جدید دور میں شاپنگ مال میں لگی ہوئی برقی سیڑھیاں میرے لیے ہمیشہ پریشانی کا باعث رہی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں ان سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہی ڈر جاتا ہوں اور مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ سیڑھیاں مجھے پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل جائیں گی۔ میں ہمیشہ لفٹ استعمال کرتا ہوں اور اگر لفٹ نہ ہو تو اپنے قدموں پر زور دے کر دوسری سیڑھیوں سے اپنے منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہوں۔ پچھلے جمعہ کے دن مجھے کسی کام کے سلسلے میں ایک مال میں جانے کا اتفاق ہوا۔
جمعہ کی وجہ سے مال میں چند لوگ نظر آ رہے تھے۔ میں لفٹ میں سوار ہوا اور چوتھے فلور کا بٹن دبا دیا۔ لفٹ ابھی دوسرے فلور پر ہی تھی کہ اچانک لائٹ چلی گئی۔ لفٹ میں ایمرجنسی لائٹ خراب ہونے کی وجہ سے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ چند ہی لمحوں میں مجھے احساس ہوا کہ لفٹ میں کوئی اور شخص بھی موجود ہے۔ پہلے میں نے اسے اپنا وہم سمجھا اور پھر آہستہ سے اپنی جیب سے موبائل نکالنے لگا۔ جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ اپنی شرٹ والی جیب کی طرف بڑھایا مجھے یوں لگا کہ جیسے کسی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہے ساتھ ہی آواز آئی، ہیلو مائی ڈاکٹر ہاؤ آر یو۔
میں گھبرا گیا اور میری آواز میرے گلے میں ہی پھنس کر رہ گئی۔ خدا کا شکر ہوا کہ اسی لمحے لائٹ بھی آگئی۔ میں نے دیکھا کہ میرے سامنے ایک انتہائی خوبصورت خاتون کھڑی مسکرا رہی ہے۔ اس نے اپنائیت سے میرا ہاتھ پکڑا اور بڑی بے تکلفی سے مجھے کہا، ڈاکٹر کیا آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔ لیکن میری حالت ایسی تھی کہ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اسی لمحے میرا دم نکل جائے گا۔ میرا دماغ میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بند دروازے اور چلتی لفٹ کے اندر یوں کسی کا موجود ہونا بڑا ہی حیران کن تھا۔
اچانک اس خاتون نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب پریشان نہ ہوں ہم دونوں پہلے مل چکے ہیں۔ اتنے میں لفٹ کا دروازہ کھلا اور ہم دونوں ایک فوڈ کورٹ میں کھڑے تھے۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا میں بھی چپ چاپ اس کے ساتھ چل دیا۔ ہم کے ایف سی کی ایک میز پر جا کر بیٹھ گئے۔ کچھ لمحوں کے بعد مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی روح ہے جو مجھے ریسرچ سنٹر میں ملی تھی جس کا ذکر میں اپنے پچھلے مضمون ”خوبصورت بے رحم عورت اور روحانی سائنسدان“ میں کر چکا ہوں۔
میری پریشانی مزید بڑھنے لگی۔ میری گھبراہٹ میرے چہرے سے بالکل عیاں تھی۔ اس نے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں دبایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ڈاکٹر صاحب آپ بالکل پریشان نہ ہوں میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گی۔ آپ کو مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے آپ ایک معقول اور اچھے انسان لگے ہیں۔
میں نے فورا اس سے سوال کیا کے کہ آپ نے ان دو لوگوں کو کیوں تباہ و برباد کیا جن سے آپ مجھ سے پہلے ملی تھی۔
اس نے ایک انتہائی خوبصورت انداز میں بھرپور قہقہہ لگایا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی صرف اپنے انا کی تسکین کے لئے۔
