ضلع اواران کا تعلیمی نظام اب بھی ایکٹنگ افسر ان کے سہارے چل رہا ہے۔ عدالت عالیہ کے احکامات کی روشنی میں محکمہ تعلیم میں بڑے پیمانے پر تقرریاں و تبادلے کیے گئے۔ جس سے لگ یہی رہا تھا کہ ان تقرری و تبادلوں کے نتیجے میں تعلیمی نظام میں بہتری آئے گی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ کچھ ہی عرصے بعد ماضی کے فارمولے دوبارہ آزمائے جانے لگے۔ اور نچلے درجے کے افسر ان کو بھاری ذمہ داریاں سونپی گئیں جنہیں وہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
آرگنائزر بلوچستان ایجوکیشن سسٹم شبیر رخشانی نے کہا کہ محکمہ تعلیم ضلع آواران کی تین اہم پوزیشنوں پر اس وقت تین ایسے افراد کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے قاصر ہیں جن کا عملی مظاہرہ حالیہ دنوں میں انٹرنیز اساتذہ کے معاملے کو ڈیل کرتے ہوئے دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم بلوچستان ایجوکیشن سسٹم نے پانچ ماہ کی ایک طویل جدوجہد کے بعد ضلع آواران کا وہ تعلیمی خاکہ سامنے لے آیا جو سب کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔
بلوچستان ایجوکیشن سسٹم نے اپنی اس مہم کو آواران تک محدود رکھا مگر یہ خاکہ پورے بلوچستان کا تعلیمی خاکہ تھا جس کے تمام پہلو تمام اضلاع میں نمایاں نظر آتے ہیں اور دورانِ مہم ہم نے اس بات کا عمومی مشاہدہ کیا کہ نچلے درجے کے افسر ان اپنی پوزیشنز کو بچانے اور معاشی فوائد کے حصول کے لیے ایسے اقدامات سے گریز کرتے ہیں جو تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے ہو۔ انہوں نے کہا اس وقت پوری دنیا ایک وبا کی لپیٹ میں ہے تعلیمی ادارے بند ہیں مگر ذمہ داران کی پالیسیاں جو وہ ترتیب دے رہے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے حالیہ دنوں میں انٹرنیز اساتذہ کو لے کر کیا ہے اس کے بعد ان کی اہلیت پر سوال اٹھاتی ہے اور صوبائی ذمہ داران سے مطالبہ کرتی ہے کہ مذکورہ پوزیشنز پر اہل افسر ان کی تعیناتی عمل میں لے آئیں جو فیصلے کرنے میں آسانی محسوس کر سکیں۔