ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دوسرے کے مقام کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اگر سمجھ بھی لیں تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہمیں گراں گزرتا ہے کہ دوسرا جس مقام پر ہے اسے غیر اہم کہتے ہوئے آگے بڑھنا آسان نہیں۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ مرد کو یہ احساس دلایا جائے کہ گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہوئی عورت بھی معاشرے اور گھر کی تعمیر و ترقی میں اس کی معاون و مددگار ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں برابر کی حصہ دار ہے نہ کہ اس سے کمتر یا ناکارہ۔
اور عورت کو بے یقینی کی کیفیت سے نکال کر یہ اعتماد دیا جائے کہ اگر وہ گھر پر رہ کر بھی اپنی ذمہ داریاں احسن طریق پر نبھا رہی ہے تو بھی یہ معاشرے کی تعمیر میں اس کی برابر کی حصہ داری ہے اس لئے گھر بیٹھے ہونے کی بنا پہ خود کو ناکارہ تصور نہ کرے۔ اور اگر وہ گھر سے باہر نکل کر اپنی صلاحتیں منوانا چاہے تو بھی مرد اور معاشرے دونوں کو اس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے مواقع فراہم کرنے چاہئیں، ناکہ اس کے لئے مصنوعی مشکلات پیدا کی جائیں۔
مصنوعی مشکلات سے مراد ایسی مشکلات جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہے بلکہ صرف ہمارے معاشرے میں رائج ہندوانہ رسوم و رواج ہیں جن کی بِنا پر ہم نے عورت کے لیے زمین کو تنگ کر دیا اور انہیں کے تحت مرد کی تربیت ان نکات پر کی کہ وہ عورت کے راستے کی رکاوٹ بننے کو اپنے لیے فخر محسوس کرنے لگا اور اس گھناؤنی سوچ کو غیرت مندی سے تعبیر کرنا ہمارے تمدّن کا ایک اور امتیاز ہے جو اسے پسماندہ، دقیانوسی اور رجعت پسند ثابت کرتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ مرد اور عورت دونوں کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوں اور برضا و رغبت ایک دوسرے کے لیے آسانیاں مہیا کرنے پر مائل ہوں (یہاں مرد، عورت سے مراد صرف میاں بیوی نہیں ہیں۔)۔ درحقیقت یہی ہے وہ برابری جس کے نتیجے میں معاشرے کے اندر ایک صحت مند فضا قائم ہو سکتی ہے۔ لیکن ہوا یوں کہ دو نمبر روشن خیالوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت ان دونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا اور ان کے ذہن میں مسلسل یہ سوچ راسخ کرنے پہ کمربستہ ہیں کہ یہی حقیقتی برابری ہے۔
چونکہ اس روشن خیالوں کے پاس نہ تو اپنا کوئی ضابطہ اخلاق ہے، نہ اصولِ معاشرت اور نہ ہی کوئی طے شدہ اصول جن کو دنیا کے سامنے لا کر یہ خود کو ممتاز ثابت کر سکیں۔ یہ تو صرف دوسروں کی کمزوریاں تلاش کرتے ہیں اور اسی ہتھیار سے ان پر شب خون مارتے ہیں۔ دو نمبر روشن خیال اس معاشرے کے مرد کی نامناسب تربیت کی بِنا پر پنپنے والی حاکمانہ ذہنیت سے خوب واقف تھا سو اس نے عورت کو اس احساس کمتری میں مبتلا کیا کہ گھر کے اندر وہ ایک ناکارہ چیز سے بڑھ کر کچھ نہیں اور خود کو کارآمد وہ صرف گھر سے نکل کر ہی ثابت کر سکتی ہے۔
دشمن دو ہی صورت میں ہم پر غالب آ سکتا ہے کہ یا تو وہ بہت طاقتور ہو یا پھر ہم مقابلے کی اہلیت و صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ یہاں بھی یہی ہوا کہ دشمن نے ہمیں لاچار کرنے کے لیے ہمارے کمزور پہلو پر وار کیا اور اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا۔ اس صورت حال میں مرد اگر اپنی مخصوص ذہنیت کو بدل کر تھوڑی سی گنجائش پیدا کرتا اور عورت کو اپنے ساتھ کے اعتماد کے ہمراہ مناسب آزادی دیتا اور اسے اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع دیتا تو روشن خیالوں کی سازش دھری کی دھری رہ جاتی۔
لیکن مرد نے عورت کی اس ڈیمانڈ یا خواہش کو اپنی انا اور غیرت کا مسئلہ بنا کر بزور عورت کو اپنا محکوم رکھنا چاہا جس کے لئے عورت اب آمادہ نہیں ہے کیونکہ اس کے ذہن کو لاوارث اراضی سمجھ کر قبضہ مافیا کی طرف سے اس میں بغاوت کا بیج بو دیا گیا ہے جسے پھلنے پھولنے سے روکنے کے لیے ہمارے ہاں مصالحت کی بجائے زور زبردستی کا جو طریقہ اختیار کیا جا رہا یہ طریقہ اور یہ کوشش کسی صورت کارگر نہیں ہو سکتی، نفسیاتی گیم کو نفسیاتی حربوں سے ہی کھیلا اور جیتا جا سکتا ہے۔
یہاں تلوار بازی کام آتی ہے نہ ایٹمی قوت اور ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ انتشار ہے جو دو نمبر روشن خیالوں کا مقصد تھا۔ حقیقی روشن خیالی دونوں فریقین کی ذمہ داریوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور سراہنا ہے نہ کہ کسی ایک فریق کو آسان ہدف سمجھ کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا اور پہلو سے نکال کر مدِمقابل لا کھڑا کرنا۔