میں نے کہا کہ آپ بہت خود غرض اور بے رحم عورت ہو۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا کچھ دیر تک یونہی دیکھتی رہی اور پھر زاروقطار رونے لگی۔ روتے روتے مجھے جواب دیا کہ اسی خود غرضی اور بے رحمی کی سزا تو میں اب تک بھگت رہی ہوں۔ ابھی تک میری روح جگہ جگہ بھٹک رہی ہے اور مجھے سکھ کا سانس نہیں آ رہا۔ میں وہ انسان ہوں جسے مرنے کے بعد بھی چین نصیب نہیں ہوا۔
میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے درخواست کی کہ آپ مجھ سے کیا چاہتی ہو اور میرے ساتھ یہ سب کیوں کر رہی ہو۔
اس خوبصورت عورت نے مجھے جواب دیا کہ آپ ایک اچھے انسان ہو۔ آپ کو کوئی طمع اور لالچ نہیں ہے مجھے لگتا ہے کہ آپ میری مدد کر سکتے ہو۔ میں آپ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتا کر اپنے ضمیر سے ایک بوجھ ہٹانا چاہتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ صدقِ دل سے میرے لیے دعا کریں گے اور ایصال ثواب بھی کریں گے تاکہ میرے روح کو سکون مل سکے۔
یہ کہہ کر اس نے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ لیے اور مجھ سے پوچھنے لگی مجھ سے وعدہ کرو ایسا کرو گے نا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور جواب میں اس کے ہاتھوں کو دبایا اور کہا ہاں انشاء اللہ ضرور کروں گا۔ یہ سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ سی آ گئی۔ اتنے میں میز پر ویٹر نے کافی کے دو کپ لا کر رکھ دیے۔ کافی کے کپ دیکھ کر وہ کہنے لگی ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں کافی مجھے ہمیشہ سے بہت پسند رہی ہے۔
جواب میں میں بھی ہلکا سا مسکرایا اور اس کو جواب دیا کہ چلو اسے آج اس دنیا کی آخری کافی سمجھ کر پی لو۔ یہ سن کر اس خوبصورت عورت نے ایک گہری سانس لی اور میری طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ہاں انشاء اللہ۔ کافی کے کپ سے ایک گھونٹ لینے کے بعد میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور بڑے اطمینان سے کہا کہ مجھے تفصیل سے اپنی کہانی سناؤ۔ اس نے بھی سامنے رکھے ہوئے کافی کے کپ سے ایک گھونٹ پیا اور شکرگزار نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی کہانی کا آغاز کیا۔
ہر خوش قسمت لڑکی کی طرح میرے والدین نے بھی میری بڑے نعم و ناز سے پرورش کی تھی۔ میں ابھی بی اے کر رہی تھی کہ میرے والدین نے میرے ایک کزن کے ساتھ میری منگنی طے کردی۔ میری آنکھوں میں ابھی بہت سارے خواب تھے۔ میں ہمیشہ سے خواب دیکھتی تھی اور اپنے آپ کو خوابوں کی ملکہ تصور کرتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد میری شادی کر دی گئی لیکن میں نے پھر بھی اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور انگریزی ادب میں ایم اے کر لیا۔ ادب کی طالب علم ہونے کی وجہ سے میں ہمیشہ اپنے آپ کو کسی ناول کی ہیروئن سمجھتی تھی۔
میری شادی کے شروع کے کچھ سال بہت اچھے گزرے۔ مجھے اپنے خاوند سے بہت پیار تھا اور وہ بھی میری بہت عزت و تکریم کرتے تھے۔ وہ کراچی میں کاروبار کرتے تھے اور ہم دونوں ایک الگ گھر میں رہتے تھے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد ان کو کاروبار میں نقصان ہونے گا اور ہم لوگ کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ آخرکار تنگ آ کر ہم دونوں صرف چند کپڑوں کے ساتھ بالکل کنگال ہو کر اپنے گاؤں واپس آگئے۔ گاؤں والے گھر میں ہم سب لوگ مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے تھے۔
