’اکثر والدین یہ کہتے ہیں کہ اُن کے بڑا بچہ بھی بہت عرصے تک بول نہیں سکا تھا، اس لیے کوئی مسئلہ نہیں یہ بچہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بولنے لگے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ہر بچہ مختلف ہوتا ہے اور اگر آپ کا بچہ دو سال کی عمر میں الفاظ نہیں ادا کر سکتا یا تین سال کی عمر میں ایک مکمل جملہ نہیں بول سکتا ہو، تو معالج سے رجوع کریں۔‘
ندا زاہد ایک سپیچ پیتھالوجسٹ اور آٹزم سپیشلسٹ ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس شعبے میں اس لیے آئیں کیونکہ اُن کے اپنے بیٹے میں بھی ’سپیچ ڈیلے‘ بچوں میں دیر سے بولنے کا مسئلہ تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ جب وہ مختلف سپیچ تھراپسٹس کے پاس گئیں تو اُن کی تسلی نہیں ہوئی اور پھر انھوں نے خود ہی اس شعبے میں آنے کی ٹھان لی اور اب وہ اس مسئلے کا شکار بچوں کو سپیچ تھراپی فراہم کرتی ہیں۔
’ایک ماں ہونے کے ناطے میں یہ سمجھ سکتی ہوں کہ ایک ماں پر کیا گزرتی ہے جب اُن کا بروقت الفاظ ادا نہ کر سکے یہ بول نہ سکے۔‘
جہاں آرا (فرضی نام) ایک ایسے بچے کی والدہ ہیں جو بولنا شروع کرنے کی عمومی عمر میں بات نہیں کر سکتا تھا۔ اُس وقت کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، جب مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اُس کے بچے میں کوئی مسئلہ ہے تو ایسا لگا کہ ’میں ہار گئی ہوں۔‘
’جب بچے میں کسی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے تو ماں سب سے پہلے اپنے آپ کو قصوروار ٹھہراتی ہیں اور ایسا ہی میں نے محسوس کیا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ اس صورت حال میں معاشرہ بھی سارا الزام ماں کے سر پر ڈال دیتا ہے اور انھیں ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ جہاں آرا کے بیٹے کی عمر اب چار برس ہے۔ جب بچہ 18 ماہ کا تھا تو جہاں آرا کو معلوم ہوا کہ اُن کا بیٹا بچوں سے بات کرنے اُن میں گھلنے ملنے سے کتراتا ہے۔
ڈاکٹر سے مشورے کے بعد اُنھیں معلوم ہوا کہ اُن کے بچے میں آٹزم کی علامات ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق آٹیزم میں بچے کی بولنے کے ساتھ ساتھ سماجی روابط بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا بچوں کو بولنے میں دشواری ہوتی ہے اور کئی مائیں سالہا سال اپنے بچے کے منھ سے ادا ہونے والا ایک لفظ سننے کو ترستی رہتی ہیں۔
جہاں آرا کے مطابق جب پہلی مرتبہ اُنھیں معلوم ہوا کہ اُن کا بچہ عام بچوں کی طرح نہیں ہے تو اُنھیں نہ صرف اپنے آس پاس لوگوں سے معاونت نہیں ملی بلکہ میڈیکل پروفیشنلز سے بھی کوئی خاص مدد نہیں مل رہی تھی۔
’انٹرنیٹ پر تحقیق کی، بیرونِ ملک مقیم طب کے شعبے سے وابستہ رشتہ داروں سے بات کی تو انھوں نے ہمیں ہیئرنگ ٹیسٹ یعنی قوتِ سماعت جانچنے کا ٹیسٹ کروانے کو کہا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ اسلام آباد میں ایک ڈاکٹر کے پاس بچے کا ہیئرنگ ٹیسٹ کرنے گئیں تو ڈاکٹر نے معائنے کے بعد بتایا کہ اس ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہے اور بچہ وقت کے ساتھ خود بخود بول لے گا۔
تاہم جہاں آرا اور اُن کے شوہر کو تسلی نہیں ہوئی اور اُن کے بقول اُنھوں نے کئی سوشل میڈیا گروپس میں لوگوں کے ساتھ بحث مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کر ہی لیا کہ وہ اپنے بچے کا ہیئرنگ ٹیسٹ کروائیں گے۔
’جب ہم نے ٹیسٹ کروایا تو پتا چلا کہ واقعی ہمارے بچے میں سننے کا مسئلہ ہے اور وہ اتنا ہی سُن سکتا ہے جتنا پانی اندر موجود شخص باہر کی آوازیں سن سکتا ہے۔‘
مریم صہیب ایک اور ایسے ہی بچے کی والدہ ہیں۔ مریم اپنے بچے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب اُن کا بیٹا 18 ماہ کا تھا تو وہ ہائپر ہو جاتا تھا، یعنی اشتعال میں آ جاتا تھا۔
’جب ہم بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ کے بچے میں آٹزم کی علامات ہیں، آپ اس پر تحقیق بھی کر لیں اور چند دیگر علامات کو بھی نوٹ کر لیں۔‘
مریم کے مطابق بعد میں اُنھیں ایک اور ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے کا ہیئرنگ ٹیسٹ کروا لیں اور یہ ٹیسٹ کرنے کے بعد اُنھیں معلوم ہوا کہ اُن کے بیٹے کی قوتِ سماعت بالکل ٹھیک ہے۔
’جب ہم نے یہ ٹیسٹ کروا لیا تب ڈاکٹر نے بتایا کہ اپنے بچے کی سپیچ تھیراپی شروع کر لیں اور تب سے ہم اُسے سپیچ تھیراپی مہیا کر رہے ہیں۔‘
مریم بتاتی ہیں کہ سپیچ تھیراپی کے بعد اُن کے بیٹے میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں اور پہلے کی نسبت بولنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سماجی تعلقات بھی بنا رہا ہے۔
مریم، جہاں آرا اور ندا زاہد وہ مائیں ہیں جو اسلام آباد میں مقیم ہیں لیکن پھر بھی اُنھیں اپنے بچوں میں بیماری کی تشخیص سے لے کر علاج کروانے اور تھیراپی کروانے تک جگہ جگہ مشکلات کا سامنا رہا۔
اسی طرح 40 سالہ میرداد کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر ٹانک سے ہے اور اُن کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے میرداد کا کہنا تھا کہ اُن کا بڑا بیٹا اب 13 سال کا ہے جبکہ چھوٹا بیٹا چار سال کا ہے۔
تاہم اُن کا چار سالہ بیٹا ابھی تک کوئی لفظ نہیں بول سکا اور اُنھیں کوئی فکر بھی نہیں ہے کیونکہ اُن کے مطابق اُن کے سارے بیٹے پانچ سال کے بعد بولنا شروع کر دیتے ہیں۔
’میری بیٹیاں عام بچوں کی طرح تین سال میں بولنا شروع کر دیتی ہیں جبکہ بیٹے کم از کم پانچ سال تک نہیں بولتے ہیں۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا یہ کوئی بیماری ہے یا نہیں تو اُن کا جواب نفی میں تھا اور وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بیماری ہوتی تو اُن کے بڑے بیٹوں کو بولنے میں دُشواری ہوتی۔
تاہم طبی ماہرین میرداد کے ساتھ بالکل متفق نہیں ہیں اور وہ تین سال کی عمر میں بچے کے نہ بولنے پر ہر صورت معالج سے معائنہ کرانے کو ضروری سمجھتے ہیں۔