ڈاکٹر شیر شاہ سید
”تم مسلمان ہو؟“ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ذرا تیز سے لہجے میں پوچھا تھا۔
”مسلمان تو ہوں لیکن شراب بھی پیتا ہوں۔“ میں نے اپنے واڈکا کے گلاس میں تیرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے برف کے ٹکڑوں کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔
”مسلمان تو ہوں لیکن شراب بھی پیتا ہوں۔“ میں نے اپنے واڈکا کے گلاس میں تیرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے برف کے ٹکڑوں کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔
”I hate muslims very much۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہوں، شدید نفرت۔“ اس نے نفرت سے ہی جواب دیا۔
”اوہ! یہ تو فیشن ہے آج کل۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ہر ایک مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے۔“ میں نے واڈکا کا ایک تلخ گھونٹ اپنے حلق سے اُتارتے ہوئے بیرے کو اشارہ کیا۔ اس کے بکارڈی کا گلاس بھرنے کی ضرورت تھی، ”لیکن ہر مسلمان بن لادن یا فلسطینی نہیں ہے اور ہر ایک اپنے سروں پر بم باندھ کر نہیں گھوم رہا ہے۔“
”اوہ، مجھے فلسطینی پسند ہیں۔ I dont mind them۔ وہ بہت اچھے ہیں۔ ویری گڈ پیپل۔“
وہ مجھے پب میں مل گئی تھی۔ دبلا پتلا جسم، سرخ و سفید رنگت، ہلکے گھنگھریالے سے لمبے بال جو شانوں پر چھترائے ہوئے تھے اور بے انتہا پُرکشش آنکھوں پر بھاری بھاری پلکیں۔ ڈھیلے ڈھالے لباس میں اس کے چہرے پر کچھ اس طرح کی کشش تھی کہ دل بے اختیار ہوکر بات کرنا شروع کردے، میں نے بھی یہی کیا تھا اور بات شروع ہوتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ فرانسیسی ہے۔ وہ مُنھ گول گول کرکے انگلش بول رہی تھی، مجھے بڑا اچھا لگا تھا۔ فرانسیسی جب انگلش بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے انگریز فارسی بول رہے ہوں۔
”مجھے فرنچ بہت اچھے لگتے ہیں۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہر کوئی ہمیں پسند کرتا ہے، سوائے انگریزوں کے۔“ اس نے شوخی سے جواب دیا۔
”ہر کوئی ہمیں پسند کرتا ہے، سوائے انگریزوں کے۔“ اس نے شوخی سے جواب دیا۔
بیرا بکارڈی سے بھرا ہوا نیا جام لے آیا جو اس نے شکریہ کہہ کر اپنے ہونٹوں سے لگالیا تھا۔ اس کی ذہین آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔
” الجزائریوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ تو فرانسیسیوں سے محبت نہیں کرتے ہوں گے۔ انگریزوں سے زیادہ نفرت ہے ان کو فرنچ لوگوں سے۔“ میں نے بھی ذرا چٹکی لی تھی۔
”ہاں وہ سب کچھ غلط تھا، بہت غلط۔“ اس کے سرخ و سفید چہرے پر جیسے ایک رنگ آیا اور آکر چلا گیا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔
” الجزائریوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ تو فرانسیسیوں سے محبت نہیں کرتے ہوں گے۔ انگریزوں سے زیادہ نفرت ہے ان کو فرنچ لوگوں سے۔“ میں نے بھی ذرا چٹکی لی تھی۔
”ہاں وہ سب کچھ غلط تھا، بہت غلط۔“ اس کے سرخ و سفید چہرے پر جیسے ایک رنگ آیا اور آکر چلا گیا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔
ہم لوگ لندن میں رسل اسکوائر پر لندن کے دو سو سال پرانے پب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ پب بھی عجیب قسم کا تھا۔ لمبا سا کمرہ اور دیوار کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ٹیبلوں پر کرسیاں جمی ہوئیں۔ فرش پر لکڑی کا برادہ اور چھلی ہوئی لکڑی کا ڈھیر پھیلایا ہوا تھا۔ بظاہر گندہ نظرآنے والا پب اپنے اندر بڑی تاریخ لیے ہوئے تھا۔ میں اکثر و بیشتر یہاں شام کو آجایا کرتا تھا۔ کبھی اکیلا، کبھی دوستوں کے ساتھ یا کبھی لوریتا قسم کے لوگ مل جاتے جن سے دوستی بھی ہوجاتی تھی۔
آج بھی یہی ہوا، پب کچھ زیادہ ہی بھرا ہوا تھا اور وہ اُس میز پر اکیلی بیٹھی ہوئی بکارڈی کی ہلکی ہلکی چسکیاں لے رہی تھی۔ میں اس سے اجازت لے کر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔
اس نے پھر الجزائر کا قصہ سنانا شروع کردیا۔ ”اوہ، بڑا ظلم کیا ہے ہم فرانسیسیوں نے ان لوگوں پر۔ عام انسانوں کا قتل، خواتین کی آبروریزی، جائیدادوں، ملکیتوں کی بربادی اور قدرتی وسائل کا استحصال، فرانس نے بھی جہاں جہاں کالونیاں بنائیں وہاں وہاں سے لُوٹ لُوٹ کر فرانس لُوٹتے رہے۔ اپنی تجارتی منڈی بنا کر رکھا ان ممالک کو اور بدلے میں کیا دیا، ان کا جو بھی قبائلی، غیر تہذیب یافتہ اور روایتی نظام تھا، اس نظام کے حصّے بخرے کردیے۔ ان کی مقامی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، اس سماج میں ایک ایسی نسل کھڑی کردی جس کے مفادات ہمیشہ کے لیے فرانس سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ اب اگر فرانس وہاں سے نکل بھی گیا ہے تو بھی فرانس وہاں موجود ہے۔ بڑی خراب تاریخ ہے ہماری۔ بڑے بُرے لوگ ہیں ہم لوگ۔“ اس نے بڑے تاسف سے کہا تھا۔
”مگر یہ تو ہر کالونیل طاقت نے کیا ہے، فرانس نے، ہالینڈ نے، اٹلی نے، برطانیہ نے، اس زمانے کا تو نظام ہی یہی تھا، اس کو بُرا بھلا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے کون سے مسئلے حل ہوجائیں گے۔ ماضی تو محض ماضی ہے۔ تاریخ دانوں کے لیے ایک چراگاہ جہاں وہ اپنی مرضی سے گھاس چرتے ہیں اور بعض تاریخ دان تو گھاس بھی اپنی مرضی کی ہی اُگا دیتے ہیں۔“ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیرے سے کہا تھا۔