میں نے جاب شروع کردی تاکہ ہم لوگ کچھ بہتر زندگی گزار سکیں اور کسی دوسرے رشتہ دار پر آخر کب تک بوجھ بن کر رہ سکتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں ترقی کرتی ہوئی ڈائریکٹر کے عہدے پر پہنچ گئی اور دوسری طرف میرا شوہر دن بدن بروزگاری کی وجہ سے نفسیاتی مریض بنتا چلا گیا۔ ہمارے آپس کے تعلقات انتہائی خراب رہنے لگے۔ ہمارے درمیان محبت اور عزت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہم صرف ایک دوسرے کو برداشت کر رہے تھے۔ ہمارے مضبوط خاندانی نظام، قریبی رشتہ داری اور معاشرتی اثر و رسوخ کی وجہ سے ایک دوسرے سے علیحدگی تقریبا ناممکن تھی۔
مجھے اب آہستہ آہستہ ایسی زندگی سے نفرت ہونے لگی تھی۔ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے میں ذہنی دباؤ کا بھی شکار تھی۔ جب میں اپنے اردگرد دوسرے خوش وخرم میاں بیوی کو دیکھتی تو مجھے بہت زیادہ احساس ہوتا کہ میں ایک ادھوری عورت ہوں اور اس چیز نے مجھے وقت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مریض بنا دیا۔ ڈاکٹر نے مجھے بائی پولر ڈس آرڈر کی نفسیاتی بیماری تشخیص کی اور میں مسلسل دوائیوں پر زندگی گزارنے لگی۔ میرا زیادہ تر وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر دوسرے لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے گزرتا۔
میرا مزاج کبھی بھی مستقل نہ رہتا۔ کبھی میں لوگوں سے دوستی بڑھانے لگتی اور کبھی کبھی تمام دنیا سے قطع تعلق ہو جاتی۔ مجھے اپنے مزاج کی خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اسی دوران میرے ایک دور کے کزن کا ہمارے گھر آنا ہوا وہ روزگار کے سلسلے میں امریکہ جا رہا تھا۔ میری اس سے صرف ایک ملاقات شادی کے فنکشن میں ہوئی تھی۔ امریکہ جانے کے کافی عرصے بعد اس نے مجھے واٹس ایپ پر ہیلو کہا۔ میں اسے بالکل پہچان نہ پائی۔
پھر اس نے مجھے اپنا تعارف کرایا۔ وہ مجھ سے عمر میں کوئی دس سال چھوٹا تھا۔ میں نے اسے کوئی خاص جواب نہ دیا۔ مگر اس نے مجھے مسلسل گڈمارننگ اور گڈنائٹ بولنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ چلتے چلتے چند ہی دنوں میں شدید محبت تک پہنچ گیا۔ امریکا میں وہ ٹرک چلاتا تھا اور اتنا تعلیم یافتہ بھی نہیں تھا یہاں تک کہ انگریزی کے الفاظ بھی وہ پنجابی لہجے میں ہی بولتا تھا۔ مگر نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کی محبت میں بڑی شدت سے گرفتار ہوگئی تھی۔
شاید عورت جب محبت کرتی ہے تو پھر عہدہ، تعلیم، حسب ونسب سب بھول جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا میں اس کی محبت میں سب بھول چکی تھی۔ وہ ایک شادی شدہ انسان تھا اس کی بیوی پاکستان میں رہتی تھی اور وہ روزگار کے لیے امریکہ میں مقیم تھا۔ وہ مجھے اپنی شدید محبت کا احساس دلا رہا تھا۔ میں بھی اس سے مسلسل ویڈیو چیٹ کرتی رہتی تھی، مجھے وقت کا احساس ہی نہ رہتا کہ کب صبح ہوئی اور کب رات ہوگی۔ آپ یوں سمجھیں کہ چوبیس گھنٹے ہمارا رابطہ تھا اور وہ میرے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا اس وجہ سے میرے نیند میں بھی خلل آنے لگا اور میرے روزمرہ کے امور پر بھی فرق پڑنے لگا۔
