نیروبی ایوی ایشن کالج کی انیس سالہ طالبہ اِیوا اپنے چھوٹے سے کمرے میں غربت، بھوک اور مایوسی کے ہاتھوں بے بس بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اچانک اپنے بٹوے سے آخری سو شلنگ نکالے اور بس پکڑ کر سٹی سنٹر جا پہنچیں، جہاں انہوں نے پیسوں کے عوض سیکس کا مطالبہ کرنے والے پہلے شخص کو ہاں کر دی۔ اس کے ساتھ ایک تاریک گلی میں دس منٹ گزارنے کے بعد وہ ایک ہزار شلنگ لے کر گھر چلی گئیں، جو ان کے ایک مہینے کے کھانے پینے کے خرچے کے لیے کافی تھا۔
شِیرو کی چھ برس قبل یونیورسٹی میں اپنے سے عمر میں چالیس سال بڑے ایک شادی شدہ شخص سے ملاقات ہوئی۔ شروع شروع میں اسے صرف روزمرہ کی ضروریات کے لیے خرچہ ملتا تھا۔ پھر سیلون آنے جانے کا بھی بندوبست ہو گیا۔ تعلقات قائم ہونے کے دو سال بعد اس شخص نے شِیرو کو ایک اپارٹمنٹ لے دیا کیونکہ وہ اس کی زندگی میں آرام چاہتا تھا۔ دو سال مزید گزرے تو اس نے اپنی مخلصی کے ثبوت کے طور پر شِیرو کو ایک پلاٹ خرید دیا۔ اس سب کے بدلے میں وہ جب چاہیں شِیرو کے ساتھ سیکس کر سکتے ہیں۔
اِیوا کی کہانی مجبوری کی ایک قبیحہ کہانی ہے جو صرف ایک بار کی کمزوری کے گرد گھومتی ہے۔ شِیرو کی کہانی کے کئی پہلو ہیں جس میں دیر پا مالی فائدے کے لیے حسن اور جوانی کا سودہ کیا گیا ہے۔ دوسری کہانی کی تحریک بھوک یا افلاس نہیں بلکہ خواہشات ہیں، ایسی خواہشات جن کی سوشل میڈیا کے ستاروں کی طرز زندگی سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
بڑی عمر کے لوگ ہمیشہ سے ہر معاشرے میں اپنی دولت، رتبہ اور اثر و رسوخ کا استعمال کر کے کم عمر لڑکیوں تک رسائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ‘شوگر ڈیڈی’ کی تاریح بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی طوائف کی۔ تو پھر اب افریقہ میں سیکس کے ان تعلقات پر بحث کیوں؟ اس کی وجہ کینیا اور دیگر افرقی ممالک میں اس طرح کے تعلقات کا عام ہو جانا اور پہلے کے مقابلے میں کھلم کھلا اظہار ہے۔
کسی طرح معاشرہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ نوجوانوں کی زندگی میں ‘سپانسر’ یا ‘مہربان’ کے ہونے کو تسلیم کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک گلیمر بھری زندگی کا راستہ ہے۔
اب سے پہلے اس بارے میں اعداد و شمار نہیں تھے کہ کتنی لڑکیاں ‘شوگر ڈیڈی’ والی زندگی گزار رہی ہیں۔ لیکن اس سال ایک تحقیقی ادارے نے بی بی سی افریقہ کے لیے رسرچ کی جس میں دو سو باون لڑکیوں نے حصہ لیا اور اس سے معلوم ہوا کہ اٹھارہ سے چوبیس سال کی یونیورسٹی جانے والی لڑکیوں میں سے بیس فیصد کی زندگی میں ‘سپانسر’ رہا ہے۔ سروے سیمپل بہت چھوٹا تھا اس لیے ان نتائج کو ایک اندازے کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اصل تعداد شاید اس سے کچھ زیادہ ہو۔
مذہبی گھرانے میں پرورش اور پھر ’شوگر ڈیڈی‘
بیس سالہ جین کہتی ہیں کہ ان کے دو ‘سپانسر’ تھے اور دونوں شادی شدہ۔ انہیں اس میں کچھ غلط نظر نہیں آتا۔ جین کہتی ہیں کہ یہ نیروبی کی روز مرّہ کی مشکل زندگی گزارنےکا ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تعلق صرف پیسے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس میں دوستی اور قربت کا بھی اہم پہلو ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مرد صرف سیکس نہیں چاہتے بعض اوقات انہیں صرف بات کرنے کے لیے کوئی چاہیے ہوتا ہے۔ جین نے بتایا کہ ان کی پرورش ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی لیکن انہوں نے اپنی زندگی کے فیصلے خود کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی چھوٹی بہنوں کا سہارا بننا چاہتی ہیں تاکہ انہیں کسی مرد کے سہارے کی ضرورت نہ پڑے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ کینیا کی ان خواتین سے بھی متاثر ہوئی ہیں جو جنسی کشش کی بنا پر میڈیا پر بڑی سٹار بن گئیں اور خوب دولت کمائی۔