وہ ہنس دی تھی اور جب ہنسی تو ایسا لگا جیسے پورے پب میں رنگا رنگ قمقمے جلنے بجھنے لگ گئے ہیں۔ یکایک جیسے روشنی سی ہوگئی ہے اس کے فرانسیسی چہرے پر ایک خاص قسم کی رونق تھی وہ مجھے غور سے دیکھتے ہوئے گول گول مُنھ بنا کربولی۔ ”بہت دلچسپ باتیں کرتے ہو، آئی لائک اٹ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماضی کو بھول جایا جائے، جب ہم ماضی کو بھولتے ہیں تو وہ سب کچھ ہوتا ہے جوآج ہورہا ہے، دیکھ رہے ہو کیا ہورہا ہے، ہمارے چاروں طرف، تشدد، انسانی حقوق کی پامالی، عورتوں اور اقلیتوں پر ظلم و جبر اور انصاف سے خالی یہ دنیا۔ عجب سی دنیا، میرے خیال میں اس قسم کی دنیا کبھی بھی نہیں رہی ہے۔ انسان کی تاریخ میں اس قسم کا لمحہ شاید کبھی بھی نہیں آیا ہے انسان اتنا ظالم شاید کبھی بھی نہیں رہا ہے۔ اتنا بے تہذیب اور اتنا ظالم“ ۔
”کیا میں پھر اختلاف کرسکتا ہوں۔“ میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے چھیڑنے کے سے انداز میں کہا۔
اس نے میرے خالی گلاس کودیکھتے ہوئے بیرے کو اشارہ کیا، ”واڈکا کہ سمرانوف، یہ دور میری طرف سے ہوجائے۔“
بیرے نے اسے بکارڈی اور مجھے واڈکا کے نئے جام لاکر دیے تھے۔
اس نے میرے خالی گلاس کودیکھتے ہوئے بیرے کو اشارہ کیا، ”واڈکا کہ سمرانوف، یہ دور میری طرف سے ہوجائے۔“
بیرے نے اسے بکارڈی اور مجھے واڈکا کے نئے جام لاکر دیے تھے۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی میں نے بولنا شروع کردیا۔ ”آج کل نا انصافیاں ضرور ہیں مگر قتل عام کا ایسا نظام نہیں ہے کہ انسانوں کے سروں کا مینار بنا کر کھڑا کردیا جائے آج کل کے ظالم تھوڑا ڈرتے بھی ہیں۔ انسان ذاتی غلامی کا طوق اپنی گردن سے نکال کر باہر پھینک چکا ہے۔ عیسیٰ ؑ سے پہلے کی جنگوں میں اور عیسیٰ ؑکے بعد کی جنگوں میں انسانوں کو جس طرح سے مارا گیا اس کی مثالیں اب کہاں ملتی ہیں۔ مصریوں، یونانیوں نے، زرتشت کے ماننے والوں نے، موسیٰ ؑکے پیروکاروں نے، مسلمانوں نے، منگولوں نے، مغلوں نے یا صلیبی جنگ لڑنے والوں نے ہر ایک نے اپنے بلندو بانگ انسانی دعوؤں کی بنیاد پر جنگیں لڑیں اورایسی لڑیں کہ نسلوں کی نسلیں تباہ کردیں۔ آج تو ایسا نہیں ہے۔ انسان آزاد ہے غلامی سے، اسے ذاتی رائے کی آزادی ہے، ایک دوسرے سے اختلاف کی آزادی ہے، دنیا بدل گئی ہے میڈم بہت بدل گئی ہے۔“
وہ ہنس دی دوبارہ مگر تعجب کے ساتھ۔ پھر آہستہ آہستہ بولی۔ ”نہیں اتنی بھی نہیں بدلی ہے، غلامی کی صورتیں بدل گئی ہیں۔ اب ہم سب غلام ہیں، بینکوں کے غلام، اپنے اپنے کریڈٹ کارڈ کے غلام، بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹوروں کے غلام، اپنے قومی مفادات کے غلام اور سب کچھ کرڈالتے ہیں اس غلامی میں بغیر کسی خوف اور شرم کے، بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تامل کے اور اسے نئے نئے رنگ دے دیتے ہیں۔ زرتشت کے ماننے والوں نے انسانیت کے لیے جنگ نہیں لڑی تھی، اقتدار کی جنگ تھی وہ اور یہی کہہ کر لڑی گئی، چنگیز خان بھی دولت اور طاقت کے حصول کے لیے مخالفوں کے سروں کی دیوار چنتا رہا اور اپنی جنگوں کو انسانیت کا نام نہیں دیا اس نے۔ صلیبی جنگیں مذہبی جنگیں تھیں اور یہی کہہ کر لڑی گئیں۔ آج کل تو جنگ لڑی جاتی ہے اور اسے خوبصورت نام دے دیے جاتے ہیں۔ انسانوں کو قتل کیا جاتا ہے تو مخصوص نعرے دے دیے جاتے ہیں۔ نہیں مسٹر، اتنا بُرا نہیں تھا پہلے۔“