میرے نیند پوری نہ ہوتی اور آفس میں مسلسل تھکاوٹ اور غنودگی کی حالت میں رہتی، میرے اردگرد کے سب لوگ اس تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کر رہے تھے مگر میں تھی اس کے عشق میں اندھی ہوئی جا رہی تھی۔ وہ میرے اوپر مکمل حق جتا نے لگا تھا میری ہر نقل و حرکت پر اس کی نظر ہوتی اور وہ باقاعدہ مجھے کنٹرول کرنے لگا تھا۔ میں کہاں جاتی ہوں، کیا کرتی ہوں، کس سے ملتی ہوں، آفس میں مجھ سے کون کون ملتا ہے میرے کولیگز کون کون ہیں، میں گھر میں اس وقت کیا کر رہی ہوں، میرے شوہر مجھ کیا بات کرتے ہیں، میرے فیملی ممبرز مجھ سے کیا بات کرتے ہیں الغرض وہ ہر چیز کی خبر رکھنا چاہتا تھا۔ یوں سمجھیں کہ میں اپنی زندگی کا مکمل کنٹرول اس کے ہاتھ میں دے چکی تھی۔
رات کے ٹھیک تین بجے میری آنکھ کھل جاتی اور جیسے ہی میری آنکھ کھلتی تو فوراً اس کا گڈ مارننگ کا میسج آجاتا۔ میں روحانی طور پر اس کو اپنے قریب محسوس کرنے لگی تھی۔ ایک ہی وقت میں میری آنکھ کا کھلنا اور اس کا میسج آنا میرے لئے بہت ہی عجیب تجربہ تھا۔ میں نے کئی مر تبہ اس خیال کو رَد کرنا چاہا مگر یہ مزید پختہ ہوتا چلا گیا کہ ہم دونوں میں ضرور کوئی نہ کوئی روحانی تعلق ہے۔ میں اپنی اس حالت سے چاہتے ہوئے بھی باہر نہیں نکل پا رہی تھی۔
میں تمام لوگوں سے قطع تعلق ہو چکی تھی میری دنیا صرف اور صرف یہی ایک انسان ہی تھا۔ وہ مجھے اپنے فلرٹ کے مختلف قصے سناتا تھا اور کن کن لڑکیوں سے وہ محبت کے عہد و پیماں کر چکا تھا ان کے بارے میں بھی بتاتا۔ اپنی بیوی کے ساتھ اپنے سردمہر تعلقات کے بارے میں بھی مجھے بتاتا۔ میری ایک قریبی کزن کو بھی وہ بہت پسند کرتا تھا اس سے محبت کی داستان بھی اس نے مجھے سنائی۔
مجھے وہ ایک انتہائی سچا، مخلص اور اپنی زندگی سے لڑنے والا انسان لگتا تھا۔ مجھے اس نے بتایا کہ کیسے وہ اپنے گھر والوں کے لیے دن رات محنت کرتا ہے اور اس کے خاندان والوں نے کس طرح سے اس کو ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں۔ میں سمجھتی تھی کہ پسند کی شادی اس کا حق ہے جو کہ وہ بدنصیب نہیں کر پایا۔ جس کو پسند کرتا تھا اس سے شادی نہ ہوئی اور جس سے شادی ہو ئی اس کو وہ بالکل پسند نہیں کرتا۔ اس دوران ہماری محبت پروان چڑھتے ہوئے آخری مراحل کے قریب تھی۔ میں اس کے لئے کچھ بھی کرسکتی تھی۔ اپنا گھر بار سب چھوڑ نے کے لیے تیار تھی۔ مجھے صرف اس کا ایک اشارہ چاہیے تھا۔ میں اس انتظار میں تھی کہ جیسے ہی وہ مجھے اشارہ کرے گا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس بھاگی چلی جاؤں گی۔ اس پچاس دن کی محبت میں، میں اس کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار تھی۔
پھر ایک دن خلاف توقع اس کا صبح تین بجے والا میسج نہ آیا۔ میں کافی پریشان ہو رہی تھی۔ اس دن پوری رات میں بڑی بے چین رہی۔ صبح بھی میرا دل ڈوبا جا رہا تھا مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میرا کلیجہ کٹ رہا ہے اور عنقریب مجھے کچھ ہونے والا ہے۔ صبح سات بجے کچن میں جب میں ناشتہ بنا رہی تھی تو میرے شوہر کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ وہ فون سننے کے بعد پریشانی کے عالم میں کچن میں آ کر مجھ سے کہنے لگے تمہیں یاد ہے ہمارا دور کا کزن ہوتا تھا سرفراز۔
میں نے فورا کہا کیا ہوا اُسے؟ وہ کہنے لگے کہ آج صبح امریکہ میں اس کا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ہے۔ میرے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے دَب سی گئی۔ میرے دل پر یک دم بوجھ پڑگیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں اور کیا نا کروں۔ میں زور زور سے رونا چاہتی تھی لیکن رو نہیں پا رہی تھی۔ اپنے شوہر کے باہر چلے جانے کے بعد میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور خوب جی بھر کے روئی۔
