پچھلے دو دنوں سے موٹروے پر ٹویوٹا فارچونر کے حوالے سے معاملات کو پڑھ رہا ہوں۔ گھومتے پھرتے وٹس ایپ پر وہ ویڈیو مجھ تک بھی آن پہنچی۔ تجسس تھا تو دیکھ لی۔ اس میں اک بہت ہی مبہم سا اشارہ ہے کہ جس واقعہ کی طرف انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، وہ ہو رہا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ، جنس کے ساتھ جڑے اس واقعہ کے نہ ہونے کی بھی اتنی ہی مضبوط دلیل ہے۔
احباب نے ٹویٹر اور فیس بک پر ٹھٹھا بنایا ہوا ہے اور مائرہ نامی اک خاتون نے اسے ٹویٹ اور وہ ٹویٹ وائرل ہو گئی۔ اس گاڑی کا چونکہ نمبر دیکھا جا سکتا ہے تو اہلِ ایمان نے شاید سرگودھا کے آس پاس کسی تھانے میں موٹروے کی حدود کے مطابق مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی دے دی ہے۔
اس سارے قضیے میں دو باتیں بہت اہم ہیں کہ:
1۔ ہم لوگ بحیثیت قوم سنسنی اور بالخصوص جنسیات پر مبنی سنسنی کے شیدائی، متلاشی اور پھر پرچارک ہیں۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر اس واقعہ کا تذکرہ رہا اور یہ جناب مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ کے مقابلے کی خبر بن کر چلتی رہی، جبکہ اس تمام ویڈیو میں جنسی اختلاط کے حوالے سے کوئی بھی واضح اشارہ موجود نہیں۔ ویڈیو ہے اور اس ویڈیو کو بنانے والے کی عجب منطق پر بنیاد کرتی اک دیدہ دلیری ہے جس کو یار لوگوں نے واہ واہ کے شور میں گویا مزید شہ بخشی ہے۔
2۔ چونکہ یہ وطن اور معاشرہ تمام کا تمام فرشتوں، نیک، پاک اور شدید باکردار لوگوں پر مشتمل ہے تو لہذا، بالخصوص جنس کے حوالے سے سیلف پولیسنگ گویا اک مذہبی فریضہ تو ہے ہی، ذاتی مشغلہ بھی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اتنے پاکباز معاشرے میں تقریبا تمام کے تمام ہی اتنے معصوم اور گناہوں سے پاک ہیں کہ سارے ہی پہلا پتھر مارنے کے لیے کوالیفائی کرتے ہیں۔ تو اکثریتی حصہ بقدرِجثہ والا ہی منظر ملتا ہے: یہ ویڈیو ہو، یا کوئی اور معاملہ۔
ذات کے حوالے سے، میری اس ویڈیو پر کوئی پوزیشن نہیں۔ اس ویڈیو پر جو قیاس آرائی ہے، وہ درست بھی ہو سکتی ہے، اور درست نہیں بھی ہو سکتی۔ دونوں معاملات میں، کیا میں خود کو پہلا پتھر مارنے کے لیے کوالیفائی سمجھتا ہوں: ہرگز نہیں۔
آپ ہیں؟ اور اگر ہیں تو بسم اللہ، پتھر نہیں، چٹانیں مارئیے۔ اور اگر نہیں ہیں تو اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ نجانے کیا کیا لیے اور چھپائے پھر رہے ہوں گے۔ اور اگر کچھ چھپائے پھر رہے ہوں گے، تو جناب خود کو پیش کیجیے۔ اک پتھر مجھے بھی مارنا ہے۔ اور اگر آپ کو اس پتھر سے خوف آتا ہے، یا اس کی ضرب سے بچنا چاہتے ہیں، تو صاحبو، یہی فائدہ دوسروں کو بھی دینا سیکھیے۔