جارج میرا ایک برٹش دوست ہے … ایسا دوست جس سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے پورا لندن خلوص اور مسکراہٹوں سے بھرپور لگتا ہے …
میں جب چند دن پہلے پاکستان سے لندن پہنچا تو جارج کو یہ بتانے کے لئے کال کی کہ میں لندن پہنچ گیا ہوں مگر جب اس نے کال اٹینڈ کی تو وہ گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے سبب پوچھا تو اس نے کھانستے ہوئے کہا کہ لگتا ہے اسے کرونا ہو گیا ہے اور وہ پوری فیملی سے علیحدہ ایک کمرے میں بند ہو گیا ہے…. میں نے جب پوچھا کہ خرابی طبیعت کو کتنے دن ہو گئے ہیں تو اس نے بتایا چھٹا دن ہے مگر کل کا دن یعنی پانچواں دن اتنا مشکل تھا، اتنی سخت کھانسی تھی کہ اسے لگتا تھا وہ اسی میں مر جائے گا۔ بخار بھی بہت زیادہ تھا اور تھکاوٹ و سر درد سے جسم بے حال تھا …. میں نے اسے تسلی دی اور حوصلہ بڑھایا کہ آخر وہ recover ہو رہا ہے اور سب غم مٹ جائیں گے ایک دن …
کچھ دن گزر گئے اور میں مصروف ہو گیا اپنی زندگی میں …….. دو دن پہلے میں نے اس کی طبیعت پوچھنے کے لئے اسے کال کیا، مگر اس نے کال اٹینڈ نہ کی … میں پریشان ہو گیا … اور پھر میں نے وٹس ایپ پر مسیج چھوڑا … میسج ڈیلیور ہو گیا مگر جواب نہ آیا …. کل کوشش کی مگر نہ کال وصول کی گئی اور نہ ہی کسی میسج کا جواب آیا …. گزشتہ رات کو سونے سے پہلے میں نے اسے میسج کیا کہ جارج میں بہت پریشان ہوں تمہارے لئے، اپنی خیریت کے بارے میں خبر تو کر دو پلیز …. اور پھر آج سہ پہر کو اس کے نمبر سے کال آ گئی …
اس نے بتایا کہ کرونا سے لڑتے لڑتے وہ تھک گیا ہے، آج بارہواں دن ہے …. پانچویں دن اسے لگا کہ شاید اس کی آج آخری شام ہے …. اس نے ایمرجنسی سروس کال کی تو اسے کہا گیا کہ اسے سانس صحیح آ رہی ہے؟ اس نے ہاں میں جواب دیا تو اسے کہا گیا کہ پریشان نہ ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا – روزانہ بخار ہوتا ہے، سانس پھنس پھنس کر آتی ہے، کھانسی کے ایسے دورے پڑتے ہیں کہ لگتا ہے کبھی نہیں رکے گی … اب تک تین بار ایمرجنسی نمبر پر کال کر چکا ہے اور جواب وہی ہے جب تک سانس صحیح آ رہی ہے وہیں رکے رہو۔ جب لگے کہ اب سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے تو فورا کال کرو …. اسے پیراسٹامول تجویز کی گئی ہے، گرم مشروبات اور آرام ….وہ ایک کمرے میں بند ہے مکمل تنہائی اور بے چینی ….
میں نے افسوس کیا اور اسے تسلی بھی دی کہ جارج جب تم ٹھیک ہو گئے تو خود کو خوش قسمت سمجھو گے، تم میں اس بیماری کے خلاف immunity پیدا ہو چکی ہو گی، تم باہر جا سکو گے، حسین لڑکیاں دیکھ سکو گے …. تم آزاد ہو گے… ہمیں دیکھو جانے کب تک قید رہیں ….
اگر اس بیماری کے اتنے ہی فائدے ہیں تو آ جاؤ میں تمہیں hug کروں …….. اس نے مجھے چڑ کر جواب دیا
میں ہنس دیا اور پھر وہ مجھے سمجھانے لگا زیشن (برٹش مجھے زیشن کہتے ہیں انگریزی لہجے کے سبب) اس بیماری کو سنجیدہ لو، اس سے بندہ مرتا شاید نہیں، مگر گلے میں ایسی اذیت ناک تکلیف ہوتی ہے کہ کیا بتاؤں، ایسی بدترین کھانسی مجھے کبھی نہیں ہوئی …. گھر پر رہا کرو پلیز، رسک نہ لو، جوانی کا غرور نہ کرو ..
کھانسی کا نہ رکنے والا سلسلہ تھا جو جب شروع ہوتا رکنے میں نہیں آتا تھا ….. وہ دو چار جملے بول کر تین چار بار کھانستا تھا اور جب وہ تھوڑا زیادہ بول لیتا تو پھر کھانسی کا ایک لمبا سلسلہ چل پڑتا … میں نے اسے بارہا کہا کہ ہم کچھ دن بعد بات کر لیں گے تم ریسٹ کرو، مگر وہ بات کرنا چاہتا تھا شاید تنہا تھا اس لئے یا پھر ہمارے درمیان دوستی کا احساس ایسا تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ ہم بات کرتے رہیں …
میں نے اسے کہا جارج ایک بات ہے۔ تم اکیلے ہو کمرے میں، وقت بھی بہت ہے اور کوئی کمرے میں آ بھی نہیں سکتا، پورن دیکھنے کا اس سے بہتر وقت بھی بھلا کوئی ہو سکتا ہے؟ کہو تو اچھے اچھے لنکس بھیجوں؟
یہ پہلی بار تھا کہ وہ گفتگو میں کھل کر ہنسا اگرچہ کھانسی کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا … وہ ہنستا رہا کھانستا رہا اور میں سوچتا رہا کہ پورن کیسی دلچسپ چیز ہے کہ ایک شخص جو ناقابل برداشت بیماری اور تنہائی بھگت رہا ہے اس کا ذکر سنتے ہی ہنس دیا ہے اور قہقہے مارنے پر مجبور ہے، انسانی نفسیات بھی کتنی دلچسپ چیز ہے …. میرا دوست ہنس دیا تھا مجھے اور کیا چاہئے تھا، میرے من کو قدرے تسکین ملی …
خدا جارج کو جلدی سے اچھا کر دے۔ وہ کرونا سے جنگ جیت جائے اور پھر ہم دوبارہ سے مل بیٹھیں اور صحت مند بے خوف زندگی کا لطف اٹھائیں۔