تحریم عظیم
خوف و خطر سے پاک ماحول سب کو
میسر ہونا چاہیے
#AbAurNahin (اب اور نہیں)۔ ٹوئٹر
پر ایک نئی مہم کا آغاز ہوا ہے اور جیساکہ نام سے ظاہر ہے اس کا مقصد معاشرے میں
خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سدباب کرنا یا ان کے بارے میں معاشرے میں
آگہی پیدا کرنا ہے۔
اسی مسئلہ پر بحث میں
بہت سے خواتین اور کچھ مرد حضرات بھی اپنے خیالات، تجربات، مشاہدات اور سوچ کا
اظہار کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل رائٹس گروپ
خواتین کے مسائل اور حقوق کی وکالت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے جس نے اس مہم کو
شروع کیا ہے اور اس سلسلے میں مسلسل کئی ٹوئٹس کی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ 'ہراساں
کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں اور اس کو مختلف گروہ مختلف زاویہ نگاہ سے
دیکھتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ
ہر روز مختلف جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں جس سے کوئی نہ کوئی
کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے جس میں اس کی صحت اور خوش و خرم زندگی بھی شامل
ہے۔
بہت سی سماجی حقوق کے
لیے کام کرنے والی خواتین اس مہم کی زور شور سے حمایت کررہی ہیں۔
If you've been sexually harassed, remind yourself it's not your fault, rely on your support system if possible, seek counselling for your mental health, and explore the possibility of taking legal action. #AbAurNahin #MeToo #MeinBhi— Sana Farrukh Shaikh (@sfarrukhsh) January 4, 2019
ایک ٹوئٹر صارف سیرت
خان لکھتی ہیں کہ محفوظ اور غیر متعصبانہ ماحول خواتین کی ترقی اور آگے بڑھنے کے
لیے 'آن لائن اور آف لائن سپیس' دونوں میں بہت ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایک
حساس ماحول اور جس کا آغاز گھر کے اندر سے ہونا چاہیے انتہائی اہم ہے۔ قانون کا
اطلاق ہونا چاہیے اس جانب پہلا قدم خواتین کے خلاف جرائم سے اٹھایا جانا چاہیے۔
ایک اور صارف سدرا کے
خیال میں معاشرے میں بہت سے لوگ تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہی نہیں۔
اس سوال پر کہ آخر
ہراساں کیا جانا ہوتا کیا ہے ؟ سیرت نے جواب دیا کہ ان کے خیال میں ہر وہ عمل جس
سے وہ کوفت کا شکار ہوں، بے چینی یا پریشانی محسوس کریں اور جس پر انھیں انکار
کرنا پڑے اور کوئی دوسرا وہی کچھ کرنے پر اصرار کرتا رہے میرے خیال میں ہراساں کیے
جانے کے زمرے میں آتا ہے۔
ڈجیٹل رائٹس گروپ کی
طرف سے پوچھے گئِے ایک اور سوال پر ثنا فرخ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر آپ سے کوئی کہے
کہ اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے اس پر شک نہ کریں، اس کی بات سنیں اور اس کی
مدد کرنے پر آمادہ رہیں اگر وہ اپنا دکھ بانٹنا چاہیں اور ان کے نجی معاملات کا
احترام کریں۔
ایک اور صارف ثنا نے
لکھا ہے کہ ہراساں صرف جنس کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ کوئی لڑکی بھی کسی لڑکی کو
ہراساں کر سکتی ہے اور کوئی لڑکا بھی کسی لڑکے کے ہاتھوں ہراساں ہو سکتا ہے۔ کبھی
کبھار لوگ کسی دوسرے کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں اس پر الزام لگا کر یا اسے ہراساں
کر کے۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔
Unfortunately there are no barriers, sexual harassment can happen in public and private. Thus workplaces, schools, homes, medical facilities, shopping centres etc and even the commute between these locations can all become sites of sexual harassment. #AbAurNahin #MeToo #MeinBhi— Sana Farrukh Shaikh (@sfarrukhsh) January 4, 2019
تحریم عظیم اپنے ذہن
میں اٹھنے والے سوالات کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتی ہیں سوال یہ ہے کہ کیا مردوں کو
اس بات کا احساس ہوتا کہ ان کا کونسا فعل اور کونسا عمل کسی دوسرے کو ہراساں کر
سکتا ہے۔ اور کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہراساں کرنے والوں کو روکنے کو اپنا فرض سمجھتے
ہیں۔