تصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY
یہ
قانون اتوار سے نافذ کیا جا رہا ہے اور اس کے تحت عدالتیں خواتین کو ان کی طلاق سے
متعلق فیصلے کے بارے میں انھیں موبائل پر پیغام بھیج کر آگاہ کریں گی۔
مقامی
خاتون وکلا کے مطابق اس اقدام سے خفیہ طلاقوں کا خاتمہ ہوگا۔ اس سے قبل مرد اپنی
بیویوں کو آگاہ کیے بغیر ہی شادی ختم کر دیتے تھے۔
اس
قانون کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ خواتین اپنی ازدواجی رشتے سے
مکمل آگاہ ہوں گی اور اپنے نان نفقہ کے حقوق کا مکمل تحفظ کر سکیں گی۔
گذشتہ
سال سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پر عائد دہائیوں پرانی پابندی کا بھی
خاتمہ کر دیا گیا۔
تاہم
خواتین اب بھی سعودی عرب میں مردوں کی زیرسرپرستی کے قانون کی پابند ہیں۔
سعودی
وکیل نصرین ال غامدی نے بلومبرگ کو بتایا: ’اس نئے اقدام کی مدد سے طلاق کے بعد
خواتین کے نان نفقہ کے حق کو محفوظ بنایا جائے گا۔ اس کے ذریعے اس بات کو بھی
یقینی بنایا جائے گا کہ طلاق سے قبل جاری کیے جانے والے کسی بھی پاوور آف اٹارنی
کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔‘
مقامی
اخبار اوکاز سے بات کرتے ہوئے وکیل سمیہ ال ہندی نے کہا کہ ’کئی خواتین پہلے ہی
عدالتوں میں بنا آگاہ کیے طلاق کے حوالے سے درخواست جمع کروا چکی ہیں۔‘
یہ
نیا اقدام سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے کی جانے والی معاشی اور سماجی
اصلاحات کا حصہ ہیں، جن کے تحت پہلے ہی خواتین کو فٹبال میچ دیکھنے اور ان جگہوں
پر ملازت کی اجازت دینا ہے جو عام طور پر مردوں کے لیے مختص سمجھی جاتی رہی ہیں۔
اب
بھی سعودی خواتین کیا نہیں کر سکتیں؟
اب
بھی کئی ایسی چیزیں ہیں جو سعودی خواتین اپنے مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر نہیں کر
سکتی ہیں۔
ان
میں سے چند چیزیں یہ ہیں:
§
پاسپورٹ
بنوانا
§
ملک
سے باہر سفر
§
شادی
§
بینک
اکاؤنٹ کھلوانا
§
مخصوص
کاروبار کا شروع کرنا
§
پہلے
سے طے شدہ سرجری (الیکٹیو سرجری)
§
جیل
سے آزادی