لمبوترا منہ، چھوٹا سا سر، احساس سے عاری آنکھیں، وحشت زدہ چہرہ، ڈھیلا ڈھالا پیوند زدہ لباس، گلے میں منکوں کی مالا، ہاتھ میں کشکول! یہ ہمارے بچپن میں کیے گئے سفر کی اولین یادوں میں سے ایک ہے۔ جب بھی ٹرین گجرات سٹیشن پہ رکتی، وہ گیروے لباس میں ملبوس کمپارٹمنٹ میں داخل ہو جاتا، ساتھ میں ایک بڑی بڑی مونچھوں اور دہکتی آگ سی آنکھوں والا ساتھی ہوتا جو اسے گاڑی میں چڑھاتا یا اتارتا۔ اسے دیکھتے ہی ہم کچھ خوفزدہ ہوتے تو اماں فوراً کہتیں، نہیں بیٹا، ڈرنے کی کوئی بات نہیں، یہ تو اللہ لوک ہے، شاہ دولے کا چوہا! ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایک جیتے جاگتے…
نہ جانے دروازے پہ کون یہ لفافہ چھوڑ گیا ہے۔اٹھا کے چاک کرتے ہوئے سوچتی ہوں۔ بظاہر کوئی دعوت نامہ معلوم ہوتا ہے۔ “شاہ لطیف ٹائون، کراچی میں چولہا پھٹنے سے جھلس کے مر جانے والی کے آنسو پونچھنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آپ کی آواز نقار خانے میں طوطی کے مثل ہی سہی لیکن ہمارے زخموں پہ پھاہا رکھنے کے مانند ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں۔ بے بسی، درد، رنج و الم مجسم حالت میں آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ متمنی شرکت – شہر خموشاں کے باسی” ہاتھوں پیروں میں سکت نہیں ، زبان گنگ ہے، دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہیں۔ کچھ بے بس آنسو گریب…
جب پچھلے سال ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سے میری ملاقات نیاگرا فالز کے RAIN FOREST ریسٹورانٹ میں ہوئی اور میں نے مشورہ دیا کہ آپ مجھے ایک خط لکھیں اور میں اس کا جواب دوں اور ہم دونوں مل کر وجاہت مسعود کے لیے ایک کالم تیار کریں تو وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ’آپ ایک سینیر رائٹر ہیں اور میں ایک جونیر رائٹر۔ میں نے تو‘ ہم سب ’پر ابھی ابھی لکھنا شروع کیا ہے۔ ‘ میں نے ان سے کہا کہ آپ کسرِ نفسی سے کام لے رہی ہیں۔ آپ کا زندگی کا تجربہ ہے ’مشاہدہ ہے‘ مطالعہ ہے ’تجزیہ ہے۔ آپ ایک جہاندیدہ عورت ہیں‘ ایک تجربہ کار گائنیکولوجسٹ ہیں اور ایک WELL READ AND WELL …
ماں! یہ سچ ہے تمہیں میرے لئے بنایا گیا تمہاری آواز مجھے سکون بخشتی ہے تمہارے بازو مجھے جھلانے کے لئے تخلیق کئے گئے تمہارے جسم کی مہک مجھے معطر کرتی ہے ماں! تم مجھے سمجھتی تھیں اور میں تمہیں جانتی تھی تمہیں لگا کہ تم میری رکھوالی کرتی تھیں لیکن میری نظر تمہارا تعاقب کرتی تھی ہر ایک لمحہ تمہاری مسکراہٹ، تمہارا غصہ اور تمہاری غیر موجودگی میں میں تم بننے کی کوشش کرتی جیسے تم گنگناتی تھیں جیسے گیت کے آخر میں تمہاری سانس ٹوٹتی تھی جیسے تم سر کو جھکاتی تھیں روشنی تمہارے چہرے کو منور کرتی تھی جب تم اپ…
Social Plugin