اگر میں اپنے اسکول کے دور (انیس سو سڑسٹھ تا چھہتر) کو یاد کروں تو اس زمانے میں ہم بچوں کی دنیا کا اپنا ہی جغرافیہ اور تاریخ تھے۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انگریز کس ملک سے آئے، میں برطانیہ انگریز اور فرنگی کو الگ الگ خانے میں رکھتا تھا۔ کیونکہ صادق بازار میں ہر اتوار کو گورے صاحبوں اور میموں کی ایک بس بھر کے گڈو پاور پلانٹ سے آتی تھی اور سب دکان دار کہتے تھے کہ یہ روسی انگریز ہیں۔ فرنگی صرف پنجابی فلموں میں پایا جاتا تھا اور اسے اوئے فرنگیا کہتے تھے۔
امریکا کے بارے میں اس وقت بھی طے نہیں تھا کہ وہ ہمارا دوست زیادہ ہے کہ دشمن زیادہ۔ بہرحال کچھ نہ کچھ زیادہ ضرور تھا۔ اسکول میں جب کبھی یو ایس ایڈ کا دودھ تقسیم ہوتا تو امریکا دودھ شریک بھائی محسوس ہوتا۔ مگر جب کالج کے لمڈے جلوس لے کر اسکول کے گیٹ تک آتے تو امریکی کتا ہائے ہائے سننے میں بھی مزہ آتا۔ اور صدر ایوب ہم بچوں کے خیال میں امریکا اکثر اس لیے جایا کرتے تھے تاکہ ان کا والہانہ استقبال ہو۔ لفظ والہانہ کی ادائی میرے کانوں کو اتنی ہی بھلی لگتی تھی جیسی ”شش و پنج“ کی ادائی سے سکڑنے پھیلنے والے اپنے ہی ہونٹ۔
چین اس لیے ہم بچوں کو ازبر یاد تھا کیونکہ چواین لائی وہیں کے رہنے والے تھے اور ہمارے کانوں میں اکثر پڑتا رہتا تھا کہ آج چو این لائی آ رہے ہیں، آج چو این لائی جا رہے ہیں۔ روس کا نام ضرور سنا تھا مگر اس پر کبھی کوئی زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ کے ٹال دیا جاتا کہ روس کیمونسٹ ہے اور کیمونسٹ ہونا اچھی بات نہیں۔
افغانستان کے بارے میں یہ تو معلوم تھا کہ وہ ہمارا ایک مسلمان ہمسایہ ہے مگر افغانستان اور پختونستان کا نام ایک ساتھ سننے کو ملتا تھا۔
البتہ سب سے زیادہ تذکرہ ایران کا سننے میں آتا۔ کیونکہ فارسی وہیں سے آئی تھی اور فارسی ہمارے اسکول میں بھی پڑھائی جاتی تھی۔ ویسے تو عربی بھی تھی مگر زیادہ تر بچے فارسی کا مضمون ہی اختیار کرتے تھے کیونکہ ماسٹر غلام صابر جب پنجابی لہجے میں ایں چیست پڑھاتے تھے تو مطلب فوراً سمجھ میں آجاتا۔ اس کے علاوہ بچوں کو معاشرتی علوم کے پیریڈ میں آر سی ڈی کے بارے میں بھی بتایا جاتا تھا کہ پاکستان، ایران اور ترکی اصل میں تین جڑواں بھائی ہیں اس لیے انھیں پیار سے آر سی ڈی کہا جاتا ہے۔
پھر ایک دن اسکول میں خبر پھیل گئی کہ ابو ظہبی نام کا کوئی عرب بادشاہ کسی تلور نامی پرندے کے شکار کے لیے بہت بڑی بڑی جیپیں لایا ہے اور ہر جیپ اندر سے برف کی طرح ٹھنڈی ہے۔ بادشاہ بھی ٹھنڈے خیمے میں رہتا ہے اور جہاں سے بھی گزرتا ہے پیسے بانٹتا ہے۔ ایک روز ہم بچوں کو ریلوے اسٹیشن تک لے جایا گیا اور ہمارے ڈرائنگ ماسٹر جی نے کہا کہ جیسے ہی تم ابو ظہبی صاحب کی بڑی سی سیاہ گاڑی دیکھو تو تالیاں بجانا۔ اور پھر ہم تب تک بجاتے رہے جب تک بہت سی لمبی لمبی سیاہ گاڑیوں اور بھوری بھوری جیپوں کا لمبا قافلہ گزر نہیں گیا۔
اسی زمانے میں دادی حج کرکے آئیں اور مکہ مدینہ مکہ شریف سے کھجوریں اور آبِ زم زم سے بھرا پلاسٹک کا بڑا جیری کین، کچھ جائے نمازیں، تسبیحات، ایگل کا بڑا تھرمس اور نیشنل کا جاپانی ٹرانزسٹر لے کے آئیں۔ بہت سی عورتیں مبارک باد دینے آئیں۔ ایک نے پوچھا سعودی عرب کیسا لگا؟ دادی نے فوراً تصیحح کی ہم تو جدہ میں پانی کے جہاز سے اتر کے مکہ مدینہ مکہ شریف گئے تھے سعودی عرب تھوڑا گئے تھے۔ حج کے تین برس بعد دادی کا انتقال ہوگیا۔ مگر آبِ زم زم کا کین تب بھی آدھا بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ اس زم زم میں کفن بھگو کر دادی کو پہنایا گیا۔ مگر ہماری اماں نے خالی کین بھی احتیاط سے اونچی جگہ رکھ دیا۔ آخر کو مکہ مدینہ مکہ شریف سے جو آیا تھا۔