کینیا میں ایسی ہی ایک سٹار ویرا صدیقہ جنہوں نے میوزک وڈیو سے زندگی کا آغاز کیا اور بزنس وومن بن گئیں۔ انہوں نے سن دو ہزار چودہ میں ایک موقع پر کہا تھا کہ ‘میرا جسم میرا کاروبار ہے اور اس سے دولت بنتی ہے’۔
ایک اور مشہور ماڈل اور بزنس وومن ہدیٰ منرو کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کہا کہ ‘اگر آپ کو اپنا جسم دِکھانا ہی ہے تو اس کی قیمت ہونی چاہیے’۔ ‘سپانسر’ اور ‘شوگر ڈیڈی’ صرف خواتین کی زندگی کا پہلو نہیں۔ مردوں کے لیے ‘شوگر ممی’ بھی موجود ہیں۔ بہت سے لڑکے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں اور ان کا نشانہ امیر مقامی خواتین اور یورپ سے آنے والی بڑی عمر کی دولتمند سیاح ہوتی ہیں۔
کینیا کے اخبارات کی کبھی کبھار کی سرخیاں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعلقات خطرے سے خالی نہیں۔ ‘یونیورسٹی کا خرچہ اٹھانے والے کے ہاتھوں قتل’، ‘خوبصورت بائیس سالہ لڑکی اپنے شوگر ڈیڈی کے ہاتھوں قتل’،’سپانسر نے فیس بک پر تابوت کی تصویر لگائی اور پھر وہ لڑکی مر گئی’ ایسی سرخیوں کی چند مثالیں ہیں۔ کئی بار ‘شوگر ڈیڈی’ ہاتھ کھینچ لیں تو لڑکیاں خود کشی بھی کر لیتی ہیں اور اس کے علاوہ اس تعلق میں لڑکیاں تشدد بھی برداشت کرتی ہیں۔
’شوگر ڈیڈی` والے تعلق اور جسم فروشی میں کیا فرق؟
کینیا میں حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والے خواتین میں یہ تعلقات شدید بحث کا موضوع ہیں۔ کینیا میں ماضی کے مقابلے میں خواتین کے لیے مرضی سے سیکس کی اب آزادی زیادہ ہے اور اس میں شرم کا پہلو ختم ہو رہا ہے۔
ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ ‘شوگر ڈیڈی’ کے ساتھ تعلق قائم کرنا کسی لڑکی کا اپنا فیصلہ ہے، لیکن دوسری طرف یہ رائے بھی ہے کہ یہ تعلق آزادانہ قائم نہیں ہوتے۔ سیکس، جسم فروشی کی آزادی کو ایک امیر شمالی ممالک کا تصور قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان ممالک میں مکمل خودمختاری کے پلیٹ فارم سے ایسی باتیں ہوتی ہیں جبکہ کینیا اور افریقہ کے دیگر ممالک میں یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
حقوق نسواں کی ایک کارکن کا کہنا تھا کہ ووٹ، زمین کی ملکیت اور سکول جانے کا حق دہائیوں کی جدوجہد کے بعد ملا لیکن ‘شوگر ڈیڈی` کے ساتھ تعلقات کے حق میں بہت تضادات ہیں۔ ‘اگر ہم کہیں کہ جسم فروشی لڑکیوں کا حق ہے تو ہم انہیں دوبارہ پدرشاہی معاشرے کی طرف دکھیل رہے ہیں’۔
لیکن ایک طالبہ کہتی کہ جسم فروشی کے مقابلے میں ‘شوگر ڈیڈی’ یا ‘سپانسر’ یا ‘مہربان’ سے تعلقات میں لڑکی کی مرضی شامل ہوتی ہے اور مجبوری کا پہلو نہیں۔
کینیا کے بہت سے نوجوانوں کے لیے گھروں میں لڑکیوں کو کم عمری سے یہی کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک امیر آدمی سے شادی کرنی ہے غریب سے نہیں۔ سوچ یہی ہے کہ عورت کا سہارا مرد ہی ہے جو اس کی ضروریات کا خیال رکھے گا۔ کچھ لڑکیوں کے لیے پھر یہی تعلق شادی کے رشتے سے باہر تلاش کرنا صرف ایک چھوٹا سا قدم ہے۔
جین کا کہنا ہے کہ ‘سیکس میں غلط کیا ہے۔ لوگ اسے غلط بنا دیتے ہیں، لیکن کئی بار اس میں کچھ غلط نہیں ہوتا’۔