جب تبلیغی جماعت میرے گھر آئی

ڈاکٹر خالد سہیل

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کینیڈا کے وھٹبی شہر میں ایک بلڈنگ کی اکیسویں منزل پر PENTHOUSE NO 6 میں رہا کرتا تھا۔ایک شام میرے گھر کے دروازے پر غیر متوقع دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ شلوار قمیص میں ملبوس دو باریش بزرگ کھڑے تھے۔
’السلام علیکم‘
’وعلیکم سلام‘
’کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟‘ انہوں نے پوچھا
’ضرور تشریف لائیے‘ دونوں بزرگ اندر آ گئے۔ چند لمحوں کی گفتگو سے اندازہ ہو گیا کہ ایک پشاور کے پشتو بولنے والے اور دوسرے کراچی کے اردو بولنے والے بزرگ تھے۔ ان کی خاطر تواضع کے لیے میں نے انہیں چائے اور بسکٹ پیش کیے۔ کہنے لگے ’ ہمارا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ ہم پاکستان سے آٹوا آئے ہوئے ہیں اور ہم پیدل ottawa سے ajax جا رہے ہیں جو تین سو میل کا فاصلہ ہے۔ ہم ہر روز چند میل جاتے ہیں اور کسی نئے شہر میں رات رکتے ہیں۔ ہم کل رات آپ کے شہر میں رکنا چاہتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘
’آپ میرے مہمان ہیں۔ میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے‘
میں نے ان بزرگوں کو اپنا گھر‘ اس کے تین بیڈ روم اور ہر بیڈ روم میں بستر دکھائے۔ پھر میں نے انہیں اپنے گھر کی چابی دی تا کہ وہ اگلے دن اس وقت گھر میں داخل ہو سکیں جب میں ہسپتال میں کام کر رہا ہوں گا۔
جانے سے پہلے میں نے پوچھا ’آپ کی تبلیغی جماعت میں کتنے لوگ ہیں؟‘
’سات‘
اگلی شام جب میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے اپنا گھر ہی اجنبی اجنبی سا لگا۔ زمین پر سفید چادریں بچھی تھیں اور میرے لونگ روم کی تصویروں‘ پینٹنگز اور مجسموں پر تکیے کے غلاف اور سفید چادریں پڑی تھیں۔ وہ سب پردہ دار بن گئی تھیں جیسے مشرف بہ اسلام ہو گئی ہوں۔ میں دل ہی دل میں مسکرایا لیکن خاموش رہا۔
انہوں نے بہت لذیذ کھانا بنایا تھا جو ہم سب نے مل کر کھایا۔
کھانے کے بعد امیرِ جماعت نے نائب امیر سے کہا ’اب ہم کچھ دیر ڈاکٹر سہیل سے تنہائی میں گفتگو کر لیں‘
’ضرور‘ نائب امیر نے کہا۔
میں انہیں اپنے ماسٹر بیڈروم میں لے گیا۔ میں نے ان سے کہا ’یہ واٹر بیڈ ہے اس پر احتیاط سے بیٹھیں۔ وہ جب بیڈ پر چڑھنے لگے تو لڑکھڑا گئے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ بریک ڈانس کر رہے ہوں۔ میں دل ہی دل میں مسکرایا پھر میں نے کہا ’بیٹھ جائیں اس میں پانی ہے‘
’بستر میں پانی ہے’ وہ بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے شاید پہلے کبھی واٹر بیڈ نہ دیکھا تھا۔
نائب امیر نے ایک گھنٹہ مجھے اسلام کے بارے میں لیکچر دیا۔ جب ان کا لیکچر ختم ہو گیا تو میں نے بڑے احترام سے کہا ’آپ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے‘
’کیا مطلب‘ وہ کچھ حیران ہوئے
’آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ میں مسلمان ہوں‘
’تو کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟‘
