لمبوترا منہ، چھوٹا سا سر، احساس سے عاری آنکھیں، وحشت زدہ چہرہ، ڈھیلا ڈھالا پیوند زدہ لباس، گلے میں منکوں کی مالا، ہاتھ میں کشکول!
یہ ہمارے بچپن میں کیے گئے سفر کی اولین یادوں میں سے ایک ہے۔ جب بھی ٹرین گجرات سٹیشن پہ رکتی، وہ گیروے لباس میں ملبوس کمپارٹمنٹ میں داخل ہو جاتا، ساتھ میں ایک بڑی بڑی مونچھوں اور دہکتی آگ سی آنکھوں والا ساتھی ہوتا جو اسے گاڑی میں چڑھاتا یا اتارتا۔ اسے دیکھتے ہی ہم کچھ خوفزدہ ہوتے تو اماں فوراً کہتیں، نہیں بیٹا، ڈرنے کی کوئی بات نہیں، یہ تو اللہ لوک ہے، شاہ دولے کا چوہا!
ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایک جیتے جاگتے انسان کو چوہا کیوں کہا جا رہا ہے؟ یہ چوہا بنا کیسے اور آخر یہ شاہ دولہ صاحب اتنے سارے چوہے بنانے پہ کیسے قادر تھے؟
بہت برسوں بعد میڈیکل کی تعلیم کے دوران لاہور ٹرین میں آتے جاتے ہم انہیں پھر دیکھتے لیکن اب تک ہم ان کے چھوٹے سر کا راز پا چکے تھے۔ بچہ بننے کے عمل میں معمولی سے معمولی خرابی بچے کو جسمانی اور دماغی طور پہ ابنارمل بنا دیتی ہے۔ چھوٹا سر یا مائیکرو کیفلی (Microcephaly) ایسی ہی صورت حال ہے جس میں دماغ اپنے اصل حجم پہ نہیں پہنچ پاتا سو نتیجتا چھوٹے سر والا بچہ پیدا ہوتا ہے جس کی دماغی اہلیت بہت کم ہوتی ہے۔ زندہ رہنے کے بنیادی حواس تو کام کرتے ہیں لیکن ذہن عقل و دانش کی منزلیں طے نہیں کر پاتا۔
چھوٹے سر یا مائیکرو کیفلی کی وجہ تو جان چکے تھے لیکن شاہ دولے کے مزار پہ اتنے سارے بچوں کا مائیکرو کیفلک ہونا ایک ایسا اسرار رہا جس کو کھوجتے کھوجتے ہمیں بہت سی لرزہ خیز کہانیاں سنائی دیں۔ شکوک شبہات اور حقیقت کے پردے میں لپٹی ہوئی زبان زد عام داستان جس کی گونج انیسویں صدی میں بھی سنائی دیتی ہے اور اس کا تعلق بھیک منگوانے کے منظم گروہ سے جا ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اغوا شدہ بچوں کے سر پہ آہنی خود چڑھا کے ان کی دماغی بڑھوتری کو روک دیا جاتا تھا. آہنی ٹوپی سالہا سال تک پہننے سے سر ایک مخصوص شکل میں آجاتا اور نتیجے میں ہمیں وہ انسان نظر آتا جسے شاہ دولے کا چوہا پکارا جاتا۔
خدا جانے ان سب داستانوں میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ شامل تھا لیکن دانش و فہم سے عاری، باہر کی دنیا سے بیگانہ، اپنے ساتھی نگران کی ہدایات پہ سو فیصدی عمل کرتے ہوئے یہ چوہے ہماری یادداشت میں آج بھی زندہ ہیں۔ اور ہم تاسف سے سوچتے ہیں کہ یہ ظلم حضرت انسان کے نامہ اعمال کا ایک اور سیاہ داغ ہے۔
یونہی ایک سوچ سرسراتی ہے۔ کیا ایسا صرف شاہ دولہ کے چوہوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ ذہن کی نشوونما پہ پابندی لگا دی جائے اور سوچ کی وسعت اور اظہار پر پہرے بٹھا دیے جائیں؟
صاحبان عزیز، کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہمارے معاشرے کی عورت بھی شاہ دولے کی چوہیا ہے۔ روایات، اقدار، عزت اور غیرت کی آہنی ٹوپی پہنے، نگران مرد کی ہدایات پہ سو فیصد عمل پیرا ہوتی، اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتی، اپنے وجود کی نفی کرتی، پدرسری معاشرے کے معیارات کی صلیب پہ جھولتی عورت!