”میرا نام رشید ہے، میں لندن میں ہی رہتا ہوں، پاکستان سے آیا تھا کہ پڑھ لکھ کر چلاجاؤں گا مگر کمانے میں لگ گیا تو اب کمارہا ہوں اور یہاں کا ہی ہوکر رہ گیا ہوں۔“ میں نے اسے اپنا نام بتایا اور اپنا تعارف بھی کرادیا تھا۔
”میرا نام لوریتا ہے ہاں تو میں کہہ رہی تھی سینور رشید کہ ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ افریقہ میں ہوٹو لوگوں نے اپنے جیسے ہی افریقیوں کو خون کے دریا میں ڈبودیا۔ سربوں نے بوسنیائیوں کو چن چن کر زندہ زمین میں گاڑ دیا، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ انڈونیشین لوگوں نے اپنے ہی جزیرے تیمور میں رہنے والوں کے گلوں پر چھریاں چلادیں۔ اور فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ تو تم کو پتہ ہی ہوگا۔ ایک پوری قوم کو زندہ درگور کرکے رکھ دیا ہے اسرائیلیوں نے اور تم تو ہو ہی پاکستانی۔ کیا ہورہا ہے کشمیر اور افغانستان میں لوگ مررہے ہیں اور بے تحاشا، بے موت مایوسی کی موت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہاں ہے انصاف؟ انصاف ایک خیالی پرندہ ہے جو آسمانوں کی بلندیوں پر پرواز کررہا ہے اور کبھی بھی زمین پر نہیں اُترے گا اور غریب لوگ، غریب قومیں، سسک سسک کر اپنے بچوں، عورتوں، ماؤں، بہنوں، بیٹوں کی لاشوں پر دردناک نوحے گاتی رہیں گی۔ یہی پہلے ہوتا تھا یہی اب بھی ہورہا ہے۔“ اس نے لمبی چوڑی تقریر کرڈالی۔
میرا نہیں خیال تھا کہ اتنی خوبصورت لڑکی اپنی صراحی دار گردن کے اوپر رکھے ہوئے گھنے بالوں سے ڈھکے ہوئے سر میں یہ سب کچھ بھرے بیٹھی ہے، اس کی بڑی بڑی غزالی آنکھیں ڈسکو کی روشنی سے چکاچوند نہیں ہوئی ہیں بلکہ دنیا کے حالات کو اس باریک بینی سے دیکھتی رہی ہیں۔ میں اس سے مرعوب ہوگیا تھا۔
”بات تو شاید تمہاری صحیح ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ مجھے رُکنا پڑگیا۔ بیرا ہم دونوں کے خالی گلاسوں کو دیکھ کر بکارڈی اور واڈکا کے نئے جام خود ہی لے کر آگیا تھا۔ میری اچھی بات یہ ہے کہ میں کتنا بھی پی لوں کبھی بھی اپنے ہوش و حواس سے باہر نہیں آتا ہوں، چسکی پر چسکی لیتا رہتا ہوں اور اگر کمپنی اچھی ہو تو مستی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ ایک خوشی اور بیگانگی کا احساس، مسائل، پریشانیاں تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی دماغ سے، جسم سے، روح سے جدا ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو جسم، رُوح اور ذہن، دماغ تینوں الگ الگ دنیاؤں میں بادلوں کے اوپر آہستہ آہستہ تیرتے ہوئے پرواز کرتے ہوئے نہ جانے کہاں کہاں گھوم آتے ہیں۔ غالبؔ اورفیضؔ کی بہترین شاعری شاید ان لمحوں کی دین ہے۔ میں نے اسے دیکھا تو ایسا لگا جیسے بکارڈی اس کے چہرے آنکھوں اور وجود پر حاوی ہوچکی ہے، میں سرور میں مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں بھی بڑی گرمجوشی اور سرمستی تھی، نشیلی آنکھوں کا سُرور چھلک چھلک پڑرہا تھا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ ہی بول پڑی، ”اور یہ جو خودکشی والے حملے ہیں نیویارک سے عراق تک یہ تو بے چارگی کی موت ہیں۔ ان کا شکار ہونے والے معصوم شہری، بے گناہ لوگ، ان کے لیے میرا دل روتا ہے بہت روتا ہے بار بارر وتا ہے اور یہ سوچ سوچ کر اوربھی بے قرار ہوتا ہے کہ ابھی ایسے بے شمار لوگ مریں گے، بے تحاشا مریں گے اور مرتے رہیں گے کیونکہ نا انصافی ختم نہیں ہوگی اور بن لادن ٹوٹے گا نہیں اگر وہ گرفتار بھی ہوگیا تو حالات ایسے ہیں کہ مزید بن لادن بن جائیں گے، نکل آئیں گے ان کھنڈروں سے جہاں موت ناچ رہی ہے۔ تم نے بن لادن کی تصویر دیکھی ہے؟“ اس نے غور سے مجھے دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔
”ہاں دیکھی ہے کئی دفعہ دیکھی ہے۔“ میں نے جواب دیا تھا۔
”اس کی آنکھوں میں کچھ ہے، بے رحمی، سنگین بے رحمی ایسی ہی جیسے بش کی آنکھوں میں ہے، حملہ ہر حالت میں حملہ اور اس بے رحمی اورحملے میں لوگ مرتے رہیں گے، لندن میں موصل میں، میڈرڈ میں، بغداد میں۔ یہ بڑا افسوسناک ہے بہت افسوسناک۔ دنیا بن لادن اور بش لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔“
کسی یورپین سے اس قسم کی باتوں کی توقع نہیں تھی مجھے مگر وہ سب کچھ کہہ گئی تھی۔ ایسی باتیں جو کراچی کی گلیوں میں لوگ کرتے ہیں، جو قاہرہ کے بازاروں میں ہوتی ہے، جو بغداد کے گھروں میں کی جاتی ہے یہ کیسی فرنچ ہے۔ پہلے کیا کہہ رہی تھی اب کیا کہہ رہی ہے۔ کیا میں نشے میں کچھ اور سن رہا ہوں یا وہ نشے میں کچھ اور بول رہی ہے۔ ”I thought you hate muslims۔ یہی کہا تھا نا تم نے کہ تم مسلمانوں سے نفرت کرتی ہو۔ لیکن کہہ رہی ہو یا میں غلط سن رہا ہوں۔“ میں اپنے تعجب کونہیں چھپاسکا تھا۔
”وہ تو میں کرتی ہوں شدید نفرت، مسلمانوں سے گھن آتی ہے مجھے۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ بکارڈی کا ایک بڑا گھونٹ لیا، اس نے پھر میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔ ”نائیجر کا نام سنا ہے تم نے۔ صومالیہ اور ایتھوپیا سے ملا ہوا ملک ہے۔ مسلمان ملک۔ محمد حسین، فاطمہ، علی احمد، عائشہ، مریم اورعمر نام کے لوگ رہتے ہیں۔ سارے مسلمان۔ میں وہاں سے آئی ہوں تین دن ہوئے اور اب پرسوں پیرس چلی جاؤں گی۔ چھ ماہ سے کام کررہی تھی وہاں آفت زدہ علاقوں میں۔ میں ڈاکٹر ہوں اور وہاں امدادی کام کرنے گئی ہوئی تھی۔“