اس کے انتقال کا میری زندگی پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ مجھے زندگی کی ہر چیز میں دلچسپی ختم ہوگئی۔ میں الگ تھلگ اور تنہا تنہا رہنے لگی۔ میں ہر وقت کھوئی کھوئی رہتی۔ اس کی یادوں کو یاد کرکے روتی رہتی۔ بار بار اس کی تصویریں دیکھتی۔ ہر جمعرات کو اس کے لئے قرآن خوانی کرواتی اور ثواب بخشش کرتی رہتی۔ کچھ ہفتوں بعد سب لوگوں نے میری اس پریشانی کو نوٹ کرنا شروع کردیا۔ مگر میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا اور اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مرتی جا رہی تھی۔ میرے بارے میں اپنے شوہر کی پریشانی دیکھ کر مجھے احساس ہونے لگا کہ شاید میں اپنے شوہر سے بے وفائی کر رہی تھی اور اس بات میں بہت حد تک صداقت بھی تھی۔
میں پھر سے اپنی خوشحال زندگی جینا چاہتی تھی مگر تقدیر نے مجھے مہلت ہی نہ دی اور ایک دن اچانک میرا دل بند ہوگیا اور میں اس بے وفا دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئی۔ کچھ دنوں کے بعد دنیا میں رہنے والے تقریبا سب لوگ مجھے بھول گئے۔ مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ میں اس دنیا میں ہوں یا آخرت والی دنیا میں ہوں۔ میرے روح ہر وقت اسی دنیا میں بھٹکتی رہتی ہے۔
ایک دن اچانک ریسرچ سنٹر میں میں آئے ہوئے اس علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر سے میری ملاقات ہوگئی۔ وہ ایک ہینڈسم اور اچھے انسان تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اچھے لگے اور میں نے ان سے بات کرنا چاہی۔ جیسے ہی میں نے ان کو سلام کیا وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے اور میرا سلام کا جواب دیا۔ وہ اس دنیا کے پہلے انسان تھے جس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ میں نے اس کو اپنے پیار کا یقین دلایا اور جب وہ میرے پیار میں بالکل پاگل ہوگیا تو میں اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔
وہ اس ذہنی صدمے کو برداشت نہ کرسکا اور پاگل ہوگیا۔ میں اس کو اس اذیت میں دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔ اسی طرح ایک اور شخص سے میری ملاقات ہوئی اور اُسے بھی میں نے ذہنی مریض بنا دیا اور آج کل وہ پاگل خانے میں اپنا علاج کروا رہا ہے۔ لوگوں کو پیار کے فریب میں پھنسانا اور ان کو تکلیف دینا مجھے اچھا لگنے لگا۔ اسی طرح ایک دن مجھے احساس ہوا کہ آپ بھی مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے میں لیبارٹری میں آکر آپ سے ملی اور آپ سے بات چیت بڑھائی۔
لیکن بہت جلد ہی آپ میری حقیقت کو جان گئے۔ اس وقت پوری دنیا میں آپ ہی وہ واحد انسان ہیں جس کو میں نظر آتی ہوں۔ لیکن خدا میرے دل کو جانتا ہے کہ میں آپ کو بالکل تنگ نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی میں آپ کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ ہی میری نجات کا وسیلہ بن سکتے ہیں اور مجھے اس عذاب سے نجات دلاسکتے ہیں۔ میرے لیے دعا کرنے والا اس دنیا میں اب کوئی نہیں رہا۔ مجھے اپنے کیے کی سزا مل چکی ہے۔ میرے روح بے چین ہے اور ابھی تک زمین اور آسمان کے درمیان اٹکی ہوئی ہے۔ یہ کہہ کر اور بلک بلک کر رونے لگی۔
