نہ جانے دروازے پہ کون یہ لفافہ چھوڑ گیا ہے۔اٹھا کے چاک کرتے ہوئے سوچتی ہوں۔ بظاہر کوئی دعوت نامہ معلوم ہوتا ہے۔
“شاہ لطیف ٹائون، کراچی میں چولہا پھٹنے سے جھلس کے مر جانے والی کے آنسو پونچھنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آپ کی آواز نقار خانے میں طوطی کے مثل ہی سہی لیکن ہمارے زخموں پہ پھاہا رکھنے کے مانند ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں۔ بے بسی، درد، رنج و الم مجسم حالت میں آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
متمنی شرکت – شہر خموشاں کے باسی”
ہاتھوں پیروں میں سکت نہیں ، زبان گنگ ہے، دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہیں۔ کچھ بے بس آنسو گریبان بھگوتے ہیں، لیکن ہمیں جانا ہے بنت حوا کی اس محفل میں چاہے کلیجہ پھٹ ہی کیوں نہ جائے۔
شام کا جھٹپٹا ہے، سرسراتی ہوا کا شور جیسے دور کوئی ماں بین کر رہی ہو۔ سورج منہ چھپانے کو ہے، پرندے نڈھال ہیں، اور وہ قطعه گیتی کربلا سے کم معلوم نہیں ہوتا۔
عورتیں، کم عمر لڑکیاں، بچیاں، پتھر آنکھیں اور اذیت کی منجمد تصویریں!
وہ اپنے آبلوں بھرے ہاتھ سے، جس سے جلد اور گوشت علیحدہ ہو چکے ہیں اور ہڈیاں جھانک رہی ہیں، میرا ہاتھ تھامتی ہے۔ پورا جسم چولہے میں پڑی ادھ جلی لکڑی کی مانند سیاہ پڑ چکا ہے۔ آنکھوں کے غاروں میں سیاہی ہے، ناک منہ سب پگھل چکے ہیں، اس کی آواز میں آگ کے شعلوں سی لپک ہے۔
“کیا آپ نے کبھی گرم کوئلوں پہ کسی ذبح شدہ جانور کے گوشت کو پکتے دیکھا ہے جب لال رنگت آگ کی حرارت سے بدل جاتی ہے۔ گوشت کی چربی پگھل پگھل کے کوئلوں پہ گرتی ہے اور اگر کبھی آگ تیز ہو تو گوشت جل کے سیاہ پڑ جاتا ہے۔
میرا جسم بھی ایسے ہی جلا، تیز انگاروں میں، میں زندہ حالت میں ہی جل کے کوئلہ ہو گئی۔ میں اپنی چیخیں سنتی تھی اور درد مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کرتا تھا کیا یہ جہنم کی آگ تھی؟ لیکن اس آگ کو بھڑکانے والا خدا تو نہیں تھا!
میری شادی ہوئے دو ہی مہینے گزرے تھے۔ ہم دونوں بہت خوش تھے۔ میری ساس کچھ خفا سی رہتی تھی ہم اسے پہناؤنی میں سونے کے جھمکے نہیں دے سکے تھے۔ اتنے پیسے نہیں تھے نا ابا کے پاس۔ اس دن میں نے چائے بنانے کے لئے چولہا جلایا تو سمجھیے سانپوں جیسے شعلوں کی لپٹیں تھیں جنہوں نے میرا جسم بھسم کر ڈالا۔ میں دروازہ پیٹ رہی تھی لیکن نہ معلوم کیوں نہیں کھلا؟ میرا شوہر تو باہر ہی تھا اور اسی نے چائے بنانے تو بھیجا تھا۔ سنا تھا شوہر مر جائے تو بیوی کو اس کے ساتھ جل کے مرنا پڑتا تھا لیکن میرا شوہر تو باہر ماں کے پاس بیٹھا تھا۔ اب بھی اس دھوئیں سے میرا دم گھٹتا ہے۔ اماں بہت یاد آتی ہیں”
میں آنسو چھپانے کی خاطر منہ دوسری طرف پھیر لیتی ہوں جہاں ایک کم عمر لڑکی کراہ رہی ہے
” میں گھر سے سکول جا رہی تھی۔ وہ چار تھے مجھے پکڑ کے پاس والے کھیت میں لے گئے۔ بہت درد تھا، میں بہت روئی بہت تڑپی لیکن ان کی ہوس تھی کہ ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔ ایک کے بعد ایک! وہ تو اچھا ہوا اللہ نے مجھے لینے کے لئے عزرائیل بھیج دیا۔ خوف سے اب بھی نیند نہیں آتی”
وہ پیلی رنگت والی ادھیڑ عمر، جس کے چہرے سے بے چارگی پھوٹتی ہے۔
