شمالی
انڈیا میں اب کچھ عورتیں کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے اپنے شرابی شوہروں کے ساتھ گزارا
نہیں کرسکتی ہیں۔
عورتوں
کے دباؤ کی وجہ سے شراب پر پابندی عائد کردی گئی تھی جس سے ریاست بہار کے کم از کم
دس کروڑ افراد متاثر ہوئے۔
ریاستی
حکومت کا کہنا ہے کہ اس پابندی کے بعد گھریلو تشدد، عام نوعیت کے جرائم، آمدن کے
ضائع جیسے واقعات میں کمی آئی۔ یہ معاشرہ اس قسم کے جرائم سے بھرا پڑا ہے۔
عورتوں
کے مسائل سے جڑی تحریکیں سوا ارب آبادی والے ملک انڈیا کے آئندہ آنے والے انتخابات
میں پہلے سے بھی بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔
سیاستدان
کی جانب سے بچیوں کے لیے مفت تعلیم کی سہولت، نو بیاہتا جوڑوں کے لیے مالی امداد،
اور عورتوں کے لیے خصوصی پولیس سٹیشن کے اعلانات کو حالیہ علاقائی انتخابات میں
کافی اہمیت ملی ہے۔
اور
وجہ کیا ہے؟ انڈیا کے قدامت پسند معاشرے میں عورتوں کے ووٹوں کی طاقت میں اضافہ ہو
رہا ہے۔
خواتین ووٹرز
جنسی
بنیاد پر مساواویانہ حقوق کے پیمانے پر جس انڈیا کو نچلی ترین سطح سے تیسرے نمبر
کا ملک قرار دیا ہو اُس انڈیا کو مرد اور عورتوں میں برابری لانے کے لیے کافی تگ و
دو کرنا پڑ رہی ہے۔
اور
اس کی کئی وجوہات ہیں۔
جنسی
بنیاد پر ووٹروں کے اندراج میں عورتوں کے کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں رواتی
طور پر اپنے ووٹ کو درج ہی نہیں کراتی ہیں۔
اور
اگر بالفرض اندراج بھی کرالیں تو پھر اس بات پر بھنویں تن جاتی ہیں کہ یہ اب گھر
سے باہر ووٹ ڈالنے جائے گی۔ اور پھر عورتوں کو پولنگ سٹیشن پر ہراساں کیے جانے اور
دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کئی
دہائیوں تک تو رجسٹرڈ خواتین ووٹرز مردوں کے مقابلے میں چھ فیصد سے دس فیصد کم ووٹ
ڈالنے آتی تھی۔ یہ اعداد و شمارعورتوں کے معاشرے میں بحثیت صنف کم اہمیت کا اظہار
کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ انھوں اپنی زندگی بہتر کرنے کے کم مواقع ملے۔
ایک
تو پہلے ہی معاشرے میں عورتوں کم ہیں، جنسی فرق کی بنیاد پر حمل کا گروانا، پیٹ
میں بچی کی ہلاکت، اور لڑکے کو لڑکی پر ترجیح دینے کا رویہ، ان سب باتوں کا نتیجہ
یہ نکلا ہے اب آبادی میں 1000 لڑکوں کے لیے اب 943 لڑکیاں ہیں۔
ان
تمام عوامل کے باوجود، مرد اور عورتوں کی تعداد میں ووٹوں کی تعداد کے میں بہت کم
فرق رہ گیا ہے۔
سنہ
دو ہزار چودہ کے انتخابات میں یہ فرق ایک اعشاریہ آٹھ تھا جبکہ سن دوہزار چار کے
انتخابات میں یہ فرق آٹھ اعشاریہ چار تھا۔
سنہ
دو ہزار بارہ سے لے کر سنہ دو ہزار اٹھارہ کے دوران تیس ریاستوں میں ہونے والے
انتخابات میں عورتوں کے ووٹوں کی تعداد مردوں سے زیادہ دیکھی گئی۔
شراب پر پابندی
شمالی
ریاست بہار اس ملک کی سب سے زیادہ ایسا پس ماندہ علاقہ ہے جہاں عورتیں مردوں کی
نسبت زیادہ ووٹ ڈالنے نکلیں۔
سماج
مخالف رویوں اور جرائم سمیت آمدن کو ضائع کرنے والی شراب نوشی کی لت نے نے اس خطے
کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
سنہ
دو ہزار پندرہ کے ریاستی انتخابات میں عورتوں کے ووٹ ڈالنے کی تعداد مردوں کے
مقابلے میں سات فیصد زیادہ تھی۔ اور ان کا ایک واضح پیغام تھا: شراب نوشی ختم کرو۔
اپنے
دوبارہ انتخابات میں کامیابی کے لیے، بہار کے نتیش کمار نے وزیر اعلیٰ نے بنتے ہی
فوراً وہی کیا جس کا اس نے وعدہ کیا تھا۔
اس
نے ریاست بھر میں شراب نوشی اور اس کے کاروبار پر مکمل پابندی عائد کردی۔
ایک
دو برسوں کے بعد ہی ریاستی حکومت نے اعلان کیا کہ جرائم کی تعداد میں بہت کمی ہوئی
اور لوگوں کے پاس گاڑیوں اور ٹریکٹروں کی خرید کے لیے فاضل رقم آئی۔
سوشل
میڈیا کی فعال رُکن مِدھ پٹکر کافی عرصے سے دوسری ریاستوں کی حکومتوں سے مطالبہ کر
رہی ہیں کہ وہ بھی شراب پر پابندی عائد کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عورتوں پر تشدد کی
سب سے بڑی وجہ شراب ہے۔‘
تاہم
ایک اور تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شراب کی پابندی کے قانون کے
نفاذ کے لیے پولیس کی زیادہ نفری کی ضرورت ہو تی ہے جس کا مطلب ہے کہ سنگین جرائم
کےلیے پولیس کی تعداد کم پڑ گئی ہے۔
اب عورتوں کی زیادہ ووٹ کیوں ڈال رہی ہیں؟
انڈیا
کے طول و عرض میں اب عورتوں میں زیادہ ووٹ ڈالنے کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے۔
