ثبوت دو کہ اپنے باپ کی اولاد ہو….


صائمہ ملک
یہ کچھ فلمی سا منظر تھا۔ ایک حسین پختون خاتون ولایت بی بی کی نکاح کی تقریب جاری تھی کہ فوڈ اتھارٹی والوں کو خبر ملی کہ خاتون کے والد نے بہت سارا راشن ذخیرہ کر لیا ہے جس کی وجہ سے اہل علاقہ کو بہت تنگی کا سامنا ہے۔ یہ انگریزوں کے زمانے کی بات ہے۔ پختونوں میں ابھی فوج کے علاوہ دوسرے محکموں میں افسران خال خال ہی ہوا کرتے تھے۔ جس فوڈ انسپکٹر کا وہاں تبادلہ ہوا تھا، اس کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ایک زمیندار پنجابی افسر نے اپنی افسر شاہی دکھاتے ہوئے اور محکمے میں خاتون کارندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے زنان خانے میں بھی خود اپنی ٹیم کے ساتھ چھاپہ مارا۔ دلہن کا نکاح ہو چکا تھا۔ رخصتی چند ماہ بعد ہونا قرار پائی تھی۔ پنچابی افسر کو جھانک کر دیکھنے کی چاہ میں دلہن پردے کی اوٹ سے نکل آئی اور چند لمحوں میں ہی دونوں ایک دوسرے کی چاہت کا مرکزبن گئے بھٹی صاحب نے دبا ڈال کر دلہا سے طلاق دلوا کر دلہن کو اپنی بیوی بنا لیا۔ دلہا نیک سیرت تھا اور دوراندیش تھا۔ خدا ترس ہونے کے علاوہ روایتی پختون بھی تھا۔ اُس نے بس ایک شرط رکھی کہ دلہن اب کبھی علاقے میں نظر نہ آئے۔ باپ فوڈ انسپکٹر کے عتاب سے بچ گیا اور دلہا نے اپنے قبیلے کے لئے افسر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ کہانی ان دونوں کی نہیں بلکہ کہانی لیاقت پٹھان اور نسیم بھٹی کی ہے۔ یہ دونوں کون ہیں۔ یہ ولائت بی بی کی اولادیں ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایک اولاد پٹھان اور دوسری بھٹی کیسے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پختون دلہن گھریلوسیاست کا شکار ہوکر ایک بچی نسیم بھٹی کو باپ کے پاس چھوڑ طلاق کا داغ لئے پھر علاقے میں آجاتی ہے پہلے شوہر سے اس کو پناہ ملتی ہے اور وہ دونوں نکاح کر لیتے ہیں۔ لیاقت اِس رشتہ اذواج کا نتیجہ ہے۔ پنجابی فوڈ انسپکٹر شیعہ مسلک اختیار کر کے دوسری شادی کر لیتا ہے لیکن اپنی بیٹی نسیم کو خوب محبت سے پروان چڑھاتا ہے۔ بیٹی کو ایک کڑے امتحان کا سامنا ہوتا ہے، جب اس کا افسر باپ دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔
نسیم بی بی کی عمر 40 برس ہے۔ جب انہیں چچا کی طرف سے جائیداد کے بٹوارے کا نوٹس ملتا ہے۔ چچا کے ساتھ بٹوارا کیسا؟ نسیم بی بی مع والد شیعہ ہے اور شیعہ قانون کے مطابق اگر صرف بیٹی ہے اور کوئی بیٹا نہیں تو جائیداد بیوی اور بیٹی کو ملے گی۔ جواب دعویٰ دائر ہوجاتا ہے۔ مقدمہ گواہوں اور ثبوتوں کے کھیل کے بعد ایک نیا رخ اختیار کرتا ہے۔ بھائی کے زبانی ہوئے نکاح کو وہ لڑکی کے 40 برس کا ہوجانے کے بعد چیلنج کردیتا ہے اور بیان داغتا ہے کہ لڑکی ماں کے پہلے نکاح شدہ شوہر کا نطفہ ہے۔ ہمارے بھائی نے لڑکی بھگائی تھی، بیاہی نہیں تھی۔ ایک 40 سالہ خاتون جوان دنوں اپنے بیٹے کی شادی کی تیاریوں میں ہے اُس کا نام اور نصیب شدید خطرے میں ہے۔ ایک عزت دارسیاستدان جاگیردار گھرانے کی بہو ہے۔ وہ عدالتی معاملہ طول پکڑ لیتا ہے نسیم بی بی کسی صورت اپنے حق سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ چچا اپنی روایتی سیاست سے کام لیتے ہوئے اس مقدمے کو جلد سمٹنے کے لئے اخبارت کے ذریعے لڑکی کے نسب کو نشانے پرلیتا ہے جو وہ عورت قطعی افورڈ نہیں کرتی۔ اُس وقت کا وزیر صحت وخوراک جنوبی پنجاپ کے اسی خاتون کے شوہر کا چچا ہے۔ وہ آکر معاملہ حل کراتا ہے۔ لڑکی کو اپنی آدھی جائیدادکے بدلے باپ کی ولدیت مل جاتی ہے۔ چچا آدھی جائیداد لے کر، بڑی بھول ہوئی ہم سے، گاتا ہوا پھر سے چچا بن جاتا ہے۔ خاتون کا ددھیال پھر ددھیال بن جاتا ہے۔ سسرال والوں میں اور رہتی دنیا میں ایک جائزبچی کو ایک جائز اولاد کہلانے کا حق مل جاتا ہے۔
