موبائل فون کا استعمال، کیا ہماری زندگی سے زیادہ اہم ہے؟

 

اگر ہم آج اور حالیہ گزرے ہوئے وقت کی بات کریں، تو سب سے بڑا فرق جو دیکھنے میں آتا ہے، وہ موبائل فون کا استعمال ہے، جو اب بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اور مزید بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ 1990 ء کی دہائی کی بات ہے، جب صرف چند لوگوں کے پاس موبائل فون ہوتا تھا، لیکن اب تقریباً ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے۔ چاہے کمپنی کا مالک ہو یا چوکیدار، گھر کا سربراہ ہو یا باغ کا مالی، ڈاکٹر ہو یا اس کا ڈرائیور، رکشہ چلانے والا ہو یا وین چلانے والا، گھر کی صفائی کرتا ہو یا جوتے کی مرمت، غرض یہ کہ ہر حیثیت اور ہر پیش سے تعلق رکھنے والا موبائل فون کی زد پہ ہے۔ سستے موبائل ’انٹرنیٹ ڈیٹا‘ میسج اور کال پیکج نے لوگوں کی مشکل آسان کر دی ہیں۔ لوگ اب ہر وقت موبائل فون میں مصروف نظر آتے ہیں۔

چوں کہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے اور جب کہ ہر سہولت ایک اینڈرائیڈ موبائل پر میسر ہے، تو زندگی آسان ہو گئی ہے۔ رہی سہی کسر کرونا وائرس نے پوری کر دی، جس نے چھوٹے بڑے سب کے ہاتھوں میں موبائل، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ پکڑا دیے ہیں۔ اب تو درس و تدریس بھی آن لائن ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بچے ہر وقت مختلف ایپس کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کے اپنے بہت سے نقصانات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ہر وقت موبائل کا استعمال نا صرف دماغی صلاحیتوں کو مفلوج کر سکتا ہے بلکہ بینائی پر بھی برا اثر ڈالتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے، جس کی ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔

آج کل کا المیہ یہ ہے کہ ایک ساتھ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو وقت نہیں دے پاتے، جس کی سب سے بڑی وجہ، یہ سوشل میڈیا ہے، جس پر ہر عمر کا بندہ ہر وقت مصروف نظر آتا ہے۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال نے چھوٹے بڑے بزرگ سب کا فرق ختم کر دیا ہے۔ کیوں کہ سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب وہ زمانے گئے، جب کسی رشتے دار سے ملنے جایا کرتے تھے، بیماروں کی تیمارداری اور مزاج پرسی کیا کرتے تھے ہمسائیوں کے دکھ درد کا خیال کیا کرتے تھے۔ اب تو یہ احوال ہے کہ سوشل میڈیا پر سٹیٹس ڈال دیا جاتا ہے، وہیں سے معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ حتی کہ فوتگی کی اطلاع اور تفصیلات بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ہیں۔ کہنے کو وقت نہیں، لیکن گھنٹوں موبائل پر مختلف گیم کھیلی جا سکتی ہیں اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کیا جا سکتا ہے۔ ہم اپنا قیمتی وقت وہاں ضائع کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی حاصل مقصد نہیں ہے۔

ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کا کیسے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس موبائل فون اور سوشل میڈیا کی اس قدر عادت ہو گئی ہے کہ ہم نا صرف اپنے قیمتی وقت بلکہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے۔ کچھ دن پہلے ایک صاحب کو دیکھا، جو ایک ہاتھ سے موبائل فون پکڑ کر بات کر رہے تھے اور دوسرے ہاتھ سے موٹر بائیک چلا رہے تھے۔ اب کال بھی کوئی ایمر جنسی کی نہیں لگ رہی تھی۔ کیوں کہ چہرے پر مسکراہٹ بکھر رہی تھی اور قہقہے تھے، جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اللہ پوچھے کہ بھائی اپنی جان پر ہی تھوڑا ترس کھا لو، لیکن نہیں ہمیں پروا ہی نہیں۔ اسی طرح گاڑی چلانے والے حضرات بھی فون کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

باہر کے ممالک میں ڈرائیونگ کے دوران میں موبائل کے استعمال پر پابندی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو نا صرف بھاری جرمانہ ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لائسنس منسوخ بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن چوں کہ پاکستان میں قانون تو ہے، لیکن اس کی دھجیاں اڑانا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں، اور کوئی سزا یا جرمانہ عائد نہیں ہوتا لہٰذا ڈرائیونگ کے دوران میں ہم پیغام رسانی یعنی میسیجنگ بھی کر لیتے ہیں سیلفی، وڈیوز کے ساتھ ساتھ بومرنگ اور سنیپ سٹریکس بھی بنا لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ڈال کے تبصرہ، یعنی کامنٹس کا جواب بھی با آسانی کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ہمارا ہی کمال ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر ہم رسک نہیں لے سکتے تو زندگی میں کچھ کر نہیں سکتے، لیکن موبائل فون کے استعمال میں، ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کا بھی رسک لیتے ہیں، جو کہ سراسر نا جائز ہے۔

اس دوڑ میں خواتین بھی کسی طور پر پیچھے نہیں ہیں۔ اب دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ خواتین بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے آتی ہیں اس دوران میں موبائل فون پر بات کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرتی ہیں، یا بات کرتے کرتے غلط گاڑی کھڑی کر کے چلی جاتی ہیں۔ اس سے ٹریفک بلاک ہو جاتا ہے اور سب کو بہت زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر بات کرنا بہت ضروری ہے تو اس کا دورانیہ کم رکھا جائے اور ہینڈ فری کا استعمال کیا جائے، تا کہ ڈرائیونگ میں مشکل نہ ہو۔ ویسے تو ساری توجہ ڈرائیونگ پر ہونی چاہیے تا کہ کسی نا خوش گوار واقعے سے بچا جا سکے۔

ہمیں اپنی اور اپنی زندگی سے جڑی زندگیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اس کی قدر کرنی چاہیے۔ زندگی گزارنے کے کچھ اصول ہونے چاہیے، جن پر عمل کر کے ہم اپنے اور دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر سکیں۔ ہر چیز کو اعتدال میں استعمال کرنا ہی بہتر ہے۔ چیزوں کے مثبت پہلوؤں پر زیادہ کام ہونا چاہیے۔

ٹریفک کے قوانین پر عمل کروانے کے لئے سختی کی ضرورت ہے، جرمانہ کی رقم میں اضافہ کیا جائے اور قانون توڑنے والے کو سخت سزا دینی چاہیے، کیوں کہ ایسے لوگ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگی کے لئے بھی خطرہ اور وبال جان ہوتے ہیں۔ عامتہ الناس کو بھی چاہیے کہ ڈرائیونگ کے دوران میں موبائل فون کا استعمال نہ کریں، کیوں کہ ذرا سی غفلت کئی زندگیاں نگل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کو بھی چاہیے کہ اس مسئلے کو اجاگر کرے اور اپنا مثبت کردار ادا کرے۔