بچیوں
کی تعلیمی معیار اور خواندگی میں اضافے کی وجہ سے یقیناً زیادہ تعداد میں عورتوں
نے ووٹ ڈالنا شروع کیے ہیں۔
لیکن
خواندگی کی شرع میں اضافے کی نمو بہت کم رہی ہے جبکہ خواتین ووٹروں کی تعداد میں
صرف ایک دہائی ہی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
افراد
کی اپنی کاوشوں اور حکومتی پالیسیوں کے مختلف عوامل کے تناسب نے شاید خاتون ووٹروں
کی تعداد میں اضافہ کیا ہو۔
عورتوں
کے خلاف تشدد کے مشہور و معروف ہونے والے واقعات نے خاتون ووٹروں کو زیادہ سے
زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کی طرف مائل کیا ہے۔
ملک
بھر میں گذشتہ برس کے اوائل میں اُتر پردیش، جموں و کشمیر اور دیگر ریاستوں میں
ہونے والے ریپ کے واقعات پر مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ جب کہ اگلے نصف برس می ٹو کی
تحریک میڈیا پر چھائی رہی۔
انڈیا
کا الیکشن کمیشن پولنگ سٹیشنوں پر آنے والی عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے ہراسیمگی
اور تشدد کے واقعات کی روک تھام کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔
الیکشن
کمیشن نے نو لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر سکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا ہے، اس
کا مطلب ہے کہ اب عورتیں قدرے زیادہ محفوظ ماحول میں ووٹ ڈال سکیں گیں۔
الیکشن
کے حکام نے عورتوں کے لیے علیحدہ قطاریں بنانے کے علاوہ صرف عورتوں کے لیے خواتین
عملے پر مشتمل پولنگ سٹیشن بنانے کے بھی تجربات کیے ہیں۔
سنگِ میل بننے والےانتخابات
سنہ
2019 میں انڈیا کے روایتی انتخابات میں شاید پہلی مرتبہ عورتیں مردوں کی نسبت
زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں۔
اس
رجحان کے کئی قسم کے اثرات پیدا ہوں گے اور ان کا نہ صرف سیاستدانوں پر اثر ہوگا
بلکہ اس ہر بھی کہ گورننس کے انداز میں کس قسم کی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔
سنہ
دو ہزار چودہ کے انتخابات میں اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی نے خاتون ووٹرز
کو متاثر کرنے کی حکمت عملی کو کبھی بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی ہے۔
مثال
کے طور پر انھوں نے انڈیا کے لاکھوں گھروں میں کُکنگ گیس سلنڈرز پہنچانے کی سکیم
کا آعاز کیا۔ ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ ان کی اس سکیم سے عورتوں کو مضرِ صحت
دُھویں کھانا نہیں بنانا پڑے گا اور نہ ہی انھیں اِدھر اُدھر ایندھن کی تلاش میں
مارے مارے پھرنا پڑے گا۔
ایک
اور سکیم بھی شروع کی گئی جس کا مقصد ہر گھر کے لیے کم از کم ایک بینک اکاؤنٹ کا
ہونا۔ ان میں کم از کم نصف اکاؤنٹ عورتوں کے نام پر کھولے گئے ہیں۔ تاریخی طور پر
عورتوں کے اکاؤنٹ بہت ہی کم ہوتے تھے۔
مستقبل کا منظر
انڈیا
میں عورت راج کی جانب سفر سست رہا ہے اور اس میں کئی رکاوٹیں بھی حائل رہی ہیں۔
زیادہ
تعداد میں عورتوں کے کام پر آنے والے ملکوں کی آبادی کے لحاظ سے، انڈیا کا ایک سو
اکتیس ملکوں میں سے ایک سو ایکسواں نمبر آتا ہے۔
سیاست
میں پارلیمانی انتخابات میں خواتین امیدواروں کی تعداد صرف آٹھ فیصد ہے۔ جبکہ
منتخب ہونے والے ارکان میں ساڑھے گیارہ فیصد عورتیں ہوتی ہیں۔
شاید
اس کا کوئی فائدہ ہو۔ عورتوں کی بھرپور شرکت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھ
رہا ہے کہ وہ وومنز ریزیرویشن بل منظور کریں جس کے ذریعے عورتوں کے لیے ایک تہائی
نشستیں محفوظ ہوجائیں گی۔
اس
طرح کا کوٹہ نچلی سطح پر پہلے ہی سے موجود ہے جس کی وجہ سے عورتوں کے لیے اونچے
عہدوں پر پہنچنے کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
جو
جو عورتیں اپنے معاملات کیو خود ذمہ داری سنبھالتی جائیں گی، توں توں انڈیا کی
سیاسی اسٹیبلشمنٹ اپنی آبادی کی جنسی طور پر صحیح نمائیندگی کرتی نظر آئے گی۔
عورتوں
کو منتخب کرنے سے شاید ملک کو غیر متوقع فائدے حاصل ہوں: تازہ تحقیق کے مطابق،
زیادہ عورتوں کے سیاست میں آنے سے ترقی کی کی شرح نمو میں اضافہ اور کرپشن میں کمی
واقع ہوئی ہے۔
اب
جبکہ کہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جنسی طور پر برابری کی سطح کی نمائندگی
ایک دُور کا خواب ہے، عورت کا بیلٹ باکس پر اثر و نفوذ اور اقتدار کے ایوانوں میں
گونج بڑھ رہی ہے۔