ظریف بلوچ
اسے کیا معلوم تھا کہ وہ ایک ایسے سماج میں پیدا ہوئی ہے، جہاں عورت کو گھر کی قیدی بناکر ہوس اوربچہ پیدا کرنے کے لئے معاشرتی زنجیروں میں ایسے جکڑا جاتا ہے۔ جہاں وہ اپنے اوپر ہونے والی جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد پر بولتے ہوئے بھی ڈر جاتی ہے۔ اسے شاید یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس پسماندہ ذہنیت کے حامل معاشرے میں عورتوں کے حقوق کا تعین وہ ظالم مرد کرتے ہیں جو عورتوں کو ہراساں کرکے اپنی مردانگی پر فخر محسوس کرتے آرہے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو تعلیم اور گھر بسانے کا اختیار تک نہ ہو۔ پھر بھی وہ آج چیخ کر کہہ رہی تھی، کہ اس ظالم سماج میں روز حوا کی بیٹیاں ہراسمنٹ کا شکار ہونے کے باوجود اس لئے خاموش رہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سماج میں عورتوں سے بولنے کا حق بھی چھینا جاچکا ہے۔
اسکے اندر کی عورت جاگ اٹھی تھی۔” وہ جذباتی انداز میں سماج کے بے حس اور حیوان نما لوگوں کی ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی کہ ہوا کی بیٹیوں کو بھی جینے کا حق ہے”۔
ایک عورت ہی بہتر جانتی ہے کہ معاشرے میں عورتوں پر روز کیا گزرتی ہے، کیونکہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسان نما درندے روز عورتوں کو ہراساں کررہے ہوتے ہیں۔ جہاں عورت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ جہاں ورکنگ وومن کے لئے کام کرنا بھی اتنا آسان نہیں۔ جہاں تعلیمی اداروں اور دفاتر میں کسی کی عزت محفوظ نہ ہو، جہاں واش رومز میں خفیہ کمرے نصب ہوں۔ جہاں عورت روز اپنے دائرہِ کار میں رہتے ہوئے ہراسمنٹ کے خوف سے اسی امید کے ساتھ بوجھل قدموں سے گھر سے نکلتی ہے کہ شام گھر واپسی تک وہ انجانے اور جانی پہچانی لوگوں کی ہراسمنٹ کا شکار نہ ہوجائے۔ پھر بھی ایسے معاشرے میں جب عورتوں کو مردوں سے آگے نکلتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سماجی اور معاشرتی زنجیروں سے جکڑنے کے باوجود وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا رول ادا کررہے ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف عزت کے ساتھ کمارہے ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو عزت کے ساتھ کمانے کے گر سکھا رہے ہوتے ہیں۔ پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ جن کے حوصلے بلند ہوں اسے ہرانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔ یہ سماجی اور معاشرتی زنجیریں بھی ان کی راہ میں رکاوٹ بننے سے پہلے خود ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