حسد اور رشک نفسیاتی حوالے سے ملتے جلتے جذبے ہیں۔ حسد، حد درجہ منفی اور رشک، بہت حد تک مثبت جذبہ تصور ہوتا ہے۔ ویسے تو ملتی جلتی اشیا میں اکثر بال برابر فرق ہوتا ہے، یہی مہین فرق انہیں اک دوجے سے ممتاز کرتا ہے۔ حسد میں انسان سوچتا ہے کہ کسی دوسرے میں کوئی صلاحیت، کوئی امتیاز، کسی طرح کے وسائل یا سہولت کیوں ہیں۔ انہیں نہیں ہونا چاہیے۔ خواہش کرتا ہے کہ اس کا یہ سب پا مال ہو جائے۔ اس کے بر عکس رشک کرنے والی کی نظر بھی دوسرے کی صلاحیتوں، امتیاز اور وسائل و سہولیات پر ہوتی ہے۔ البتہ یہ خواہش نہیں رکھتا کہ دوسرے کا یہ سب کچھ پا مال ہو جائے، بلکہ دل میں خواہش کرتا ہے کہ کاش اس کے پاس بھی یہ سب کچھ ہو۔
حسد اور رشک میں تفریق کرنے کے بعد، اصل بات کی جانب آتے ہیں۔ معاند ملکوں کی ایجنسیاں ایک دوسرے کے خلاف ایسی ہی مذموم کارروائیاں کیا کرتی ہیں بلکہ کچھ ایجنسیاں تو بعض اوقات غیر جانب دار اور معصوم ملکوں میں بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر بہت کچھ نا قابل قبول، قابل مذمت تا حتٰی غیر انسانی تک کرنے سے نہیں چوکتیں۔ اس بارے میں ایک کتاب ”وارز آف سی آئی اے“ پڑھ لیں، جس میں امریکا کی اس ایجنسی کے آشکار کردہ دستاویزات کے حوالے ہیں۔ یاد رہے سی آئی اے، سول ایجنسی ہے جو چاہے تو اپنے کچھ کرتوت ملک کے صدر اور کانگریس تک سے خفیہ رکھے۔ اس کے برعکس آئی ایس آئی فوج سے متعلق خفیہ ایجنسی ہے، یعنی ”انٹر سروسز انٹیلیجنس“ جس کا بنیادی مقصد فوج کے اندر معاملات کے بگاڑ سے متعلق مطلع رہنا ہے، مگر یہ اندرون ملک اور بیرون ملک تمام اعمال و افعال میں دخیل ہے۔
اس ایجنسی کی یہی ہمہ نوع دخل اندازی پاکستان کے لوگوں کی اس کے خلاف حسد کی وجہ بنی ہے کہ اس ایجنسی کو اتنے اختیارات کیوں ہیں۔ جس طرح ایک زمانے میں طالبان اور پھر داعش کسی بھی دہشت گردی یا انسان کش واقعے کی ذمہ داری خوام خواہ قبول کیے جاتے تھے، اس طرح پاکستان میں لوگوں کا ایک حصہ ہر تکلیف دہ واقعے کو، چاہے وہ ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی دیا جانا ہو، لوگوں کا غیاب ہو یا تشدد زدہ لاشوں کا ملنا ہو، آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ جب کہ سزائیں دینے کو ملک میں عدالتیں ہیں، طاقت سے وابستہ دیگر ادارے ہیں، کئی ناموں کی خفیہ ایجنسیاں، دہشت گرد گروہ، ریاست مخالف عناصر، مجرمانہ جتھے سب کچھ موجود ہے۔
سی آئی اے کی بات تو ہم نے کی، اس کے علاوہ دوسرے ملکوں کی ایجنسیوں کو دیکھ لیں، ایم آئی 6 ہے، موساد ہے یا اور بہت سی دوسری۔ سب کچھ نا کچھ غلط کرتی رہتی ہیں۔ البتہ عموماً اپنے ملکوں سے باہر۔ پھر معترضین یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان دوسرے ملکوں کی ساخت کیا ہے۔ ظاہر ہے ان ملکوں میں سپین کے علاوہ ہر ملک میں ایک عرصے سے ماسوائے جمہوریت کے اور کسی طرح کی حکومت نہیں رہی۔ اس کے بر عکس ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کم سے کم پینتالیس سال فوج برسراقتدار رہی، جس کے طفیل اس ادارے کی خفیہ ایجنسی، ملک کی باقی سول خفیہ ایجنسیوں کی نسبت زیادہ با اختیار، زیادہ با وسائل اور زیادہ فعال ہو گئی۔