بہت سے یاران نکتہ دان کا کہنا ہے کہ ہم یونہی عورت کی مجبوریوں اور مرد کی بالادستی کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ اصل میں تو گھمسان کی جنگ عورت کی عورت سے ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنے داؤ پیچ دکھاتی ہیں اور مرد بے موت مارا جاتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کے ان داتا دیکھنے اور محسوس کرنے سے قاصر ہیں کہ عورت کو اس مخصوص کردار میں ڈھالا کیسے جاتا ہے ؟
اوائل بچپن ہی سےتعلیم، غذا، آزادی رائے کے اظہار، خواہشات کی پیروی اور میل جول میں درجہ بندی وہ پہلا سبق ہے جو لڑکی کو پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی ذات پہ اس سے زیادہ اس کے باپ اور بھائی کا حق، اس کی مرضی اور پسند ناپسند پہ باپ اور بھائی کی مرضی کی ترجیح وہ طوق ہے جو شعور کی منزلیں طے کرنے سے پہلے ہی اس کی گردن میں ڈال دیا جاتا ہے۔
“کونسی کتاب پڑھنی ہے؟ کتاب پڑھنی بھی ہے یا نہیں؟ کس سے بات کرنی ہے؟ کس کو دوست بنانا ہے؟ دوست بنانا بھی ہے یا نہیں ؟ کہاں جانا ہے؟ کس سے ملنا ہے؟ کیا پڑھنا ہے؟ کہاں پڑھنا ہے؟ کالج جانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ کیا پہننا ہے؟ فیشن کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ کس وقت گھر سے نکلنا ہے؟ گھر سے نکلنا ہے بھی یا نہیں ؟ فلم یا موسیقی سننے کی اجازت ہے کہ نہیں ؟ کب ہنسنا ہے؟ کس سے شادی کرنی ہے؟ اپنا پروفیشن بنانے کی اجازت ہے کہ نہیں ؟ مردوں کے ساتھ پڑھنے یا کام کرنے کی اجازت ہے کہ نہیں؟”
کیا کبھی کسی نے کسی لڑکے کو اتنی اجازت والے مرحلوں سے گزرتے دیکھا؟
چلیے بچپن گزر گیا، ابا اور بھائیوں کی پابندیوں تلے آہستگی سے سانس لیتے اور سوچتے کہ کبھی تو اپنی مرضی والا خوش کن احساس زندگی میں در آئے گا۔
اب ایک اور مرحلہ درپیش ہے، ذمہ داری اور نگرانی کی نکیل ایک اور مرد کے ہاتھ میں تھمائے جانے کی منزل!
اور اب ہدایات کا اگلا مرحلہ ہے،
دیکھو, میری اماں کو تمہارا دیر تک سونا قطعی پسند نہیں!
میرے ابا کو تمہارا زور سے ہنسنا اچھا نہیں لگتا!
میری بہنوں کو تمہارا فون پہ مصروف رہنا کھلتا ہے!
میرے بھائی کو تمہارا ننگے سر رہنا نہیں بھاتا، دوپٹہ اوڑھا کرو!
اتنا ٹی وی مت دیکھا کرو!
تمہاری زندگی اب مجھ سے منسلک ہے سو سہیلیوں سے ملنے کا کیا مطلب؟
میکے کے چونچلے چھوڑو اور کچھ سنجیدگی اختیار کرو!
مجھے تمہارے ماں باپ کا وقت بے وقت میرے گھر آ جانا سخت ناپسند ہے!
نوکری کا کیا سوال؟ مجھے کام کرنے والی عورتیں زہر لگتی ہیں!
اس طرح کا فیشن ہمارے خاندان کی عورتیں نہیں کرتیں!
اگر مجھ سے سوال جواب کیا، تو دوں گا دو ہاتھ!
میں جو مرضی کروں، جس سے چاہے ملوں، تم مجھے روکنے والی کون؟
تمہاری اوقات ہی کیا ہے، تین لفظ کہہ کے ابھی نکال باہر کروں گا!
زہریلے الفاظ اور تلخ لہجہ، تشدد کی وہ قسم ہے جو اس نوجوان لڑکی کے کان میں شوہر اور سسرال کے ذریعے دن رات انڈیلی جاتی ہے اور جسمانی تشدد کی باری آنے میں بھی کچھ دیر نہیں لگتی۔ والدین اپنا بوجھ آگے منتقل کر چکے ہیں اور اب کسی بھی احتجاج کی صورت میں “ صبر کرو بیٹی، وقت ضرور بدلے گا” کا لالی پاپ ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا ہے۔ خوش رنگ خوابوں، نازک امیدوں اور کانچ سے جذبات بھرا دل کیسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، یہ نہ والدین کا مسلہ ہے، نہ سسرال کا اور نہ ہی شوہرکا!
لیجیے جناب ہدایات، نگرانی، ذمہ داریوں کے بوجھ تلے سسکتی اور رویوں کے کوڑے سہتی عورت اس عمر پہ آن پہنچی جہاں اس کا جگر گوشہ اس کے درد کا گواہ, ایک بھرپور مرد کے روپ میں موجود ہے اور ماں نامی عورت کو وہ مقام دینا چاہتا ہے جو اسے آج تک نہیں ملا، اختیار اور فیصلہ کرنے کی طاقت!
