میں صاحب کی دوست گڑیا ہوں۔۔۔۔


ایک دن فون کی گھنٹی بجی. میں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے آوازآئی، مجھے ملک صاحب سے بات کرنا ہے۔ ملک صاحب گھر پر تشریف فرما نہیں تھے جس کی وجہ سے میں نے معذرت کی کہ بات نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ موجود نہیں۔ جواب آیا کہ آپ پوچھیں گی نہیں کہ میں کون ہوں۔ میں نے جواب میں کہا کہ آپ کو ملک صاحب سے بات کرنا ہے، وہ آجائیں گے تو میں انہیں بتا دوں گی کہ آپ کی کال آئی تھی۔ آپ اپنا نام بتا دیں۔ اُن صاحبہ نے کہا کہ میں اُن کی دوست گڑیا بول رہی ہوں۔ میں نے خدا حافظ کہا اور فون منقطع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر فون کی گھنٹی بجی۔ وہی لڑکی گویا ہوئی کہ آپ ناراض نہیں ہوئی مجھ سے جب نے کہا میں اِن کی دوست ہوں۔ میں نے جواباً کہا، “آپ نے کہا آپ اُن کی دوست ہیں۔ پوچھتی تو تب یا غصہ کرتی یا پریشانی ہوتی اگر آپ فرماتی کہ میں اُن کی دشمن ہو”۔ اُس نے میرے حوصلے کی داد دی اور کہا آپ جیسی خاتون کے خاوند کو ہتھیانا تو میرے جیسی کسی بھی لڑکی کے لئے شرمناک ہے۔ میں اب آپ کے خاوند کو کبھی نہیں ملوں گی۔ یہ ایک ہم نام نہاد شریفوں کی زبان میں پیشہ کرنے والی لڑکی کی دی ہوئی زبان تھی جو اس نے نبھائی۔ مگر ایک سوال کہ آپ کو میرا کال کرنا بالکل برا نہیں لگا اور آپ نے مجھے بے عزت نہیں کیا جبکہ میں نے آپ کے لئے جتنے گڑھے کھود سکتی تھی کھودے۔ تو میں نے اس سے کہا کہ بی بی وہ تمھارا اور میرے شوہر کا معاملہ ہے نہ میں تمھیں کچھ کہو ں گی اور کہوں بھی کس ناتے سے اور نہ میں اپنے شوہر سے ہی باز پرس کروں گی۔ کروں بھی توکس حق سے۔ مگر اس بات کا درست جواب میں نے میرے اندر محفوظ کر لیا تھا۔ ساری خرابی میرے شوہر کی فطرت کی ہے۔ وہ لڑکی تو خود شکاری بن کر شکار ہو رہی تھی۔ اسے مگر اس بات کا پتہ ہی تھا۔ وہ لڑکی میری دشمن نہیں تھی وہ کیونکر میری دشمن ہوتی میں نے اس کیا نقصان کیا تھا۔ یا میں اس سے بغض رکھتی بھی تو کیوں؟ اُ س نے میرا کیا بگاڑا تھا؟ کیا وہ مجھے جانتی تھی؟ کیا وہ میری کوئی قریبی عزیزہ تھی؟ کیا اس کا میرا کبھی کوئی عہد و پیماں ہوا تھا؟ کیا اس نے مجھ سے کوئی ایسی چیز چھیننے کو کوشش کی تھی جو صرف میری تھی؟ نہیں جس صحرا میں میں بھٹک رہی تھی، اُسی صحرا میں اس کو سراب نظر آرہا تھا۔ وہ تیزی سے اُس سراب کی طرف بھا گ رہی تھی اس کا تھکا ہوا ٹوٹا ہوا لہجہ یہ بتا رہا تھا کہ اس تمنا نے اسے بھی کافی توڑا ہے۔ یا شاید بالکل توڑ دیا ہے۔ گھر پر کال کرنے کا اور کیا مقصد ہوسکتا تھا۔ وہ یقینا مایوسی کا شکار ہوئی تھی۔
میں آج تک کسی عورت سے حسد نہیں کر پائی نہ ہی رشک آیا ہے کسی پر، خاص طور پر ہر وہ عورت جو میرے شوہر جیسے مرد پر اپنا وقت، طاقت اور جذبات صرف کر رہی ہوتی ہے۔
ایک بہتر مستقبل کی چاہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ عزت دار مستقبل کی چاہ میں مرد انہیں مزید بے عزت کرتا ہے اور جذباتی چوٹ بھی پہنچاتا ہے۔
وہ بالکل میری طرح کی عورتیں ہیں۔ ان سے کیا جھگڑا۔ اِن بے چاریوں پر مجھے خود سے زیادہ رحم آتا رہا ہے تمام عمر۔ ایک لڑکی جس نے اپنا نام مجھے عائشہ بتایا۔ عمر یہی کوئی 25 سال ہوگی ایک فنگشن پر ملا قات ہوئی۔ میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھی بالکل ایسا لگ رہا تھا کو ئی میری اپنی ہے۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ ناچنے آئی ہے۔ میں اس کے لب ولہجے اور تاثرات سے خاصی متاثر تھی۔ اس کی تعلیم پوچھی تو اس نے دس جماعتیں پاس کر رکھی تھیں۔ اور وہ دو بچوں کی ماں تھی۔ اس نے اچھے مستقبل کی چاہ میں کسی شادی شدہ مرد سے شادی کی تھی۔ میرا زندگی بھر کا مشاہدہ ہے کہ ایسی لڑکیوں کو صرف دوسری شادی کے خواہش مند ہی اپناتے ہیں۔ اپنی زندگی اُن کے اپنے ہاتھوں میں آجاتی ہے شادی کے بعد۔ فیملی والے اسے شادی کرتے ہی خودمختاری کا سرٹیفیکیٹ دے دیتے ہیں۔ پھر وہ مرد اگر تو افورڈ کرتا ہے تو دوسری شادی کر لیتا ہے، نہیں تو ویسے ہی رنگ برنگی زندگی گزارتا رہتا ہے۔
