آسٹریلیا کے بے غیرت مرد اور دیسی سوشل میڈیا کی جاگتی غیرت

سعدیہ احمد
جب انسان زبردستی لکھنے بیٹھ جائے تو یہی ہوتا ہے جو اس وقت میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ لفظ اڑتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خیالات کس رو میں بہہ جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ جیسے ایک تین سال کا بچہ تتلیاں پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور ناکام ہوتا ہے اسی طرح ہم بھی دیوانہ وار اچھل رہے ہیں۔ کچھ سرا ہی ہاتھ میں نہیں آتا۔ یہ غریب الوطنی چیز ہی ایسی ہے۔ پاکستان سے باہر آ کر انسان سن سا ہو جاتا ہے۔ کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ زندگی اب جینے مرنے کے ایشوز سے آزاد ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ کو علم ہوتا ہے کہ آپ محفوظ ہیں۔ لیکن وہ مستقل ڈر جس کی پرورش آپ کے ساتھ ہی ہوئی تھی محض اونگھ رہا ہے۔ ہماری طرح اس کی نیند بھی کچی ہے۔ خود سے ہی ڈر کر اٹھ بھی جاتا ہے۔ زور کا جھٹکا لے کر! فورا سائیڈ ٹیبل کا لیمپ جلا کر تاریکی کو ختم کر کے! روشنی سے چندھیا کے!
ہم اس وقت ایک کہنے کو ترقی یافتہ ملک ہیں۔ ہاں قتل و غارت یہاں بھی ہے۔ مہنگائی یہاں بھی ہے۔ بیروزگاری یہاں بھی ہے۔ لیکن کسی چیز کو ریاستی پشت پناہی حاصل نہیں۔ بلکہ یوں کہئے کہ سرکار ان مسائل کے خاتمے کے لئے ہمہ وقت سرگرداں رہتی ہے۔ انسانی جان کی قیمت گاجر مولی سے زیادہ ہی ہے۔ اور یہ اسی کوشش میں لگے ہیں کہ اس ریٹ میں اضافہ ہو۔
عورتوں کا جو جی چاہے پہنتی ہیں۔ اس کی جلد دکھنے پر کسی کی مردانگی خطرے میں نہیں پڑتی۔ ساحل سمندر میں فطری لباس میں ملبوس عورتیں دیکھ کر کسی مرد کی شہوانی خواہشات ٹھاٹھیں نہیں مارتیں۔ ہنستی گاتی عورت کسی کو یہ کہہ کر نہیں للکارتی کہ میں معاشرتی اقدار تہس نہس کرنے کو آئی ہوں۔ عورتیں ٹرینیں بھی چلاتی ہیں۔ مرد گھر بھی چلاتے ہیں۔ عورتیں چرچوں میں پادری بھی ہیں۔ مرد بیلے ڈانسر بھی ہیں۔ عورتیں فائر فائٹر بھی ہیں۔ مرد لطیف جذبات کے اظہار سے چوکتے نہیں۔ عورتیں اپنے حقوق سے آشنا ہیں۔ مردوں کو یہ آشنائی اپنی مردانگی میں خطرے کا باعث نہیں لگتی۔
کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ یہ عورتیں تو جہنم کا ایندھن بنیں گی ان مردوں کو بھی غیرت کے ٹیکے لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کو تو مرد کہنا ہی مردانگی کی توہین ہے۔ صاحب، مرد تو وہ ہے جس کی آواز کی تلخی اور والیم سگوں کو مات دے۔ مرد تو وہ ہے جس کی زندگی کا اولین مقصد عورت کی آزادی سلب کرنا ہو۔ مرد تو وہ ہے جس کی عزت ہی اس کے گھر کی عورتوں کے دوپٹے میں مضمر ہو۔ مرد تو وہ ہے جو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی عورت کی زبان گدی سے کھینچ ڈالے۔ مرد تو وہ یے جو اپنی شادی اپنی مرضی سے کرنے کا حق حاصل کرنے والی عورت کو جینے کے حق سے محروم کر دے۔ مرد تو وہ ہے جو سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والی ہر عورت کو اپنی غلاظت کا نشانہ بنائے۔
ابھی ایک ٹرین ڈرائیور کا انٹرویو پڑھا جس میں اس نے بتایا کہ اس کے کام کے اوقات کچھ اوپر نیچے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا شوہر بچوں کو سنبھالتا ہے۔ تف ہے ایسے مرد پر اور تف ہے ایسی مردانگی پر۔ ہے نا؟
خدا بھلا کرے سوشل میڈیا کا جس نے ہمارا اپنی اقدار سے ناتہ نہیں توڑا۔ ملک سے دور رہنے کے باوجود ہمیشہ ہمیں پاک سرزمین سے جوڑے رکھا۔ یہاں خود کو مضبوط سمجھنے کی ناپاک سوچ جب بھی ذہن میں آئی تو فورا حقیقت کا آئینہ دکھایا کہ بی بی تمہارا تعلق تو اس عظیم تہذیب سے ہے جہاں آج بھی مردانگی قائم ہے۔ جہاں آج بھی عورت حقیر ہے۔ جہاں آج بھی عورت کو اپنی آواز اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔ جہاں آج بھی ایک تاریخی مسجد میں خوشی خوشی پھرنے والی لڑکیاں معاشرے کا بازار ہیں۔ جہاں آج بھی عورت کا اپنی سواری اپنی مرضی سے چلانا پاپ ہے۔ جہاں آج بھی بازار میں چلتی پھرتی حوا کی بیٹی کے جسم کو انجان ہاتھ مسل جاتے ہیں۔ جہاں آج بھی طلاق لینا عورت کے کردار پر دھبہ ہے۔ جہاں آج بھی عورت کا اپنی مرضی سے اچھا کھانا نسوانیت پر ضرب ہے۔ جہاں آج بھی مرد عورت کے فیصلوں کا مختار ہے۔
فورا خود کو سنبھالتے ہیں کہ کہیں مغربی تہذیب میں بہہ نہ جائیں۔ خود کو انسان نہ سمجھنے لگیں۔ عورت کی آزادی کو نارمل سمجھنے والے ان نامردوں کو مرد نہ سمجھنے لگیں۔ خود کو اپنے جسم اور اپنی منشا کا مالک نہ سمجھنے لگیں۔ اپنی آزادی سے کسی کی مردانگی کو چیلنج نہ کرنے لگیں۔ خود کو اس کنفیوژن سے باہر نکالتے ہیں کہ حقیقی مردانگی کیا ہے۔
یہ خیال آتے ہی کر برابری کے ہر خیال کو جھٹکتے ہیں اور خدا کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہمیں شعور بخشا اور اس کافر سوسائٹی کی اقدار اپنانے بچا لیا۔
تھینک یو سوشل میڈیا۔ بس آج کا کالم اتنا ہی تھا۔ میں ذرا توے پر پھلکا ڈال کر آئی۔ ان کو گرم روٹی پسند ہے نا۔