گفتگو ہے کہ اختتام پذیر ہونی کا نام ہی نہیں لے رہی کہ سی پیک پر تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟ اس کے وہ کون سے مفادات ہیں کہ جن کے سبب سے امریکہ بار بار سی پیک کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار پاکستانی مفادات کی آڑ میں کرتا رہتا ہے اور امریکی مخالفت یا تحفظات کو رفع کرنے کی غرض سے ایسے کون سے اقدامات ہے جو اٹھائے گئے ہیں کہ جن سے چین بھی ناخوش نا ہو اور ہمارا توازن امریکی معاملات کے حولے سے بھی نہ بگڑے کیوں کہ یہ ایک دائمی حقیقت ہے کہ خارجہ تعلقات کسی جذباتیت کے تحت نہیں نبھائے جاتے بلکہ قطعی طور پر غیر جذباتی انداز میں معاملات کو دیکھا جاتا ہے اور اس کو نبٹایا جاتا ہے۔
امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز کی سی پیک کے حوالے سے تازہ گفتگو اس امر کی غماز ہے کہ امریکہ تو جو سی پیک کے حوالے سے سوچ رکھتا ہے اس کے جو تحفظات ہیں وہ اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں اور عوام کے دلوں میں بھی سی پیک کے حوالے سے خدشات کو ابھارنا چاہتا ہے۔ یہ سنہ 2000 ء کی بات ہے کہ جب ابھی صدر کلنٹن پاکستان اور بھارت کے دورے پر آنے والے تھے تو میری ایلس ویلز سے پہلی ملاقات ہوئی اور اس کے بعد پھر متعدد ملاقتیں، اس لئے میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایلس ویلز جو بار بار اس قسم کی گفتگو کر رہی ہے وہ صرف زبانی کلامی ہی گفتگو نہیں کر رہی بلکہ اس حوالے سے صف بندیاں بھی جاری و ساری ہیں ویسے یہ صف بندیاں سی پیک کے اعلان کے ساتھ ہی نظر بھی آنے لگی تھی اور پاکستان میں بگڑتے سیاسی حالات بھی بین الاقوامی طاقتوں کے باہم وطن عزیز میں دست و گریبان ہونے سے ایک تعلق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔
اب یہ کیفیت نئے کیا گل کھلاتی ہے اس کا تدارک کرنے کی غرض سے حکمت عملی طے کرنا ایوان اقتدار کے کرتا دھرتاؤں کا کام ہے۔ لیکن جو حالیہ عدالتی معاملہ در پیش ہوا جس میں حکومت کی جگ ہنسائی ہوئی اس کے بعد یہ گمان کر لینا کہ یہ معاملہ فہمی کرتے ہوئے کوئی درست راستہ اختیار کر لینگے اس کا امکان مکمل طور پر رفع ہو چکا ہے۔ ویسے بھی سفارتی حلقوں سے لے کر سی پیک پر نظر رکھنے والے افراد کی نظر میں سی پیک پر کام کی رفتار سوا برس سے کچھوے کی چال بن چکی ہے۔
خیال رہے کہ دنیا کے اہم ممالک کے سفارت خانے اسلام آباد میں سی پیک اور پاک چین تعلقات پر اپنے ڈیسک قائم کر چکے ہیں۔ ایلس ویلز کے بیان کے جواب کے طور پر چینی سفیر نے بھی اپنی بات پاکستانی عوام تک پہنچانے کی غرض سے ایک بیان جاری کر ڈالا۔ موجودہ چینی سفیر بھی گزشتہ عشرے میں اسلام آباد میں چین کے نائب سفیر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ لہٰذا ان سے بھی اس وقت کی دعا سلام موجود ہے۔ وہ وطن عزیز میں چین کا چہرہ ہے۔
لہٰذا جواب سفارتی اداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیا۔ اور سی پیک کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا کہ اس سے چین کے ساتھ ساتھ پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پاکستان میں جاری ایک بہت بڑے منصوبے کے حوالے سے جو حالیہ بیان بازی ہوئی ہی اس کے فوری طور پر کیا محرکات ہیں۔ اس سے کچھ عرصہ قبل عمران خان کا بیان ہانگ کانگ اور کشمیر میں جاری میڈیا کوریج کے حوالے سے سامنے آیا تھا جو کہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان تھا۔
کشمیر کی میڈیا کوریج کی عدم موجودگی کو ایک ایسے مقام سے ملائے جانا کہ جہاں پر چین اقتدار رکھتا ہو اور امریکہ اس کو ایک اور رنگ دینا چاہتا ہو۔ قطعی طور پر غیر مناسب تھا۔ ہم ان دونوں ممالک کے سی پیک پر باہمی الجھاؤ سے ہی پریشان ہیں چہ جائیکہ ہم کسی اور معاملے میں بھی اپنی ٹانگ اڑا دے۔ کشمیر بذات خود ایک بین الاقوامی معاملہ ہے اس کو کسی دوسرے سے اس انداز میں مماثلت دینا نا صرف کہ نا مناسب ہے بلکہ اس کے غیر معمولی اثرات کا سامنا بھی وطن عزیز کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
اور پاکستان اس وقت ایک عجیب ناتوانی کی کیفیت میں موجود ہے۔ اس لئے اس کو ایسی کسی کیفیت سے دور رکھنا ہی دانش مندی ہو گی۔ ناتوانی کی تو یہ حالت ہے کہ وفاقی وزراء کے حوالے سے یہ خیال بہت مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے کہ یہ مختلف گروپوں کے مفادات کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کی تعیناتی ہویا معزولی یا معزولی کی کواہش اس تمام میں غیر ممالک دیدہ دلیری سے حصہ لے رہے ہیں۔ خبر تو یہاں تک ہے کہ جب حال ہی میں مقتدرہ میں ایک اعلیٰ سطحی تعیناتی ہوئی تو اس وقت بھی بعض قریبی ممالک نے اس میں مداخلت کی کہ فلاں ہمارا بندہ ہے اور فلاں ہمارے خلاف ہے۔ جب غیر ملکی مداخلت اس حد تک پہنچ جائے تو اس وقت مملکت کے ارباب اختیار کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے کہ اس کمزوری کا ازالہ کیوں کر ممکن ہے۔ کیوں کہ داخلی مضبوطی ہر طرح کے معاملات کو استحکام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