دوسری شادی کرنے والا مرد وقتی چاہت کو عشق سمجھ بیٹھتا ہے، چھپ کر شادی کرتا ہے۔ یہ اُس کی بزدلی کی ٹھوس دلیل ہے۔ اس کی دوسری شادی کے آشکار ہونے پر اُسے سماجی اور خاندانی دباﺅ کا سامنا ہوتا ہے۔ اس دباﺅ میں آکر اکثر مرد دوسری بیوی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ گویا کہ اُن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو سیڑھیاں چڑھا کر آخری زینے پر پہنچنے پر وہ سیڑھی کھینچ لیں اور اُن کی دوسری منکوحہ منہ کے بل نیچے آگرے۔ عائشہ نے بھی ایسی ہی چوٹ کھائی تھی۔ پانچ سالہ بیٹے اور چھ ماں کی بیٹی تھی۔ بچے اُسی کے پاس تھے اور وہ مجھ سے کہہ رہی تھی، باجی میرے لئے دعا کریں کہ کل رحیم یار خان جا رہی ہوں۔ یہی سیزن ہے کمانے کا۔ گرمیاں آجائیں گی تو شادی بیاہ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ دعا کریں مجھے بہت سارے پیسے ملیں۔ دعا وہ بھی ﷲ سے کر رہی تھی اور مجھ بھی کہہ رہی تھی۔ ﷲ تو سب سے پیار کرتا ہے۔ اس اکیلی ماں سے بھی کرتا ہو گا۔ اپنی زندگی بنانے چلی تھی وہ اور دو اپنے جیسی زندگیاں لے کر واپس اپنے قبیلے میں آگئی۔ میں اُس کے قبیلے والوں کو شاباش دوں گی کہ انہوں نے ہر قدم پر عائشہ کا ساتھ دیا۔
آج عائشہ کی کال آئی تھی اور کہہ رہی تھی باجی بہت پیسے ملے ہیں۔ اور میں سوچ رہی تھی کہ چھ ماہ کی بچی اور بانچ سال کے بچے کو وہ رات بھر کس کے پاس چھوڑ کر ناچنے جاتی ہو گی۔ کیا وہ اِن حلال بچوں کا مقدر بھی محض لاحاصل کی جستجو ہوگا۔ بھولی عائشہ کہہ رہی تھی، وقت بدل گیا ہے۔ اب میں اپنے بچوں کو پڑھاﺅں گی تاکہ وہ میری لائن نہ اپنائیں۔
عائشہ، وہ تمھاری لائن نہ بھی اپنائیں تو بھی انہیں معاشرہ عزت نہیں دے گا۔ تمھاری پاک ہونے اور رہنے کی خواہش کو صرف چند لوگ ہی سمجھیں گے۔ تمھارا پیشہ تمھارے بچوں کی شناخت بن چکا ہے۔ میں نے تمھاری آنکھوں میں جو خوابوں کی جھلمل دیکھی ہے، جو زندگی کی طرف تمھاری مثبت سوچ ہے، وہ تمھاری معصومیت کا ک منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابھی تمھارے باقی خوابوں نے بھی ٹوٹنا ہے۔ جب اونچے مرتبے کے حامل شخص سے تمھارے پیار کی دین بچوں کو تمھارا اور میرا معاشرہ عزت دار نہیں گردانے گا۔ بیٹی عائشہ یہ روحوں کی نہیں، جسموں کی دنیا ہے۔ یہ ناپاک روحوں کی تم جیسی پاک روحوں سے صرف جسم کی ملاقات اور جان پہچان ہے۔ کاش جسم نہ ہوتے، صرف روحیں ہوتیں۔ تو تم اپنی امنگوں اور ضرورتوں سے آزاد ہوتی۔ تم جسم ہو اور تمھاری اولاد بھی۔ تمھاری روح صرف پروردگار کو عزیز ہے۔ تمھیں پیسے کا بچاری ماننے والے یہ بھول گئے ہیں کہ وہ بھی تو دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ بھوکے سونا انہیں بھی قبول نہیں مگر ہم تم پر انگلیاں اٹھائیں گے۔ مجھے مشہور زمانہ فلم دیوداس کا گیت یاد آرہا ہے جس میں پارو اور چندرمکھی دنوں ایک ہی محفل میں ناچ رہی ہیں۔ مگر پارو ٹھکرائن رہتی ہے اور چندرمکھی طوائف ہی رہ جاتی ہے۔ فلم میں صرف پارو ہی چندر مکھی کی پاکیزگی سمجھ پاتی ہے۔ کیونکہ دونوں ایک ہی منزل کی طرف سفر کرہی ہوتی ہیں۔ میں بھی، عائشہ بھی، گڑیا بھی، پارو بھی، چندرمکھی بھی عشق اور تصوف کی جانب روانہ ہیں۔ دعاگو ہوں عائشہ کہ تم بے مراد نہ رہو۔ تمھارا پیٹ بھرا رہے۔ تمھارے بچے ہم قبول کرلیں۔ ہم محبت کرنے میں بہادر اور نبھانے میں بے حد بزدل ہیں۔ تم ہماری ہمت کے لئے دعا کرنا، ہمیں تمھاری دعاﺅں کی ضرورت ہے۔

ثبوت دو کہ اپنے باپ کی اولاد ہو


بشکریہ ہم سب