ملک میں اگر سول ادارے مضبوط ہوتے، پہلی بات تو یہ کہ لوگوں کے عمومی اور کمتر آبادی والے خطوں اور قوموں کے خصوصی حقوق سلب ہی نہ ہوتے۔ ان کو ان کا جائز حق ملتا۔ ان کو نارسائی کا احساس نہ ہوتا۔ چناں چہ نہ نفرت پلتی نہ بغاوت ہوتی۔ اگر کچھ ریاست مخالف گروہ یا افراد مذموم اعمال کرتے بھی، تو ملک کی سول خفیہ ایجنسیاں اور طاقت سے وابستہ ادارے ان سے نمٹ لیتے اور نمٹنے کے انداز بھی نہ زیادہ جارحانہ ہوتے اور نہ زیادہ غیر انسانی۔ زیادہ جارحیت اور غیر انسانی اعمال اختیار کیے جانا، زیادہ اختیارات کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ایجنسیاں چاہے وہ سول ہوں یا فوجی، ملک کے اندرونی معاملات پر کڑی نگاہ رکھنے والی ہوں یا ملک سے باہر جاسوسی کرنے اور کارروائیاں کرنے والی، ان کا کام ریاست کے مفادات کو قائم رکھنا اور بڑھانا ہوتا ہے۔ ریاست ویسے تو ہے ہی جبر کا آلہ، مگر چوں کہ ہے، اس لیے اس کی خفیہ ایجنسیاں بھی ہوتی ہیں، جو ریاست کے کسی بھی ستون کو تھوڑا سا گزند پہنچانے والے کو معاف نہیں کیا کرتیں، کیوں کہ اگر وہ اغماض برتیں تو معاملات بگڑ جاتے ہیں، جیسے ہمارے یہاں بگڑے ہوئے ہیں اور بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہو تا کہ سول ادارے بھی مضبوط ہوں۔ ملک کے تمام اداروں کے اختیارات و فرائض کا سختی سے تعین ہو۔ سول ایجنسیوں کو زیادہ با اختیار ہونے کا موقع مل سکے۔ سول اداروں میں پرخاش ہونا، کوئی بری بات نہیں ہوتا۔ جیسے امریکا کی پولیس اور ایف بی آئی میں ہے، بلکہ اس کے سبب اپنی اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔ مگر جب ایک ایجنسی بہت زیادہ مضبوط ہو، اور باقی نکو بنا دی جائیں تو عدم توازن پیدا ہونے سے معاملات بگڑتے ہیں، جس کے ساتھ قوی تر ایجنسی زیادہ شدت کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کرتی ہے، یوں معاملہ اور خراب ہو جاتا ہے۔
یقیناً آئی ایس آئی کے اختیارات، نا صرف متعین بلکہ واضح کیے جانے کی ضرورت ہے، تاہم اس کے کسی سابق سربراہ کی مد مقابل ملک کی ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ ملاقات پر اس قدر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ معترضین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دونوں مل سکتے ہیں، تو عاصمہ جہانگیر کے ملنے پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ نواز، مودی ملاقات کو غداری پر کیوں محمول کیا جاتا ہے؟ اعتراض بالکل بجا ہیں، مگر اس سوچ سے کہ ایسا محض آئی ایس آئی کرواتی ہے، متفق ہونا مشکل ہے۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنا ریاست کے اپنے مفاد میں بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ ریاست، حکومت اور سول سوسائٹی مختلف حلقے ہیں۔ ایسا ریاست کی کچھ اور ایجنسیاں بھی کروا سکتی ہیں، عاصمہ یا نواز کے مخالف لوگ بھی کروا سکتے ہیں اور یہ سب مل کر بھی کر سکتے ہیں۔ چناں چہ مائنڈ سیٹ تبدیل کیے جانے، ریاست کو جواب دہ بنانے، نفرتوں کو معدوم کرنے اور ریاست، سیاسی پارٹیوں، حکومت اور سول سوسائٹی میں ہم آہنگی پیدا کیے جانے کی ضرورت ہے، جو جمہوریت کے تواتر اور تسلسل ہی سے ممکن ہو پائے گا۔