” دنیا میں شوہر کی مارپیٹ جسم پہ نیل چھوڑتی تھی۔ سوچا تھا دفن ہو کے چین آئے گا۔ قبر کی پہلی رات میں خوش تھی، تنہائی، اندھیرا اور سکون! ٹھوکر مار کے کمینی کہہ کے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ لیکن اس رات بھی، اس رات بھی مجھے چھ فٹ مٹی کے نیچے سے نکال لیا گیا۔ میرے جسم پہ میری مرضی مرنے کے بعد بھی پوری نہ ہوئی۔ پوری رات ان تینوں نے یہ وحشیانہ کھیل میرے ساتھ کھیلا۔ سمجھ نہیں آئی کیا میں قبر میں لیٹی ہوئی بھی بے حیائی کی مرتکب تھی، یا قبر میں پڑا میرا جسم اللہ کی امانت نہیں تھا؟ “
ایک پتھر صورت آگے بڑھتی ہے،
” کیسے بتاؤں کہ جب میں گاؤں کی گلیوں میں ہزاروں کے مجمعے میں سے ننگی گزاری گئی۔ کوئی میرے بدن کو کہیں سے کاٹتا، کوئی کہیں سے کچوکے دیتا۔ وہ سب وحشی جانور تھے اور میرے بدن پہ ان کی مرضی ہر جگہ پہ نیل ڈالتی تھی۔ چھتوں پہ چڑھے لوگ تماشا دیکھ کے ہنستے تھے اور میں اس بدن سے نفرت کرتی تھی۔ ابھی بھی اس بدن سے نفرت ہے مجھے ، جس پہ ان کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں۔ اب میں ایک پتھر کی عورت ہوں “
کوئی میرا دامن کھینچتا ہے ، وہ پریوں جیسی بچی جس کے آنسو گال پہ سے پھسل رہے ہیں
” میں تو صرف ٹافی لینے نکڑ کی دوکان تک گئی تھی۔ اس انکل نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور کہا کہ آؤ غبارہ بھی لے دوں۔ مجھے غبارہ اچھا لگتا تھا نا جب وہ آسمان پہ اڑتا تھا۔ پتہ نہیں انکل نے مجھ سے گندی حرکتیں کیوں کیں۔ میرے رونے پہ میرے منہ پہ تکیہ رکھ دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں آسمان پہ اڑ رہی ہوں اور میرے پاس بہت سے غبارے ہیں۔ مجھے اپنا گھر یاد آتا ہے “
ایک اور معصوم صورت میری آستین پکڑتی ہے،
” مولوی صاحب جب بھی سیپارہ پڑھانے آتے، جوتا اتار دیتے۔ پھر میز کے نیچے سے میری ٹانگ پہ آہستہ آہستہ اپنا پاؤں پھیرتے۔ جونہی اماں آتیں. پاؤں ہٹا لیتے۔ ایک دن میں گلی میں کھیل رہی تھی، مجھے کہنےلگے کہ انہوں نے میرے لئے گڑیا خریدی ہے۔ میں گڑیا لینے ان کے ساتھ گئی۔ پھر مجھے بہت درد ہوا، میں بہت روئی۔ میں نے سبق یاد کرنے کا وعدہ کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ اماں مجھے ڈھونڈتی ہی رہی لیکن میں کیسے ملتی؟ میں تو اس رات پچھلی گلی میں کوڑے کے ڈھیر پہ پڑی تھی اور گلی کے کتے اپنے پیٹ کی بھوک مٹا رہے تھے”
وہ سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتی ہیں۔ درد بھری آواز میں ایک لے میں کچھ کہتی ہیں،
سنتے ہیں کہ تیرا پیار
ستر ماؤں کے پیار پہ بھاری ہے
سنتے ہیں کہ تیرا عدل
فرق روا نہیں رکھتا
سنتے ہیں کہ خالق تو ہے،
زندگی پھونکنے والا تو ہے
اختیار تیرا، سانسیں تیری، دنیا تیری، بندے تیرے، جنت و دوزخ تیری
اتنا بتا دے مالک
عورت کون ہے؟
اس کا آقا کون ہے؟
اس سے زندگی چھیننے والا کون ہے؟
شہر خموشاں سے ہم کچھ آگ اپنے ساتھ لے آئے ہیں جو نہ بجھتی ہے نہ جینے دیتی ہے!
(بہت برس پہلے ہمارے بچوں کی آیا کبری بی بی کی بڑی بیٹی سسرال میں چولہا پھٹنے سے جل کے چل بسی۔ تب سے دل کے ایک گوشے میں اس کی یاد دھری تھی جو کل کراچی میں اس جیسی ایک معصوم کے مرنے سے زندہ ہو گئی۔)