ڈاکٹر طاہرہ کاظمی: میری ادیب اور طبیب دوست

جب پچھلے سال ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سے میری ملاقات نیاگرا فالز کے RAIN FOREST ریسٹورانٹ میں ہوئی اور میں نے مشورہ دیا کہ آپ مجھے ایک خط لکھیں اور میں اس کا جواب دوں اور ہم دونوں مل کر وجاہت مسعود کے لیے ایک کالم تیار کریں تو وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ’آپ ایک سینیر رائٹر ہیں اور میں ایک جونیر رائٹر۔ میں نے تو‘ ہم سب ’پر ابھی ابھی لکھنا شروع کیا ہے۔ ‘ میں نے ان سے کہا کہ آپ کسرِ نفسی سے کام لے رہی ہیں۔ آپ کا زندگی کا تجربہ ہے ’مشاہدہ ہے‘ مطالعہ ہے ’تجزیہ ہے۔ آپ ایک جہاندیدہ عورت ہیں‘ ایک تجربہ کار گائنیکولوجسٹ ہیں اور ایک WELL READ AND WELL TRAVELED انسان ہیں لیکن وہ نہ مانیں اور میں خاموش ہو گیا۔
آج میں نے ان کا نیا کالم پڑھا تو مجھے اچانک خیال آیا کہ اب تو وہ بھی ایک سینیر رائٹر بن چکی ہیں۔ اگر میرے تین سو کالم چھپے ہیں تو ان کے بھی ’ہم سب‘ پر ایک سو پچاس کالم چھپ گئے ہیں۔
جب میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک مالٹے کا تصور ابھرتا ہے جو اوپر سے کڑوا اور اندر سے میٹھا ہوتا ہے۔ مالٹا سیب اور ناشپاتی کی طرح نہیں ہوتا کہ آپ اسے ویسا ہی کھا لیں جیسا کہ وہ ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی مالٹے کی طرح ہیں۔ پہلے آپ کو چھلکا اتارنا ہوگا تا کہ آپ کی رسائی اس کی میٹھی قاشوں تک ہو سکے۔
یہ کڑوا چھلکا کیا ہے؟ ہمارے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ایک لکھاری ہی نہیں ایک سرجن بھی ہیں۔ ان کا قلم ان کا سماجی نشتر ہے۔ وہ جیسے آپریشن تھیٹر میں اپنی مریضاؤں کے زخموں پر نشتر چلاتی ہیں تا کہ پیپ بہہ جائے ’زخم مندمل ہو جائیں اور مریضائیں صحت مند ہو جائیں۔ اسی طرح وہ بیمار معاشرے کے زخموں پر قلم سے نشتر چلاتی ہیں تا کہ پدر سری نظام کے پروردہ مردوں کی چالاکی اور عیاری‘ تعصب اور تشدد کے پردے چاک ہوں۔ وہ بے خوف ہو کر اپنے معاشرے کی متعصابہ ’جارحانہ اور ظالمانہ روایات پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ایک جدید سوچ کی مالک ہیں۔ وہ ترقی پسند نظریات رکھتی ہیں۔ وہ امن اور آشتی کے آدرش رکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتی ہیں جہاں مرد اور عورتیں برابر ہوں گے اور ماں باپ بن کر اپنائیت خلوص اور محبت سے اپنے بچوں کا خیال رکھیں گے۔ وہ مرد اور عورت کے آقا اور کنیز کی نہیں دو دوست بن کر زندگی گزارنے کے حق میں ہیں۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ادب دوست ہیں وہ جہاں اردو ادب کی دلدادہ ہیں وہیں عالمی ادب سے بھی محبت کرتی ہیں۔ خاص طور پر تانیثی ادب سے جس نے پچھلی دو صدیوں میں عورتوں کی آزادی اور خودمختاری کی تحریک کو تیز سے تیز تر کیا ہے اور عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے خود جنگ لڑنی شروع کی ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی اپنے کالموں میں عورتوں کے توانا کرداروں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ چاہے وہ مذہبی کردار بیبی زینب کا ہو، ادبی کردار مایا انجلو کا ہو یا ذاتی زندگی کا کردار اپنی والدہ کا ہو۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے قلم کی کڑواہٹ جس سے وہ ظالم مردوں کی منافقت کے خلاف حملہ آور ہوتی ہیں خود بخود مٹھاس میں ڈھل جاتی ہے جب وہ اپنی والدہ اور اپنی بیٹی اور اپنے ارد گرد کی ساری ماؤں اور ساری بیٹیوں کے بارے میں لکھنا شروع کرتی ہیں۔ ایسے موقع پر ان کے قلم میں محبت ’پیار خلوص اور اپنائیت کوٹ کوٹ کر بھر جاتی ہے اور‘ ہم سب ’کے کالموں سے شیرینی ٹپکنے لگتی ہے۔ ایسے موقعوں پر مجھے اقبال کا شعر یاد آتا ہے
ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
ہو رزمِ حق و باطل تو فولاد ہے مومن
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی جو بات بھی کہنا چاہتی ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کہتی ہیں۔ وہ گول مول باتیں نہیں کرتیں وہ POLITICAL CORRECTNESS کا بالکل خیال نہیں رکھتیں۔ وہ کھری باتیں کھرے انداز سے لکھتی ہیں۔ وہ اپنے سچ کا برملا اظہار کرتی ہیں۔ وہ اتنا سچ کہتی ہیں کہ بعض دفعہ لوگوں سے ان کا سچ ہضم نہیں ہو پاتا اور لوگ ان سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ ایسے انسانوں اور لکھاریوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا تعلق ادیبوں کے اس قبیل سے ہے جس میں عصمت چغتائی ’سعادت حسن منٹو‘ ساقی فاروقی اور اوسکر وائلڈ جیسے ادیب شامل ہیں۔ ایسے ادیبوں سے یا لوگ شدت سے نفرت کرتے ہیں اور یا وہ انہیں ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ چاہنے والے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کیونکہ وقت کا نشتر مالٹے کا چھلکا اتار دیتا ہے اور ان کے من میں چھپی مٹھاس لوگوں کے دلوں اور ذہنوں تک پہنچنا شروع ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ ایسے لکھاری کسی انسان کے خلاف نہیں بلکہ ان بوسیدہ روایتوں کے خلاف ہیں جن کی وجہ سے انسان دکھی ہیں۔ ایسے ادیب اور دانشور انسانوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنا چاہتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا کرنے کے لیے انہیں قلم کو نشتر کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی! آپ میری ادیب اور طبیب دوست ہیں۔ میری سیکولر دعا ہے کہ آپ لکھتی رہیں۔ ’ہم سب‘ پر چھپتی رہیں اور سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑتی رہیں۔ میں آپ کے کالم بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہوں اور دل ہی دل میں مسکراتا ہوں۔ آپ کی اور میری دوستی ایک خدا کو ماننے والی اور ایک خدا کو نہ ماننے والے کی دوستی ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ مجھے ایک مرد ہونے کے باوجود ایک دوست سمجھتی ہیں اور ہم دونوں کا دو طرفہ عزت و احترام کا رشتہ ہے جو آج کے دور میں اور وہ بھی مشرقی دنیا میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ مجھے آپ جیسی ادیبہ کی دوستی پر فخر ہے۔
آپ کا ادیب اور طبیب دوست
خالد سہیل، کینیڈا