ہوں گے۔
میں شاید آخری آدمی ہوں جس نے ڈاکٹر انوار احمد کے بارے میں انتہائی تکلیف کے ساتھ یہ سب تحریر کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
میں ان کا نہ تو شاگرد رہا، نہ ان کے شاگردوں کا شاگرد۔میری تعلیم میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن اس یونیورسٹی میں ترقی پسندی، روشن خیالی، اور خرد افروزی کا علم جس نے بھی اٹھایا، میں نے اس کا ساتھ دینے کی پوری کوشش کی ہے۔
اس یونیورسٹی میں ترقی پسندی کے جن چند بڑے ناخداؤں کو میں نے پوجا ان میں سے ایک ڈاکٹر انوار احمد بھی تھے لیکن یہ ’صنم‘ اندر سے اتنا کھوکھلا ہوگا، یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
آج جب میں یہ سب تحریر کرنے بیٹھا ہوں تو مجھے میلبورن کی ایک یونیورسٹی میں میڈیا سٹڈیز کے ایک مایہ ناز پروفیسر کا پیغام ملا جس ميں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ڈاکٹر انوار احمد کے بہت پرانے دوست ہیں۔
ان کے بقول ڈاکٹر انوار احمد نے خانہ فرہنگ ایران کی طرف سے بی زیڈ یو میں پرشئین ریسرچ سنٹر کے قیام میں رُکاوٹیں ڈالیں تھیں اور اس مقصد کے لیے اس زمانے میں یونیورسٹی میں نظریاتی حریف لابیوں سے گٹھ جوڑ بھی کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو تباہ وبرباد کرنے میں ان کے کردار کے گواہ انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ظفر اقبال بھی ہیں۔
انہوں نے ڈاکٹر انوار احمد کے اندر منٹو کے افسانوں کے کئی ایک کرداروں کی جھلک بہت پہلے دیکھ لینے کا دعویٰ بھی کیا ہے(اللہ کرے یہ جھلک ہی ہو،وہ نہ ہو جس کا ذکر مجھ سے ڈیرہ غازی خان کے ایک معروف ادیب اور ملتان کے دو ادیبوں نے کیا ہے۔)
کچھ لوگ ڈاکٹر سحر انصاری کے خلاف کراچی یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پہ چیں بچیں ہو رہے ہیں۔ وہ بار بار ان کے علم وفضل و شاعری میں کمال کا حوالہ دیتے ہیں لیکن کیا ان کے کہنہ مشق ادیب اور اردو کی تدریس کے ماہر ہوجانے سے ان کو اپنی ساتھی خواتین یا طالبات کو جنسی طور پہ ہراساں کرنے کی آزادی مل جاتی ہے؟
صرف ڈاکٹر نوین حیدر ہی نہیں، ان کی ہراسانی کا نشانہ اور بھی خواتین بنی ہیں۔ڈاکٹر نوین حیدر خود بھی ترقی پسندی، بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ ایک روشن خیال استاد ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے حوالے سے سحر انصاری کے سرگرم ہونے پہ ان کو سبق سکھایا گیا ہے تو یہ سرگرمی تو ڈاکٹر نوین حیدر کے ہاں سحر انصاری سے کہیں ذیادہ ہے۔
مجھے نام نہاد مہان لوگوں کے پستی کے طرف سفر کو دیکھتے ہوئے لیری نسر کا خیال آگیا وہ بھی تو ماہر ترین ڈاکٹر تھا۔اس لیے علم و دانش اور کسی شعبے میں مہارت کو جانے دیں۔یہ مہارت اگر آپ کے انسان بننے کے کام نہ آئے تو ایسی مہارت کسی کام کی نہیں ہے۔
لیری نسر کی عمر 55 سال ہے اور وہ امریکا کی ریاست مشی گن سٹیٹ میں چائلڈ پورنو گرافی میٹریل کی وصولی، اس کو اپنے پاس رکھنے اور شواہد کو مٹانے کے جرائم ثابت ہونے کے سبب 170 سال سزائے قید کاٹ رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں کام کی جگہ پر، سماجی زندگی جیسے سکول اور مدرسوں میں، کھیل اور جسمانی صحت کے تربیتی اداروں میں موجود بچے اور بچیاں ہراسانی، ریپ اور بلیک میلنگ کا شکار ہوتی ہیں۔اکثر یہ شکار وہ لوگ کرتے ہیں جنھوں نے اپنے چہرے پہ دانش و مہارت کا نقاب چڑھا رکھا ہوتا ہے۔
ہمارے سماج میں اس طرح کی صورت حال کا شکار ہونے والی عورتوں کی جانب سے جب ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر، ہم اپنی نفرت اور تحقیر کا رخ جرآت و ہمت دکھانے والی متاثرہ عورت کی طرف موڑ دیتے ہیں۔یہ انسانیت کے جوہر کے شدید فقدان کی علامت ہے۔ہمیں اس فقدان کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔


بشکریہ نقطہ نظر