علی احمد جان
جنگلوں، بیابانوں، صحراؤں اور غاروں میں رہنے والے اولین ادوار کے انسان کے لیے سب سے مہیب شے رات کا اندھیرا تھا جب وہ دیکھ نہیں پاتا تھا جس کی وجہ سے اس کا چلنا پھرناممکن نہیں رہتا اور وہ جہاں ہو وہیں تک محدود ہوجاتا تھا۔ ایسے میں چاند کی روشنی اس کے لیے دن کے اجالے کی نعم البدل بن کر اس کی مشکلات آسان کر دیتی یا پھر آسمان پر پر ٹمٹماتے ستارے اس کا سہارا بن جاتے۔ فطرت کے یہ مظاہر انسان کے لیے باعث تحیر و رحمت دونوں تھے۔ وقت کے ساتھ حیرت کو انسان نے تجسس، تعقل اور تفکر سے نئی دریافتوں میں بدل دیا اور رحمتوں کی تاویلات کو وسعت دے کر الیٰہات کے درجات تک پہنچا دیا۔
سورج ایک نجات دھندہ کے طور پر جب طلوع ہو جاتا تو اس کا خوف ختم ہوجاتا پھر انسان بھی دیگر چرند، پرند اور درند کی طرح پیٹ بھرنے کے لیے نکل پڑتا۔ جاڑے میں رات کی تاریکی میں بڑھتی سردی بھی سورج کی کرنوں سے کم ہو جاتی اور حد نگاہ اس کو نظر بھی آجاتا تو اس رحمت کو وہ سورج کی ناقابل فہم قدرت سے منسوب کرتا اور اسی کی خوشنودی کے لیے ثنا خواں ہوتا۔ سورج ہی کے طلوع ہونے سے ہی اس کی مشکلات کم ہوجاتی تھیں، پودے نمو پاتے، جنگل سر سبز ہوجاتے، جانوروں کے جسم حرارت لیتے تو اس کو انسان آسمان میں سنہری کرنیں بکھیرتے سورج کی کرامات ہی سمجھتا۔
سورج کے بعد چاند ہی ایسا مظہر تھا جو رات کے ہیبت ناک اندھیرے میں نہ صرف روشنی بن کر آتا بلکہ سمندروں کے مدو جزر اور پودوں کی نمو کا دارومدار بھی اسی پر تھا۔ غاروں اور صحراؤں میں بھٹکتے انسان کے لئے اماوس کی کالی راتوں میں جب چاند بھی نہ ہوتا تو ستارے فلک پر اس کی امید بن کر جگمگاتے تو انسان کے نزدیک وہی دھرتی پر مہربان تھے۔ انسان نے سب سے پہلے سورج چاند ستاروں کی پوجا سے ہی مذہب کا آغاز کیا۔ قدیم تہاذیب کی باقیات اورجتنے آثار قدیمہ اب تک ملے ہیں وہ سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سورج، چاند ستاروں کی پرستش تمام ہی انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔ اندھیرا اور تاریکی انسان کے لئے خوف کی علامات رہے ہیں اس لئے کالا رنگ ہمیشہ برائی اور بدی کی علامت سمجھا جاتا رہا۔
سورج، چاند ستاروں کی پرستش کے دوران ان پر غور بھی کیا گیا تو پتہ چلا کہ سورج کے طلوع اور غروب کا بھی ایک قاعدہ ہے، چاند بھی ایک منظم انداز میں مختلف اشکال اختیار کرتا ہے اور ستارے بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں کچھ زیادہ روشن اور کچھ کم روشن، کچھ زیادہ بڑے اور کچھ کم۔ انسانی عقل کو یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ گرمی، سردی، خزاں اور بہار ایک خاص وقت میں خود بخود ہی آجاتے ہیں جس میں پودے نمو پاتے ہیں، پھل پک جاتے ہیں اور پتے جھڑ جاتے ہیں۔
جب انسان نے پودے اور فصل خود اگائے تو انسانی طرز معاشرت بھی شکار سے کاشتکاری کے دور میں داخل ہو گئی اور زندگی کا ایک نیا نظم وجود میں آگیا اور انسانی سماج کی ابتدا ہوئی۔ نئے سماج میں سورج کی روشنی، چاند کی چاندنی اور ستاروں کے جگمگانے سے زیادہ اہم اب دھرتی سے اگنے والی فصل تھی جس کا دارومدار موسم، پانی اور آب و ہوا پر تھا۔ کاشتکاری کے دور میں دھرتی کو بھی ماں جیسا درجہ ملا جو اپنے وجود سے تمام جانداروں کو خوراک فراہم کرتی تھی۔ دھرتی پر پانی، مٹی، پہاڑ، سمندر، پودے اور فصلیں سب مقدس ہوگئے اور ان کے الگ الگ مالک و خالق بھی مانے گئے جن کی خوشنودی بھی لازم ہوگئی۔ نہ صرف ہر فصل، موسم اور جگہ کے دیوتا وجود میں آگئے بلکہ ہر قبیلہ اور گروہ کے اپنے ان داتا بھی اب مالک و مہربان تھے۔
