سعدیہ وقاص
اب سے چند گھنٹے قبل جب آپ اور میں جنوری کی سرد شام کو اپنے اپنے طریقے گزار رہے تھے، جو کِسی بھی طرح کوئی انقلابی قدم کہلائے جانے کے زُمرے میں یقیناً نہیں آتا، سرحد پار ایک بہادر خاتون جان پر کھیل کر صدیوں پرانے رواج توڑتی، نئی تاریخ رقم کر رہی تھیں۔
چھیالیس سالہ سسی کلا کا تعلق سری لنکا سے ہے اور انہوں نے آج، اب سے چند گھنٹے قبل کیرالہ کے گھنے جنگلات میں گھِرے ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع سبریمالا مندر کے اندر تک رسائی حاصل کی۔
یہ تیسری خاتون ہیں جنہیں کیرالہ میں واقع ایئئپا دیوتا کے مندر سبریمالا کے اندر تک رسائی حاصل ہوئی۔ بارہویں صدی سے قائم اس مندر میں دس سال سے پچاس سال تک کی ایسی تمام خواتین جو ماہواری کے ایّام سے گزرتی ہیں، کا داخلہ ممنوع رہا ہے۔ اور اس ممانعت کو کانگریس اور بی جے پی سمیت تمام مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ 1991 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے اپنے دیے گئے ایک فیصلے کے مطابق اس ممانعت کو قانونی شکل دے کر 10 سال سے 50 سالُ کی تمام خواتین پر مندر میں داخلے پر باقاعدہ پابندی عائد کردی تھی۔
سبریمالا مندر کا تنازعہ ستمبر 2018 کو اُس وقت کھڑا ہوا جب انڈیا کی سپریم کورٹ آئینی بنچ نے اپنے تاریخ سازفیصلے کے ذریعے خواتین کی مندر میں داخلے پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ پابندی آئین کی شق 14 اور 15 کے منافی تھی جس کے تحت تمام شہریوں کو یکساں بنیادی حقوق نیز مذہبی آزادی حاصل ہے۔
اس فیصلے کو مذہبی شدت پسندوں نے نہ صرف ماننے سے انکار کر دیا بلکہ اس فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر صف آرا ہو کر متعدد پُرتشدد مظاہرے بھی کیے۔ جس کے نتیجے میں املاک کے نقصان کے ساتھ ساتھ کئی اموات بھی واقع ہوئیں۔
اس پابندی کے کالعدم قرار دیے جانے کے بعد 2 جنوری کو دو خواتین مندر کے اندر جانے میں کامیاب ہوئیں۔ تاہم انہیں مندر کے اٹھارہ مقدس زینے پار کرنے سے پہلے ہی مذہبی انتہا پسندوں نے پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ ان دونوں خواتین کو دورانِ یاترا، شدت پسندوں کی جانب سے کسی بھی ممکنہ پُر تشدد واقعہ سے نبٹنے کے لئے پولیس کا حفاظتی دستہ مہیا کرنے پر کیرالہ کے چیف منسٹر کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔
سال 2019 کے پہلے روز، کیرالہ کی پچاس لاکھ خواتین نے اپنے حق کی اس جنگ میں اظہارِیکجہتی کے طور پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالا کر 385 میلُ لمبی قطار ترتیب دیجو تقریباً پندرہ منٹ تک قائم رہی۔ اس انوکھے پُر امن احتجاج کو ”دیوارِ نسواں“ کا نام دیا گیا۔
اپنی نوعیت کے اس احتجاج سے جہاں خواتین نے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں متحد ہیں وہیں یہ پیغام بھی واضح کیا کہ وہ صدیوں پرانے فرسودہ نظام کی بے جا پابندیوں کو چیلینج کرتی ہیں۔