پدرسری معاشرے کے نظام کی بے رحمی دیکھیے کہ عورت کو اگر کچھ مدت کے لئے طاقت یا اختیار دیا بھی جاتا ہے تو ایک مرد کے ہاتھوں جو اس پہ ہونے والی تمام زیادتیوں کا عینی شاہد بھی ہے اور ماں نامی عورت کا معاشی محافظ بھی۔
زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے اختیار کا لطف لیتی اور اپنی گم شدہ زندگی کی راکھ پہ کھڑی اس عورت پہ ہی اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ وہ احساس سے عاری کیوں ہے آخر؟ وہ ان پرتشدد رویوں میں کسی اور کی ساتھی کیوں بنتی ہے؟ وہ ایک دوسری عورت کا دکھ کیوں نہیں سمجھ سکتی؟ وہ اس زنجیر کو توڑ کیوں نہیں دیتی؟
یاد رکھیے کہ یہ عمر رسیدہ بھی اسی چکی میں پستے پستے وہاں تک آ پہنچی ہے جب دامن میں بدصورت یادوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ عمر کی آخری سیڑھی پہ کھڑی ہاتھ میں بچے کھچے اختیار اور طاقت کا تمغہ تھامے یہ عورت ایک تاراج ذات اور مسخ شدہ شخصیت ہے۔ اس کی آرزوئیں اور اس کی خواہشات ایک چتا میں جل کے کب سے بھسم ہو چکیں، اس کا سادہ محبت بھرا دل پتھر کے ایک ٹکڑے میں ڈھل چکا، اس کی آنکھوں کے آنسو کب سے خشک ہو چکے، اب ان میں راکھ اڑتی ہے۔ کسی اور کا درد محسوس کرنے کی صلاحیت کند ہو چکی، جذبات منجمد ہو چکے۔
سادہ اور ہلکے رنگ کا لباس پہنے، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، زندگی سے بیزار، اپنی بہو بیٹی کو نصیحتوں اور سرزنش کا زہر پلاتی یہ عورت تو پدرسری معاشرے کا تخلیق کردہ ایک مہرہ ہے جس پہ اس نظام کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ اسے معاشرے کو وہی واپس لوٹانا ہے جو اسے بچپن سے ادھیڑ پن تک ملا۔ وہی سبق کہ عورت کی کوئی مرضی اور پسند ناپسند نہیں ہوا کر تی اور سر جھکاکے زندگی گزارنے کا نام ہی اچھی عورت ہے۔
ہماری ایک حاملہ مریضہ میں خون کی شدید کمی تھی۔ ہمارے بار بار کہنے پہ کہ وہ غذا کا خیال کیوں نہیں رکھتی؟ اس نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ سسر صاحب تیزابیت کی وجہ سے بہت کچھ نہیں کھا پاتے، سو ساس صاحبہ ان کی دلداری کے لئے باقی اہل خانہ کو بھی وہی سادہ و مختصر غذا کھانے کی تلقین کرتی ہیں جو سسر کے لئے پکتی ہے۔
دیکھا آپ نے، ادھیڑعمر عورت ایک ایسا ہتھیار، جو پدرسری نظام نے اپنی بقا کے لئے ایک اور عورت کے پر قطع کرنے کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اس کی ذہنی نشوونما اطاعت کی اس ٹوپی کے ذریعے منجمد کی گئی ہے جو اسے بچپن میں پہنا کے شاہ دولے کی چوہیا کے روپ میں ڈھالا گیا۔
اور پھر لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ گھر کے اندر تو عورت عورت پہ ظلم کرتی ہے، آپ اس پہ کیوں نہیں لکھتیں؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
*** ***
(ڈاکٹر صاحبہ، آپ نے عورت سے امتیازی سلوک کو بہو سے ساس تک، ایک ہی صنف کی دو نسلوں میں منتقل ہوتے دیکھا۔ آپ کے مشاہدے سے انکار نہیں لیکن عرض ہے کہ ہم نے ان شاہ دولہ عورتوں کے بطن سے جنم لینے والے لحم معلقہ سے متصف مردوں کی ایک پوری قوم کو بھگتا ہے۔ اگر شرف انسانی کا کوئی تعلق تنقیدی شعور اور حریت فکر سے ہے تو شاہ دولہ کے یہ مرد نما چوہے انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ ہم نے انہیں یونیورسٹیوں، عدالتوں، قانون ساز اداروں، سرکاری محکموں حتیٰ کہ ادب و دانش کے ایوانوں میں بھی مسند اعزاز پر دیکھا ہے۔ پدر سری معاشرہ صرف عورت کو دولہ شاہ کی چوہیا نہیں بناتا، مرد کو بھی ایک مردہ چوہے سے لٹکتا ہوا دو پایہ بناتا ہے۔ کبھی پدر سری معاشرت کے مردوں پر اثرات کے بارے میں بھی لکھیے۔ مجھ سمیت بہت سے پڑھنے والوں کا بھلا ہو گا۔ و – مسعود)