نئے سماج میں زیادہ زرخیز زمینوں پر قبضہ کرنا اور زیادہ لوگوں کو غلام بناکر ان سے مشقت لینا ہی اولیٰ صفات میں شامل تھیں۔ زمین پر قبضے، لوگوں کی قتل و غارت گری اور ان کو غلام بنانے کے لیے معاش کی ترغیب کے ساتھ تقدیس کا رنگ بھرنے کے لیے اس میں دیوتاؤں اور معبودوں کی تائید و رضا شامل کی گئی تو دیو مالا اور اساطیر کا آغاز ہوا جو آگے آنے والوں کے لئے عقیدے کا درجہ اختیار کرگئیں۔ آج مذاہب اور عقائد میں وہی دیو مالا اور اساطیر ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔
جب زرعی معاشرت فرات، نیل، دجلہ، سندھ، گنگا، جمنا، میکانگ اور میڈیسان جیسے دریاؤں کے کنارے زرخیز وادیوں میں ایک نقطہ عروج پر پہنچی تو انسانی مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر پنپنے والا علم بھی کافی حد تک متشکل حالت کو پہنچ چکا تھا لیکن کسی ایک جگہ مجتمع نہیں تھا۔ انسانی گروہ اب مشترکہ و انفرادی ملکیت کے تصور کے ساتھ ایک عمرانی معاہدے کے تحت منظم سماج کی شکل اختیار کر رہا تھا جہاں میل جول، خرید و فروخت، شادی بیاہ، خاندان اور جماعت کا بھی تصور موجود تھا۔
بعض جگہوں پر ایسے ابتدائی ضوابط تحریری حالت میں اب تک موجود ہیں لیکن یہ بات قیاس سے مبرا نہیں کہ ہر انسانی معاشرے میں اس وقت تک ایک ضابطہ وجود میں آچکا تھا۔ ہندوستان، بابل، مصر اور یونان میں ایسے ضوابط دیوتاؤں سے منسوب کیے گئے تھے مثال کے طور پر دنیا میں متعارف کردہ پہلے قوانین میں سے شاہ حمورابی کا ضابطہ بھی قانون کے دیوتا سے منسوب ہے۔ ہر کام، شعبے، قوم اور قبیلے کے الگ الگ دیوتا اور خداؤں کے احکامات لوگوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے استعمال کیے جاتے تھے مگر ان احکامات میں تضاد اور الگ الگ تقاضوں کی وجہ سے ان کی بجاآوری میں مشکلات درپیش تھیں جو لوگوں میں باعث نفاق بھی تھا۔
چونکہ مصر اور بابل میں بادشاہت کے نظام کو اپنایا تھا جس میں ایک بادشاہ دیگر چھوٹے بڑے سرداروں، نامداروں اور عہدیداروں پر حاکم اعلیٰ ہوتا تھا جس کے احکامات سب پر مقدم ہوتے تھے اسی انسانی نظام کی تمام دیوتاؤں اور خداؤں پر بھی ترویج کی گئی۔ فرعون اخناتن نے 1332 قبل مسیح میں ایک خدا کا تصور دیا جس کے مطابق آسمانوں پر صرف ایک ہی مالک ہے جس کے نیچے دیگرسب دیوتا اور خدا ہیں اور وہ خود بھی اسی کی رضا سے حاکم ہے۔ مگر فرعون اخناتن کی موت کے بعد یہ تصور بھی ختم ہوا کیونکہ دیگر دیوتاؤں اور خداؤں کے نام پر اپنی اجارہ قائم کرنے والوں کو یہ راس نہیں آتا تھا۔
بابل اور مصر کی تہذیبیں تو صفحہ ہستی سے مٹ گئیں مگر یہاں سے ابھرنے والا خدا کا تصور اور انسانی معاشرت کا ضابطہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ خدا کی وحدانیت کا تصور ابراہیمی مذاہب کے تصور وحدانیت کی شکل میں موجود ہے بلکہ شاہ حمورابی کے دیے قوانین کو دیکھیں تو وہ بھی کم و بیش صحیفات اور آسمانی کتب کے مندرجات کے مطابق دکھائی دیتے ہیں۔
دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے دی جانے والی قربانیوں کی رسوم اور گائے جانے والے گیت اور بھجن آج بھی انسانی عبادات کا اہم حصہ ہیں۔ مگر دوسری طرف ان تصورات کی حقانیت کے سوالات پر بھی روز اول سے کی جانے والی بحث بھی آج تک جاری و ساری ہے۔ ابراہیمی مذاہب کو نہ ماننے والے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا معلوم انسانی معاشرت کا ضابطہ اور تصور وحدانیت الہامی ہے؟