ماں!
یہ سچ ہے
تمہیں میرے لئے بنایا گیا
تمہاری آواز مجھے سکون بخشتی ہے
تمہارے بازو مجھے جھلانے کے لئے تخلیق کئے گئے
تمہارے جسم کی مہک مجھے معطر کرتی ہے
ماں!
تم مجھے سمجھتی تھیں
اور میں تمہیں جانتی تھی
تمہیں لگا کہ تم میری رکھوالی کرتی تھیں
لیکن میری نظر تمہارا تعاقب کرتی تھی
ہر ایک لمحہ
تمہاری مسکراہٹ، تمہارا غصہ
اور تمہاری غیر موجودگی میں
میں تم بننے کی کوشش کرتی
جیسے تم گنگناتی تھیں
جیسے گیت کے آخر میں تمہاری سانس ٹوٹتی تھی
جیسے تم سر کو جھکاتی تھیں
روشنی تمہارے چہرے کو منور کرتی تھی
جب تم اپنی انگلیاں میرے ہاتھ پہ رکھتی تھیں
اور پھر بازو پہ
مجھے لگتا تھا ، مجھے صحت، مضبوطی اور مقدر کی دولت سے مالا مال کر دیا گیا ہو
تم میرے لئے ہمیشہ
تمام خوشیوں کا مرکز رہیں
شیرینی سے گندھی
ہنسی کی پھوار پھوٹتی ہوئی
میں تمہارا شکریہ ادا کرتی ہوں ماں
میں تم سے محبت کرتی ہوں۔
محبت اور حلاوت میں گندھے ہوئے ان الفاظ کی تخلیق کار مشہورِ زمانہ شاعرہ، ادیبہ، ڈرامہ نگار اور سوشل ایکٹیوسٹ مایا اینجلو تھیں جن کی چار اپریل کو 92 سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ 1928 میں پیدا ہونے والی مایا اینجلو نے 2014 میں وفات پائی۔ ان کی عمر ادب کی تخلیق مین بسر ہوئی۔ لکھنے کے بارے میں ان کی رائے دیکھ لیجئے:
“لکھنا ایسا ہی ہے جیسے چلنا پھرنا، باتیں کرنا، پہاڑوں پہ چڑھنا یا سمندر میں تیرنا۔ لکھاری ہونے کے پیچھے ایک ہی فلسفہ ہے کہ لفظ قلم پہ خود بخود اتر آ تا ہے، جو بتاتا ہے کہ ہمارے اندر ایک احساس کا مدو جزر ہے جو لوگوں تک پہنچنا چاہتا ہے”
والدین میں طلاق ہونے کے باعث مایا اینجلو کا بچپن ارکنساس اپنی دادی کے زیر سایہ گزرا۔ یہاں رہنے والوں کے درمیان گورے اور کالے کی تفریق بہت گہری تھی۔ گورے بچوں کا اپنے ہی ہم عمر کالے بچوں کے ساتھ نامناسب سلوک مایا کے دماغ میں بہت سے سوالوں کو جنم دیتا تھا،
“ارکنساس کے پاس عمر رسیدہ کالوں کو نفسیاتی طور پہ بونے سمجھنے کا سالہاسال کا تجربہ تھا۔ گورے بچوں کے پاس اپنے والدین کی عمر کے کالوں کو کسی بھی تحقیر آمیز لفظ سے پکارنے کی کھلی چھٹی تھی “
مایا پر ان مشاہدات و تجربات کے گہرے اثر نے بعد کی زندگی میں اسے انسانی حقوق کا علمبردار بننے میں مدد کی۔
“میں نےسیکھا کہ میری ایک مسکراہٹ بھی کسی دوسرے کے لئے ایک عطیہ ہو سکتی ہے۔ ایک مہربان لفظ، اور تسلی کے لئے بڑھایا گیا ہاتھ بھی گرانقدر تحفہ ہیں۔ میں کسی گرے ہوۓ کو کھڑا ہونے میں مدد دے سکتی ہوں۔ میں دلوں کو جوڑنے والی موسیقی کے سر بکھیر سکتی ہوں “۔
مایا کی زندگی میں ایک قیامت آٹھ برس کی عمر میں آئی وہ اپنی ماں کے گھر رہنے گئی۔ ماں کی غیر موجودگی میں اس کے پارٹنر نے مایا کو ریپ کر دیا۔ صدمے کی شدت سے مایا پانچ سال تک بولنے سے قاصر تھی۔ یہ مایا کی زندگی کا ایک ایسا داغ تھا جسے وہ کبھی نہیں بھول سکی۔
