اعلی قیادت کا مالی و جنسی کرپشن سے پاک دامن ہونا نظام کی بقا کے لئے ناگریز ہے جبکہ بلوچستان میں سب مختلف ہے۔ اگر آپ کی پشین ریسٹ ہاؤس میں کسی مالی کے ساتھ جان پہچان ہو تو آپ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اعلی افسران میں سے کون کسی نامحرم خاتون کے ساتھ کوئٹہ سے گاڑی خود چلاتے ہوئے رات گئے تک وہاں موجود رہتے ہیں۔ بلوچستان میں حکومت کی کارکردگی نہ ہونے کا عام آدمی کا رونا دھونا اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ لیکن اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ وزیراعلی کے قریب رہنے والے وزیر بھی اکثر محکموں کی سیکرٹریز کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے نظر آرہے ہیں اور ان کا تبادلہ وزیراعلی کے اختیار سے باہر سمجھتے ہیں- وزیراعلی خود اپنے سابق پرنسپل سکریڑی کو کس قدر تگ ودود کے بعد تبدیل کر سکے ہیں۔
انتہا یہ ہے کہ عدالت عالیہ کے احکامات پر عمل درآمد بھی نہیں ہو رہا، وزیراعلی کے احکامات پر کیسے ہوگا۔ ایک نان کیڈر شخص کو سپریم کورٹ کے احکامات کی توہین کرتے ہوئے سکریڑی ایس اینڈ جی اے ڈی بلوچستان لگایا گیا ہے جس کے متعلق تقریبا تین ماہ قبل چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اوپن کورٹ میں سکریڑی ایس اینڈ جی اے ڈی کی خلاف قانون تعیناتی کے خلاف دائر درخواست میں انہیں تبدیل کرنے کا بیان دے چکے ہیں لیکن وہ نہ صرف تاحال اپنی پوسٹ پر موجود ہیں بلکہ کچھ دن قبل وہ وزیراعلیٰ کی اجازت کے بغیر چیف سیکرٹری کے ہمراہ اسلام آباد چلے گئے تھے۔
جب کسی کام کے سلسلے میں وزیراعلیٰ نے ان کو طلب کیا تو ان کو بتایا گیا کہ سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی بلوچستان میں نہیں بلکہ اسلام آباد گئے ہوئے ہیں جس پر وزیر اعلیٰ نے ان کو کال کی کہ آپ میری اجازت کے بغیر کس طرح اسلام آباد چلے گئے کیونکہ آپ کے خلاف رولز آف بزنس کے تحت میں اصل اختیارات کے تحت کارروائی کا حکم دوں۔ جس کے بعد وزیر اعلی بلوچستان نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے تحریری حکم چیف سکریڑی کے نام جاری کیا جس میں موجودہ سیکرٹری ایس انیڈ جی اے ڈی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے اور نئے سیکرٹری ایس انیڈ جی اے ڈی کے لئے چار افسران پر مشتمل پینل ارسال کرنے کا حکم چیف سیکرٹری کو دیا جب یہ احکامات کا خط چیف سیکرٹری کے پاس آیا تو انہوں نے اس پر کارروائی کرنے کے بجائے فائل لکھ کر یعنی اس پر کوئی کارروائی نہ کرنے کا حکم دے کر سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔
یہ حکومت کے اختیارات کو چیلنج کرنے اور حکومت کو مفلوج بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کی وجہ سے وزراء بھی اپنا وجود اور اپنی اتھارٹی منوانے کے لیے تشدد پر اتر آئے ہیں کیونکہ یہاں مدلل بات سنی نہیں جاتی۔ جانوروں کے ریوڑ کی طرح سب کو ڈنڈے کے زور پر ہانکا جاتا ہے جبکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حکومتی وزرا حکومت کے احکامات کو تسلیم کرانے کی خاطر تشدد پر اتر آئے ہیں جب دو فریقین کے درمیان کوئی بات سمجھنے یا سمجھانے کا عمل کام نہیں آتا ہو تو تب تیسرا عمل تشدد کا عنصر خود جنم لیتا ہے۔
وزیرزراعت زمرک خان اچکزئی نے سیکریٹری صحت کو بار بار فون کیا لیکن سکریڑی نے بات کرنا مناسب نہیں سمجھی اور ہر بار میسجز ملنے کے باجود وزیر کی فون کال کو نظرانداز کر دیا۔ جس کے بعد وہ سیکریٹری صحت کے دفتر آئے اور ان کونہ صرف تھپڑ رسید کر دیا۔ بلکہ ان پر کرسی کا وار بھی کیا اور سکریڑی سائیڈ روم میں فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ مجھے اس بات پر قطعی طور پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی بلکہ مجھے اس طرح کا واقعہ رونما ہونے کی توقع بہت عرصے سے تھی۔
آخر وہ کیا عوامل تھے جن کی بناء پر یہ واقعہ سرزد ہوا۔ آیا ہماری گورنمنٹ مشینری فیل ہوگئی ہے۔ سروس ڈلیوری ختم ہوچکی ہے یا با اختیار عوامی نمائندوں کا اختیار سلب کردیا گیا ہے جو ہر کام کو زور زبردستی سے کروانے پر یقین رکھنے لگے ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو۔ لیکن ایک بات مسلمہ ہو چکی ہے کہ سیلیکٹڈ حکومت گورننس کے معاملات میں بالکل زیرو ہو چکی ہے۔ جب گورنمنٹ مشینری اوپر سے نیچے تک کرپٹ اور نا اہل لوگوں پر مشتمل ہو گی تو اس قسم کے واقعات کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔
جہاں کرپشن بد انتظامی اور بد دیانتی میں بالادست طبقات باہم ملے ہوئے ہوں اسے تباہ کرنے کے لیے کسی فوج کشی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وینزویلا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تیل کے بہت بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں لیکن کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے لاکھوں لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں وہاں بھوک اور افلاس کا ڈیرہ ہے۔ دواوں کی قلت ہے۔ بیروزگاری عروج پر ہے۔ گورنمنٹ مشینری بری طرح فیل ہو چکی ہے۔ آئیے فیصلہ کریں کہ اپنے مفادات کو ملکی مفادات کا نام نہ دیں۔