تصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY IMAGESImage captionرہف محمد القنون تھائی حکام کی جانب سے یقین دہانیوں کے بعد ہوٹل کے
کمرے سے باہر آگئی ہیں
تھائی
لینڈ کی جانب سے عارضی طور پر ملک میں داخل ہونے کی اجازت ملنے کے بعد 18 سالہ
سعودی خاتون بینکاک ایئرپورٹ کے اس ہوٹل سے چلی گئی ہیں جہاں انھوں نے خود کو ایک
کمرے میں بند کر لیا تھا۔
تھائی لینڈ کی امیگریشن
پولیس کا کہنا ہے کہ رہف محمد القنون 'اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین کی
نگرانی میں ہوٹل سے چلی گئی ہیں'۔
اس سے پہلے تھائی لینڈ
کی امیگریشن کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا تھا کہ سعودی خاتون رہف محمد القنون کی
جان کو خطرے کے دعووں کے پیش نظر انھیں ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔
پیر کو جب تھائی لینڈ
کے امیگریشن حکام نے یہ کوشش کی تھی کہ انھیں کویت بھیج دیا جائے تو انھوں نے خود
کو ایئر پورٹ کے ایک ہوٹل کے کمرے میں بند کر لیا تھا۔
امیگریشن حکام کا کہنا
ہے کہ وہ رہف محمد القانون کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اقوام
متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کو اس معاملے میں بات چیت کے لیے شامل کیا جائے گا۔
رہف نے پیر کی صبح کویت
جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
تصویر کے کاپی رائٹAFPImage captionمیرا خاندان معمولی باتوں پر بھی
مجھے قتل کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے: رہف القنون
رہف نے روئٹرز کو
بتایا: 'میرے بھائی، خاندان اور سعودی سفارت خانہ کویت میں میرا انتظار کر رہے
ہیں۔ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ میری زندگی خطرے میں ہے۔ میرا خاندان معمولی باتوں پر
بھی مجھے قتل کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔'
رہف محمد القنون نے بی
بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اسلام ترک کر چکی ہیں، اور انھیں ڈر ہے کہ اگر انھیں
زبردستی سعودی عرب واپس بھیج دیا گیا تو ان کا خاندان انھیں قتل کر دے گا۔
اس سے پہلے انسانی حقوق
کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے تھائی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بنکاک
ائیرپورٹ پر پھنسی سعودی خاتون کی طے شدہ منصوبے کے تحت سعودی عرب واپسی روک دیں۔
رہف نے کہا ہے کہ وہ
اپنے خاندان سے الگ ہو کر آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں لیکن تھائی لینڈ میں سعودی
حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔ رہف کے مطابق وہ اپنے خاندان کے ساتھ کویت گئی
تھیں جہاں سے وہ دو دن پہلے اکیلی جہاز پر سوار ہو گئیں۔ وہ بنکاک سے آسٹریلیا
جانا چاہتی تھیں جہاں ان کا ارادہ پناہ لینے کا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے
مشرق وسطیٰ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج نے ایک بیان میں کہا کہ 'اپنے خاندان کو
چھوڑنے والی سعودی خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر واپس بھجوایا گیا تو وہ اپنے رشتے
داروں کی جانب سے شدید تشدد، آزادی سے محرومی اور دیگر شدید نوعیت کے نقصان کا
سامنا کر سکتی ہیں۔'
تصویر کے کاپی رائٹREUTERSImage captionرہف کا کہنا ہے کہ حکام نے ان کا
پاسپورٹ ضبط کر لیا ہے
رہف کی کہانی اس وقت
منظر عام پر آئی جب انہوں نے ٹوئٹر پر آنے کا فیصلہ کیا اور اپنی تصویر اور نام
شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ’میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں اور اب میں اپنا اصل نام
اور تمام معلومات عام کر رہی ہوں۔‘
اسی دوران ٹوئٹر پر ’سیو رہف‘( saverahaf #) کے نام سے ایک ٹرینڈ بھی شروع ہو گیا جس میں دنیا بھر سے لوگ رہف
کی مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔
بینکاک میں بی بی سی کے
نامہ نگار جوناتھن ہیڈ نے بتایا کہ رہف خوف زدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس
آسٹریلیا کا ویزا ہے لیکن ان کا پاسپورٹ سعودی سفارتی اہلکار نے ضبط کر لیا ہے جو
انہیں بینکاک کے سورنابھومی ایئرپورٹ پر طیارے سے اترتے ہوئے ملے تھے۔
رہف نے کہا کہ ’میں نے
اپنی معلومات اور تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں اور میرے والد اس وجہ سے بہت
غصے میں ہیں۔۔۔ میں اپنے ملک میں کام نہیں کر سکتی، پڑھ نہیں سکتی، اس لیے میں
آزادی چاہتی ہوں اور اپنی مرضی سے پڑھنا اور کام کرنا چاہتی ہوں۔‘
تصویر کے کاپی رائٹTWITTERImage captionرہف کی کہانی اس وقت منظر عام
پرآئی جب انھوں نے ٹوئٹر پر آنے کا فیصلہ کیا
تھائی پولیس کے ایک
اعلیٰ اہلکار نے کہا تھا کہ رہف محمد القنون شادی سے بھاگ رہی ہیں اور ویزا نہ
ہونے کی وجہ سے تھائی لینڈ کی پولیس نے انھیں انٹری کی اجازت نہیں دی اور ہم انھیں
اسی ایئر لائن یعنی کویت ایئر لاینز کے ذریعے واپس بھیج رہے تھے جس سے وہ آئی
تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ
پاسپورٹ کی ضبطی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
یہ واضح نہیں کہ اگر
رہف کے پاس آسٹریلیا کا ویزا تھا تو انھیں ٹرانزٹ کے لیے تھائی لینڈ کے ویزے کی
ضرورت کیوں پیش آئی۔
یہ پہلا واقعہ نہیں
اس سے پہلے 2017 میں
بھی ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا تھا جب ایک سعودی خاتون نے فلپائن کے راستے
آسٹریلیا جانے کی کوشش کی تھی۔
24 سالہ دینا علی بھی کویت
سے روانہ ہوئی تھیں لیکن ان کے خاندان والے انھیں منیلا ایئرپورٹ سے واپس سعودی
عرب لے گئے تھے۔ دینا نے ایک آسٹریلوی سیاح کے فون کے ذریعے ٹوئٹر پر ایک پیغام
اور وڈیو جاری کی تھی کہ ان کے گھر والے انہیں قتل کر دیں گے۔
دینا علی کے ساتھ سعودی
عرب پہنچ کر کیا ہوا یہ پھر معلوم نہیں ہوسکا تھا۔