”پتہ ہے تمہیں لوگ کیسے مررہے ہیں وہاں۔ مسلمان لوگ؟ قتل نہیں ہورہا ان کا، کوئی بم نہیں پھینک رہا ہے ان پہ، وہ سب بھوک سے مررہے ہیں بھوک سے، فاقے سے، اناج کی کمی سے، پانی نہ ہونے کی وجہ سے۔ میں نے لوگوں کو پگھلتے ہوئے دیکھا ہے، وہ چھوٹے چھوٹے چھ سال سات سال آٹھ سال کے بچّے، نوجوان ہوتی ہوئی لڑکیاں اپنے پچکے ہوئے گالوں، اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہمارے کیمپ میں آتی ہیں اور مرجاتی ہیں۔ خواہش اُمنگیں تمنائیں لیے ہوئے۔ نہیں بچا سکے انہیں ہم لوگ، وہاں یہی کچھ ہورہا ہے، بھوک اور بیماری سے لوگ مررہے ہیں، بے وقت کی موت، بے حساب کی موت۔“
”دوسری طرف تمہارے سعودی عرب میں جتنا کھانا پھینکا جاتا ہے اتنے کھانے سے ان سب کا پیٹ بھرسکتا ہے۔ سارا سال۔ لندن اور پیرس کے جواخانوں میں سعودی شہزادے جتنا ہار جاتے ہیں اس سے بھی کم میں ان کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ سعودی عرب، دبئی، ابوظہبی، کویت ان تیل والے ملکوں کی ایک دن کی آمدنی سے یہ سارے بچّے، عورتیں، مرد، بوڑھے بچ سکتے ہیں۔ مگر وہ سب مررہے ہیں اور مریں گے ہماری آنکھوں کے سامنے۔ میں نے کل لندن میں ایک جلسے میں بھیک مانگی ہے ان کے لیے اور اس ہفتے کے آخر میں پیرس میں بھیک مانگوں گی ان کے لیے۔ ان مرتے ہوئے بچوں کی تصویریں دکھا کر اور واپس جاؤں گی تو وہ مرچکے ہوں گے۔ محمد حسین، فاطمہ، عائشہ، عمر، مریم نام والے مسلمان۔ دوسری جانب تیل نکل رہا ہے، جوئے خانے چل رہے ہیں۔ دنیا بھر سے عیاشی کی ہر چیز وہاں پہنچائی جارہی ہے۔ معلوم ہے میرا دل کیا کرتا ہے؟“ اس نے مجھے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور سوال کیا تھا۔
”کیا کرتا ہے؟“ میں نے بھی خفت آمیز لہجے میں مسکرا کر ہی سوال کا جواب سوال سے دیا تھا۔
”میں بھی خودکش بمبار بن جاؤں، اپنے جسم پر بارود لپیٹ کر کبھی جدہ کے محلوں میں پھٹُوں، کبھی ابوظہبی کے ایوانوں میں پھٹوں، کبھی کویت کے قلعے میں پھٹوں، کبھی برونائی کے دربار میں پھٹوں، تباہ کردوں ان سارے حکمرانوں، شہنشاہوں، بادشاہوں کو ان کے محلوں کے چراغوں کو ہمیشہ کے لیے بجہادوں پھر محمد، حسینوں، فاطماؤں، عائشاؤں اور مریموں کے، بار بار نائیجر میں مرنے کا کوئی دکھ نہیں ہوگا مجھے۔“ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
مجھے ایسا لگا جیسے بکارڈی اس کے دماغ میں بھرگئی ہے نشہ چڑھ گیا ہے اتنا زیادہ کہ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا وہ کیا کہہ رہی ہے، میں نے آنکھیں بند کرکے کرسی کے سرہانے پر سر ٹکا دیا۔ نشہ کرنا صحیح نہیں ہے، صحیح منع کیا گیا ہے ہمارے مذہب میں، نشہ بُرا ہے، نشہ گناہ ہے نشہ گناہ ہے، نشہ گناہ ہے۔ عجیب باتیں سوچتا ہے آدمی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے کار کی باتیں۔ خود کش حملہ آور بننے کی باتیں۔ جان دینے اور جان لینے کی باتیں۔ میرا سر پہلی دفعہ نشے میں چکرایا تھا۔