آج جنازہ ہم پڑھائیں گی


ایک نا محرم مرد، ایک نا محرم عورت کا جنازہ پڑھ بھی سکتا ہے اور پڑھا بھی سکتا ہے۔ ایک عورت دوسری عورت کا جنازہ نہیں پڑھ سکتی۔ بیٹی ماں کا، بہن دوسری بہن کا، سہیلی، سہیلی کا جنازہ نہیں پڑھ سکتی۔ اس بحث کا آغاز محترمہ عاصمہ جہانگیر کے جنازے سے ہوا۔
 کسی اور کا جنازہ اس سوال کو جنم دے بھی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ سوالوں کو جنم دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یہ وہی کر سکتا ہے جو بے خوف و خطر سماج کے بو سیدہ اور گھسے پٹے اصولوں اور روایتوں سے لڑ کر اپنی آواز بلند کرنا جانتا ہو۔ عاصمہ جہانگیر نے مرنے کے بعد بھی اس سماج کے بیچوں بیچ ایک لکیر کھینچ دی۔ ایک جانب دایاں بازو ہے تو دوسری جانب بایاں۔ ایک جانب ایسی آوازیں جو کسی جنازے میں اتنی بہت سی ماڈرن بے پردہ خواتین کو دیکھ کر سانس پھلائے زبان لٹکائے اس بات پر واویلا کر رہی ہیں کہ اس عورت کو حق کس نے دیا کہ مرد کی جگہ لے لے۔ تو دوسری جانب وہ آوازیں جو للکار رہی ہیں کہ آج تو ہم پیچھے کھڑے تھے۔ ہو سکتا ہے کل تمھارا جنازہ ہم ہی پڑھائیں۔
گویا جنازوں پر سیاست کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ جس کی گواہی بھی پوری نہیں وہ بنا پوچھے، بغیر کسی سے اجازت لئے کھلے سر، سر عام مولوی صاحب کے پیچھے آکر کھڑٰی ہو گئی۔ آج تک جنازوں میں شلوار ٹخنوں تک چڑھائے، لمبی قمیض لمبی داڑھی اور سر پر ٹوپی جمائے مردوں کو دیکھا تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ مرد کی پسلی سے پیدا ہونے والی ایک مخلوق نے مری ہوئی عورت پر اپنا حق جتانے کے لئے رسم و رواج کی تمام دیواریں گرا دیں۔ اگر آپ غور کریں تو مدعا صرف یہ نہیں کہ جنازہ مخلوط ہو گیا۔ مرد و خواتین اکٹھے کیسے ہو گئے۔ مدعا صرف یہ ہوتا تو حج اور عمرے کو بھی مرد اور عورت کے خانوں میں بانٹا جاتا۔ آو مل کر نماز پڑھیں۔
اس ایک فقرے سے احساس مسلمانی کو تسکین اور قلب کو سکون ملنا چاہیے۔ کیونکہ نماز پڑھنے کی تلقین کا آغاز بچپن سے ہی ہو جاتا ہے۔ حج میں سب لوگ مل کر نماز پڑھتے ہیں۔ عمرے کے دوران بھی نماز پڑھتے ہوئے عورت مرد سے آگے سجدے میں ہے یا پیچھے۔ اس بات کی کس کو پرواہ ہوتی ہے۔ حتی کہ حجر اسود کو چھونے جیسے مشکل مرحلے پر بھی مرد و عورت اکٹھے ہی یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ جھگڑا کچھ اور ہے۔
جھگڑا یہ ہے کہ ہماری آنکھوں نے یہ پہلی باردیکھا کہ ڈھیروں پڑھی لکھی، بے خوف، ہندو، مسلم سکھ، عیسائی، دوپٹے، بغیر دوپٹے، چادر، بغیر چادر، اونچے، درمیانے اور نچلے طبقے کی عورتوں کو بنا کسی مرد یا بغیر مولوی کی اجازت کے اس مقام پر قبضہ جماتے دیکھ لیا تھا۔ جو مقام مرد نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جنازہ بھی ایسی خاتون کا جس پر زندگی بھر انڈین ایجنٹ، یہودی جاسوس اور عورتوں کو بے باک بنانے کے الزام لگائے گئے تو ظاہر ہے کہ اس کا آخری دیدار کرنے والیاں بھی ایسی ہی ناہنجار، سیدھی راہ سے بھٹکی ہوئی معاشرے کو الٹے رستے پر ڈالنے والی قابل دھتکار عورتیں ہی ہوں گی۔
ایدھی صاحب بھی تو ملحد و ملعون قرار پائے تھے۔ ان کے جنازے کو سرکاری اعزاز دیا گیا تھا تو بہت سوں کے کلیجے چھلنی ہو گئے تھے۔ کہ ایک کافر، حرامیوں کی تربیت کرنے والے کو اتنے اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا۔
آپ کلیجے چھلنی کرتے رہیے اور اپنا جگر آگ پر تاپتے رہیے۔ آئندہ بھی جب کوئی عاصمہ جہانگیر اپنی جان سے گئی تو خواتین اسی طرح دھڑلے سے جنازے میں شریک ہوں گی۔ بلکہ ڈریے اس وقت سے جب وہ آپ سے کہیں۔ پیچھے ہٹ جائیے۔ آج جنازہ ہم پڑھائیں گی۔

بشکریہ ہم سب