گویا کہ حق ولدیت بازار میں رکھی کوئی جنس ہے کہ خریدی اور بیچی جائے یا کوئی تمغہ ہے جسے بیٹے جیت کے لائیں یا یہ اُن تمام اولادوں کا قدرتی حق ہے۔ جن کے والدین ایک سے زیادہ نکاح کرتے ہیں اور زبانی نکاح کرتے ہیں، گواہ بھی ہیں آپ اُن بچوں کو والدین کی زندگی میں قبول کرتے ہیں اور اُن کے مرتے ہی محض جائیداد اور عزت کے لئے اُن اولادوں سے یہ حق چھین لیتے ہیں۔ آپ کی بصیرت اپنے سگوں کی زندگی میں کہاں ہوتی ہے۔۔۔ واہ رے معاشرہ تیری نرگسی آنکھ۔
اب آئیں لیاقت پٹھان کی طرف۔ ولایت بی بی کی یہ دوسری اولاد ہے۔ پختون شوہر سے ولایت بی بی 3 اور بچوں کی پیدائش کے بعد وفات پا جاتی ہیں اور چند سال بعد ان کے شوہر بھی خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ شریف النفس باپ کی نہایت شریف اولاد ہے۔ لیاقت پٹھان باپ کے طرح مصلحت پسند، دور اندیش اور صلع جو مگر کیا کیجئے کہ ہم سب رسم و رواج کے اسیر ہیں۔ ہم سب کی اپنی اپنی دلدلیں ہیں اور ہم دھنستے جاتے ہیں۔ لیاقت کو عین بڑھتی جوانی میں باپ کو ﷲ کے سپرد کرنا پڑا اور قبیلے کا سردار بننا پڑا مگر عجب کھیل قدرت کے کہ اسے سردار ماننے سے قبیلہ انکاری ہے۔ 16 سال تک اس بچے کا وجود معتبر تھا مگر اب یکایک وہ ولائت بی بی کے پنجابی شوہر کی اولاد بنا دیا جاتا ہے۔ طاقت کا حصول اس کے حریفوں کے منہ میں زبان دے دیتا ہے۔ اس لڑکے کے پنچابی باپ کی اولاد ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اس کی امن پسند طبعیت ہے گو کہ پٹھانوں سے زیادہ امن پسند قوم میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ جو قوم امن کے لئے جنگ آزادی سے بھی پہلے اپنی زمینوں پر خون کی قربانی دیتی آئی ہو، اس کی امن پسندی میں کیا لکھوں۔ پختون جان دیتا ہے، لیتا نہیں۔ تاہم پنجابی ہونے کی تہمت رکھ کر لیاقت کو قبیلے سے باہر کر کے اس کے چچا اور قبیلے والے اپنے تئیں شرط رکھتے ہیں کہ مردوں والا کوئی کام کرو تو پٹھان قرار پا اور سرداری لے جا۔ ایک فروٹ مارکیٹ پر اسی قبیلے کی اجارہ داری ہے، اس میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ 16 سالہ لیاقت پہلے ہی نہایت فرسٹریٹڈ (Frustrated) ہے. میں کس کی اولاد ہوں? یہ ثابت کرنا اس کے لئے اس وقت ہر چیز سے زیادہ اہم بنا دیا گیا ہے. سو اپنے چچا سے جھگڑا کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے چپ کروا دیتا ہے۔ ایک نہیں، دو نہیں، پورے چھ قتل ایک ساتھ۔ اب وہ سرٹیفائڈ پٹھان ہے۔ سرداری پھر بھی بہنوئی کے پاس ہے مگر اب وہ ایک سفاک قاتل ہے۔ اپنے دو جوان بیٹے بھی مروا چکا ہے۔ ایک بھائی بھی اور کئی جانیں یا تو اس نے خود لی ہیں یا اس کے کہنے پر لے لی گئی ہیں۔ مگر ہے وہ اپنے باپ کی اولاد۔ میرے مالک جب تونے قیامت کے دن بھی اپنی مخلوق کا پردہ رکھنا ہے اسے ماں کے نام سے بلانا ہے۔ اس کی پہچان ماں نے ہونا ہے تو تیرے بندے محض طاقت اور دولت کے حصول کے لئے بوڑھے اور جوان بچوں سے باپ کا نام کیوں مانگتے ہیں۔ انہیں کیوں انسان نہیں رہنے دیتے۔ ایک عورت تمام عمر، اپنے اس چچا کے کارن، شوہر سے اپنی ماں کے لئے گالیاں سنتی ہے اور ایک مرد قاتل بن جاتا ہے۔



بشکریہ ہم سب