’نہیں‘
’تو پھر آپ کا کیا مذہب ہے؟‘
’میرا کوئی مذہب نہیں ہے‘
’کیا آپ ہندو ہیں؟‘
’نہیں‘
’کیا آپ سکھ ہیں؟‘
’نہیں‘
’کیا آپ عیسائی ہیں؟‘
’نہیں‘
’آپ کا کوئی مذہب تو ہوگا‘
’نہیں میرا کوئی مذہب نہیں۔ ‘
’یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کا کوئی مذہب نہ ہو۔ میں کبھی کسی ایسے شخص سے نہیں ملا جس کا کوئی مذہب نہ ہو‘
’تو پھر آپ آج اس شخص سے مل رہے ہیں۔ اس دنیا میں ایک ارب سے زیادہ انسان ایسے ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہے‘
نائب امیر گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ جب گہری سوچ سے لوٹے تو کہنے لگے‘
’اگر آپ مسلمان نہیں ہیں تو آپ نے ہمیں اپنے گھر میں رہنے کی کیسے اجازت دے دی‘
میں مسکرایا اور میں نے کہا’ آپ میرے مہمان ہیں۔ آپ نے میرے دروازے پر دستک دی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ میرے گھر میں ایک دن گزارنا چاہتے ہیں چنانچہ میں نے آپ کی تبلیغی جماعت کے لیے اپنے دل اور گھر کے دروازے کھول دیے۔ آپ پشاور کے ہیں، میں بھی پشاور میں رہا ہوں۔ میں پٹھانوں کے ساتھ پلا بڑھا ہوں۔ میں نے ان سے مہمان نوازی سیکھی ہے۔ یہ اسی مہمان نوازی کا تحفہ ہے۔ میں انسان دوست ہوں۔ میرا آپ سے انسانیت کا رشتہ ہے اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں۔‘
میری باتوں سے نائب امیر بہت حیران اور تھوڑے سے پریشان ہوئے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ وہ کسی انسان دوست سے مکالمہ کر رہے تھے۔
اس گفتگو کے بعد نائب امیر چپ ہو گئے۔
کمرے میں گہری خاموشی طاری ہو گئی
پھر امیرِ جماعت نے نائب امیر سے کہا ’میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک دفعہ موسیٰ صحرا میں سفر کر رہے تھے۔ وہ کھانا کھانے لگے تو ایک مسافر آ گیا اور کہنے لگا کہ میں بھی بھوکا ہوں۔ موسیٰ نے کہا ’آئو میرے ساتھ کھانا کھائو‘ جب وہ مسافر کھانا کھانے بیٹھ گیا تو موسیٰ نے کہا ’کھانا کھانے سے پہلے ہم خدا کا شکریہ ادا کریں گے‘ مسافر نے کہا ‘میں کسی خدا کو نہیں مانتا‘ موسیٰ جلال میں آ گئے اور کہنے لگے’ تم بہت ناشکرے ہو۔ اگر تم اپنے خالق کو نہیں پہچانتے تو میں تمہارے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتا۔ تم یہاں سے چلے جائو‘ وہ مسافر خاموشی سے اٹھ کر بھوکا ہی چلا گیا۔ اس مسافر کے جانے کے چند منٹ بعد موسیٰ کو خدا کا پیغام آیا۔ خدا نے پوچھا’موسیٰ ! تم بے اس بھوکے مسافر کو کیوں کھانا نہیں کھلایا؟‘ موسیٰ نے کہا ’ وہ آپ کو نہیں مانتا میں کیسے اس کے ساتھ کھانا کھا سکتا ہوں وہ ناشکرا ہے‘۔ خدا نے پوچھا’ تمہارے خیال میں اس مسافر کی عمر کیا ہوگی؟‘ موسیٰ نے کہا ’پچاس سال‘
خدا نے کہا’ وہ مجھے نہیں مانتا لیکن پھر بھی میں نے اسے پچاس سال تک کھانا کھلایا ہے تمہیں ایک دفعہ کھانا کھلانا پڑا تو تم نے اسے دھتکار دیا۔ جائو اس سے معافی مانگو۔ سب انسان میرے بچے ہیں، ماننے والے بھی اور نہ ماننے والے بھی‘


بشکریہ  ہم سب