سعادت حسن منٹو، پاکستانی سیاست اور معاشرہ

 
سعادت حسن منٹو کے موت کے پچاس برس بعد تک اس کی افسانوں کی اشاعت پر باقاعدہ پابندی تو نہیں تھی تاہم اس کی ادبی حیثیت کے بارے میں ریاست اور معاشرے میں واضح مخاصمت موجود تھی۔ اس کوتاہ نظری کے باعث دو نسلیں ادب کے اس بہترین سرمائے سے محروم رہی۔ منٹو کی تحریریں آج بھی زندہ اور موجودہ حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔ بعض واقعات کے رونما ہونے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ منٹو کی تحریروں میں پوشیدہ آگہی اور حکمت ان کا ادراک اور احاطہ بہت قبل کر چکی تھی۔ اس کالم میں منٹو کے چند افسانوں کا ذکر غیر رسمی طور پر موجودہ حالات کے تناظر میں کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد صرف منٹو کی 64ویں برسی پر اس کی یادیں تازہ کرنا ہے۔ ان افسانوں میں نیا قانون، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، غسل خانہ، کالی شلوار اور بابو گوپی ناتھ شامل ہیں۔
 نیا قانون’ افسانے سے ملتی جلتی صورتحال پاکستان میں اوسطا ًہر دس سال بعد موجود ہوتی ہے جس کا آغاز عزیز ہموطنو والی تقریر سے کیا جاتا ہے۔ نیا پاکستان کی موجودہ کیفیت بھی اسی افسانے سے ملی جلتی ایک کڑی ہے۔ تبدیلی کے پانچ ماہ گزرنے کے باوجود لوگ ان ہواؤں کے منتظر ہیں جس پر وہ چین اور سکون کا جھولا جھول سکیں۔ اس کے برعکس مہنگائی کے اضافے نے منگو کو اپنے شکنجے میں پوری طرح کس لیا ہے اور کہہ رہی کہ ” نیا پاکستان نیا پاکستان کیا بک رہے ہو ، پاکستان وہی پرانا ہے”۔
نیا قانون
ٹوبہ ٹیک سنگھ’ کے پاگل خانے والی کیفیت سے ہم پھر دوچار ہیں۔ اس افسانے میں جو بحث پاگل خانے میں جاری ہوتی ہے ، اسی طرح کی بحث میں پاکستانی مبتلا ہیں۔ جیسے ایک پاگل دوسرے سے پوچھتا دکھائی دیتا ہے کہ ‘نیا پاکستان’ کہاں ہے ۔ تو جواب ملتا ہے کہ عثمان بزدار کے وزیرِ اعلیٰ بننے سے ‘نیا پاکستان ‘ بن چکا ہے۔ مہنگائی سے تنگ ایک پاگل درخت پر چڑھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے نہ تو پرانے پاکستان میں رہنا ہے نہ نئے پاکستان میں۔ میں اب اس درخت پر رہوں گا۔ کچھ پاگلوں کا مسئلہ نیا پاکستان یا پرانا پاکستان نہیں ہے ، ان کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ ان کے مفادات محفو ظ رہیں گے یا نہیں۔
 منٹو کا ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ’ بیچ بارڈر ایک ہی ٹانگ پر کھڑا دکھائی دیتا ہے ۔ کرتار پور بارڈر کی سیاست میں سکھ ، انڈیاپاکستان سیاست میں پستے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انڈین میڈیا جس طرح سے نوجوت سدِھو کے ساتھ جادو کی جپھی ڈالنے پر آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور جیسے ہمارے وزیرِ خارجہ کپتان کی گگلی بال پر سردھنتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کرتارپور راہداری سکھوں کے لئے گرونانک کی 550 ویں برسی پر کسی انمول تحفے سے کم نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان سے وابستہ انڈین پنجاب کے معاشی مفادات انڈیا پاکستان سیاست کے محتاج رہیں گے۔
ہتک ‘کی سوگندھی اور قندیل بلوچ کی کہانیاں ایک جیسی مگر انجام مختلف تھا۔ سوگندھی اپنی ہتک پر چیختی ہے ، غصہ نکالتی ہے اور خارش زدہ کتے کو اپنے ساتھ سلا لیتی ہے ، لیکن قندیل بلوچ کی آواز کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح معاشرے کے عزت اور انصاف کے پیمانے طبقاتی ہیں اور رہیں گے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ انتہاپسندی اور عدم برداشت میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہاہے۔
ازراہِ تفنن اگر نواز شریف نے منٹو کا افسانہ ‘غسل خانہ’ پڑھا ہوتا تو وہ سیدھے غسل خانے میں جاتے اور دعا مانگ کر آصف زرداری اور چوہدری نثار کی شرارتوں کے نتائج سے محفوظ رہ سکتے تھے۔اسی طرح عمران خان 22 سالہ سیاسی جدوجہد اور بصیرت جس میں مدینے کی ریاست کے اصول ، قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے افکار ، کرکٹ میں سیکھی گئی حکمتِ عملیاں ، مہاتیر محمد کی پالیسیاںاور پاک پتن کی برکات شامل ہیں کے باوجود ابھی تک حکومتی معاملات بالخصوص معاشی مسائل پر گرفت نہیں پاسکے۔ ایک ٹوٹکا غسل خانے میں دعا مانگنے کا بھی آزما لیں تو کیا حرج ہے۔
ہتک کی سوگندھی
 گزشتہ سال جب سینٹ کے چئیرمین اور وائس چئیر مین کے الیکشنز میں صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق پی پی پی اور پی ٹی آئی نے انتخابی اتحاد کیا تو خیال آیا کہ اگر ان لوگوں نے افسانہ ‘کالی شلوار’ پڑھا ہوتا تو انہیں ایک دوسرے کی ضرورت سمجھنے کے لئے کسی شنکر کی ضرورت نہ پڑتی۔
 چچا سام کے نام لکھے گئے خطوط پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان خطوط کے مندرجات پر گمان ہوتا ہے کہ یہ واقعات کے بعد لکھے گئے۔ لیکن موجودہ عالمی منظر نامے پر امریکہ کا افغانستان سے انخلاء کا معاملہ بالکل ‘بابو گوپی ناتھ ‘ جیسا دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ بابو گوپی ناتھ کی طرح زینت (افغانستان حکومت) کا ہاتھ کسی مضبوط ہاتھ میں تھما نا چاہتا ہے تا کہ بے فکرہو کر وہاں سے رخصت ہو سکے۔
 
زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے” – سعادت حسن منٹو