میں اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کی کرسی کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ریشمی اور خوبصورت بالوں کو اس کے چہرے سے ہٹایا اور اس کو کو پیار سے کہا ہاں میں ضرور آپ کو اس عذاب سے نجات دلاؤں گا۔
اتنے میں دو لڑکے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور مجھے پکڑ کر کرسی پر بٹھا لیا۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ سر آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے پاگل سمجھ رہے ہیں۔ میں نے فورا لمبی سانس لی اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک لڑکا دوسرے لڑکے سے کہنے لگا مجھے پہلے ہی شک ہورہا تھا یہ بندہ پاگل ہے۔ کیونکہ انہوں نے مجھے دو کپ کافی کا آرڈر دیا جبکہ یہاں یہ اکیلے بیٹھے اپنے آپ سے باتیں کیے جارہے ہیں۔ دوسرا لڑکا فوراً بولا نہیں یار یہ پاگل نہیں لگتے۔
پاگل شخص اتنے اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر یہاں تک نہیں آ سکتا۔ اور وہ دیکھو ان کے ہاتھ میں ہونڈا کار کی چابی بھی ہے۔ یہ پاگل نہیں ہو سکتے ہیں ان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ یہ کہہ کر ایک لڑکے نے فورا میرے جیب میں ہاتھ ڈالنا چاہا تاکہ میرا پتہ معلوم کرکے میرے گھر اطلاع دی جا سکے۔ میں حالات کو فوراً سمجھ گیا۔ میں نے ان لڑکوں کو کہا میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے اور میں ایک ڈرامہ کی ریہرسل کے لیے اپنے آپ سے گفتگو کر رہا تھا۔
کافی کے دو کپ میں نے اپنے لئے ہی منگوائے تھے کیونکہ میری عادت ہے کہ میں ہمیشہ دو کپ کافی ہی پیتا ہوں۔ اس کے بعد وہ لڑکے ایک دو منٹ تک میرے ساتھ بات کرتے رہے۔ ان کو اب یقین ہو گیا تھا کہ میں بالکل نارمل انسان ہوں۔ میں نے ان دونوں لڑکوں کو کافی کے پیسے دیے اور ٹِپ کے طور پر ایکسٹرا پانچ سو روپے بھی دے دیے۔ وہ دونوں بہت خوش ہوئے اور میرے شکریہ ادا کیا۔ میں بھی ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے چل پڑا۔
میں نے اپنی اس پریشانی کا اپنے مرشدین سے ذکر کیا۔ اور اس خوبصورت عورت کی روح کے لیے دن رات دعا کرنے لگا۔ ایک دن میرے مرشدین اچانک میرے گھر آن پہنچے اور مجھے کہنے لگے کہ آج آپ کا اس روح سے تعلق ہمیشہ کے لئے ختم کروا دیتے ہیں جو آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے مرشدین کے بقول انہوں نے میرے گھر میں کسی جگہ پر تعویذ چھپا کر رکھ دیے ہیں جس کی وجہ سے اب میرے اردگرد وہ روح کبھی نہیں آئے گی اور مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر دور بلکہ بہت ہی دور اور اپنی مقررہ جگہ پر ہمیشہ کے لیے چلی جائے گی۔
دن ہفتے مہینے گزرنے لگے۔ ایک رات اچانک خواب میں دوبارہ مجھے وہی خوبصورت عورت ملی۔ وہ پریوں جیسا لباس پہنے ایک اڑن کھٹولے پر بیٹھی آسمان کی طرف رواں دواں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ ہاتھ ہلا ہلا کر کہنے لگی کہ تمہارا بہت بہت شکریہ، تم نے میری مشکل آسان کر دی۔ اور ہاتھ ہلاتے ہوئے مجھے دعائیں دیتے ہوئے اور خدا حافظ کہتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ اس وقت جو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اسے میں زندگی بھر نہیں بھول پاؤں گا۔
ایک طبعی سائنسدان ہونے کے ناتے یہ میرا مادیت سے روحانیت کی طرف ایک انتہائی عجیب اور دلچسپ سفر تھا جس کا کبھی کبھی مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا۔