وہ تو جب انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل بند ہوا تب ہم میں سے بہت سوں پر کھلاکہ شیر دل شاہ فیصل مکہ مدینہ اور مکہ شریف کے بادشاہ ہیں مگر سعودی عرب میں رہتے ہیں۔
بچوں کے جو رسالے آتے تھے ان میں بہت سی کہانیاں ایسے شروع ہوتی تھیں کہ ”بہت دنوں پہلے ملک شام میں کوئی خدا ترس بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اور ملکہ سبا کی کہانی پڑھی تو معلوم پڑا کہ یمن بھی کوئی ملک ہے اور ملکہ کے حسن کے چرچے دور دور تک ہیں اور وہ جو پتھر پہنتی ہے اسے لعلِ یمن کہتے ہیں اور جہاں وہ رہتی ہے اسے باغِ عدن کہتے ہیں جو اتنا خوبصورت ہے اتنا خوبصورت ہے کہ بس کیا بتائیں۔
مصر کے بارے میں پہلی مرتبہ پی ٹی ماسٹر محمد نواز نے بتایا تھا کہ وہاں فرعون رہتا تھا اور پھر قلو پطرہ نے بھی حکومت کی اور یوسف زلیخا کا واقعہ بھی مصر کا ہی ہے اور حضرت موسی بھی وہیں رہا کرتے تھے پھر ایک دن مکار یہودی انھیں باتوں میں لگا کر اپنے ساتھ لے گئے اور صحرا میں چالیس سال مارا مارا پھرایا ( شاید ماسٹر نواز بھی نہیں جانتے تھے کہ یہودی حضرت موسی کے ہی امتی تھے ) ۔
اور اسرائیل کا اصل چہرہ کیا ہے اور فلسطین کا مسئلہ کیا ہے۔ یہ عقدہ کھولا ریاض شاہد کی فلم زرقا نے۔ جس میں نیلو فلسطین بنی تھی اور طالش اسرائیل۔
تو یہ تھا چالیس پینتالیس برس پہلے کے قصباتی پاکستان کا تصورِ مشرقِ وسطی۔ اس تصور کو بدلنے اور پاکستانیوں کو جدید مشرقِ وسطی سے متعارف کرانے والی بنیادی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی۔ فروری سن چوہتر کی اسلامی سربراہ کانفرنس نے عام پاکستانی کو یاسر عرفات اور کرنل قذافی سے متعارف کروایا۔ پھر پاکستانی تارکینِ وطن کے سامان کے ساتھ بحرین، کویت، قطر، اومان اور سب سے بڑھ کے دوبئی کے دیومالائی قصے بھی بندھ کے آنے لگے۔
شیخ محمد طفیل نے تو کویت سے واپسی پر اپنا نام ہی شیخ محمد طفیل الباکستانی کریانہ اسٹور رکھ لیا اور جمعہ کے جمعہ کفایہ اور کفتان زیبِ تن کرنے لگا۔ اس دوران درسی کتابوں سے ایران اور ترکی آر سی ڈی سمیت جانے کب دبے پاؤں نکل لیے۔
دیکھتے ہی دیکھتے لائل پور فیصل آباد ہوگیا۔ فیصل مسجد اسلام آباد کا تعارف ہو گئی۔ فیصل مسجد بنی تو بغل میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی بھی بن گئی۔ یونیورسٹی بنی تو پاکستان میں سعودی علما کی رہنمائی و سرپرستی میں شرعی قوانین بھی نافذ ہونے لگے۔
افغانستان میں روسی فوج کیا آئی کہ چھینکا ہی ٹوٹ گیا۔ پاکستان مشرقِ بعید سے شمالی افریقہ تک کے برادرانِ ملت اور ماسٹر ٹرینرز کا استقبالیہ کیمپ بن گیا اور پھر یہ کیمپ قائم و دائم رکھنے کا خرچہ پانی آنے لگا۔ روسی فوج کبھی کی چلی بھی گئی مگر مہمان احتیاطاً عالمِ اسلام کے قلعے میں ہی رہے مبادا کوئی اور روس کے بھیس میں آ جائے۔
رفتہ رفتہ فضا اس قدر سازگار ہوتی چلی گئی کہ ”پسینہ تمہارا خون ہمارا“ کے فارمولے کے تحت سب کچھ ہی سانجھا ہو گیا۔ کیا ریاض، کیا دوبئی، کیا اسلام آباد۔ من و تو کا ٹنٹا ہی نہ رہا۔
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال بھی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
( جون ایلیا )
آج میرے چھ سالہ بھانجے کا خیال ہے کہ چین بھی برادر اسلامی ملک ہے ( جیسے پچاس برس پہلے ہم بچے روسیوں کو بھی انگریز سمجھتے تھے ) ۔
بشکریہ ایکسپریس۔
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
( جون ایلیا )
آج میرے چھ سالہ بھانجے کا خیال ہے کہ چین بھی برادر اسلامی ملک ہے ( جیسے پچاس برس پہلے ہم بچے روسیوں کو بھی انگریز سمجھتے تھے ) ۔
بشکریہ ایکسپریس۔