اپنی کتاب ” میں جانتی ہوں کہ قیدی پرندہ قفس میں کیوں گاتا ہے ” میں لکھا،
“مجھے چپ رہنا تھا اور یہ تب ہی ممکن تھا جب میں تمام آوازوں کو جونک بن کے چمٹ جاتی۔ میں سب کمروں میں جاتی جہاں لوگ ہنس بول رہے ہوتے اور ان کی آوازیں پتھروں کی طرح دیواروں سے ٹکرا رہی ہوتیں۔ میں خاموشی سے سب سنتی، ان آوازوں کو لپیٹتی اور کہیں دفن کر دیتی۔ پھر میرے ارد گرد خاموشی چھا جاتی کیونکہ میں اس شور کو ہڑپ نگل چکی ہوتی”
مایا کو زندگی کی طرف واپس لانے والی دادی اور ماں تھیں۔ جن کے متعلق انہوں نے لکھا،
“میں آج جو ہوں وہ اپنی دادی جنہیں میں نے بہت چاہا اور اپنی ماں جن سے عشق کیا، کی وجہ سے ہوں۔ ان کے پیار نے مجھے یقین دیا، تعلیم دی اور اڑنا سکھایا۔ پیار نہ صرف زخم مندمل کرتا ہے بلکہ آزاد بھی کرتا ہے۔ پیار صرف جذبات کا نام نہیں بلکہ ایک ایسی کیفیت ہے جو ستاروں کو اپنی جگہ قائم رکھتی ہے اور جو لہو کو رگوں میں دوڑاتی ہے”
مایا اینجلو نے عمر کا کچھ حصہ مصر اور گھانا میں بھی گزارا جہاں عرب آبزرور اور افریقن ریویو میں کام کیا۔ افریقہ میں گزارے ہوئے ان برسوں نے ان کی ذات پہ گہرے نقوش چھوڑے۔
مایا بیسیوں صدی کی مضبوط ترین عورتوں میں سے ایک قد آور آواز کے طور پہ سامنے آئی۔ حالات کی بھٹی نے اسے کندن بنا دیا تھا۔ مایا کی تحریروں ، شاعری ، ڈراموں اور شوز کو سرکاری طور پہ سراہا گیا۔ 1993 میں صدر بل کلنٹن کی تقریب حلف برداری میں مایا نے اپنی مشہور عالم نظم “صبح کی دہلیز پر” پڑھی۔ امریکی تاریخ میں رابرٹ فراسٹ کے بعد وہ دوسری شاعر تھیں جنہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس نظم نے 1994 میں گرینی ایوارڈ جیتا۔ (اس تحریر کے آخر میں مایا اینجلو کی زبانی 20 جنوری 1993 کی صبح واشنگٹن کے پرامید ہجوم میں پڑھی گئی یہ نظم سن لیجئے۔ 27 برس پہلے “صبح کی دہلیز پر” کھڑے انسانوں کو کیا خبر تھی کہ 2020 کا سورج ڈونلد ٹرمپ کے امریکا میں طلوع ہو گا۔)
ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد قفس میں گانے والا پرندہ بالآخر 2014 میں اس قید سے رہا ہو گیا۔
“تم میرا نام تاریخ میں لکھ سکتے ہو
تلخ جھوٹ کے ساتھ
تم مجھے خاک میں ملا سکتے ہو
لیکن میں پھر اٹھوں گی
کیا تم مجھے بکھرا ہوا دیکھنا چاہتے ہو
جھکا ہوا سر اور نیچی نظر
آنسوؤں کی طرح گرتے ہوئے کندھے
روح سے اٹھتی سسکیاں
تم مجھے اپنے الفاظ سے قتل کر سکتے ہو
تم مجھے اپنی نگاہوں سے کاٹ سکتے ہو
تم مجھے اپنی نفرت سے مار سکتے ہو
لیکن پھر بھی، ہوا کی طرح، میں پھر اٹھوں گی
دہشت بھری راتوں کو بھولتے ہوئے
میں اٹھتی ہوں
ایک روپہلی امید بھری صبح میں
میں اٹھتی ہوں
اپنے آبا و اجداد کا اثاثہ لئے
میں غلامی کا ترک کیا ہوا خواب اور نئی امید ہوں
میں اٹھتی ہوں
میں اٹھتی ہوں
میں اٹھتی ہوں”