سعادت حسن منٹو: حقیقت کیا ہے؟

 
اردو ادب میں جہاں سعادت حسن منٹو ہمیشہ سے اپنی اچھوتی اور متنازع فیہ حیثیت کے ساتھ زندہ رہا، وہیں بعد از موت بھی اس کے فن پارے اختلافی آراٗ پر مبنی ادبی گفتگو کا محور رہے ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہو گئی ہے کہ منٹو ایک لاجواب کہانی کار تھا۔ وہ اپنے عہد سے جڑا ایسا فنکار تھا جسے کسی نظریے، تحریک یا ادبی اجتماع کی ضرورت نہ تھی۔ فطری طور پر آزاد پیدا ہو نے کے بعد سماجی زنجیروں میں بندھا جانا اسے پسند نہ تھا۔ اِسی لئے وہ ممکنہ حد تک ذہنی و لسانی سطح پر نہ صرف شخصی طو ر پر آزاد تھا بلکہ اپنی فکر میں آزاد منش ادیب تھا۔ اس کے موضوعات اس کی عصری زندگی سے اٹھائے گئے سوالات تھے اور اس کا اظہار بھی زندگی کے انہی بیباک اصولوں پر تجسیم کیا گیا جنہیں سماج کے روایتی ٹیبوز نے سمیٹ رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان ادب پاروں میں اظہار و بیان کی دلکشی و چاشنی کے ساتھ ساتھ حقائق کی تلخیاں اور کسیلا پن بھی شامل ہے۔ اُن سچائیوں کو، جن کا تعلق انسانی زندگی اور اس سے جڑے بے حس و سنگدل سماج سے ہے، وہ نہ صرف آشکار کرتا ہے بلکہ ایک نفسیاتی معالج کی طرح اس پر نشتر بھی چلاتا ہے۔ معروف رائٹر و نقاد ڈاکٹر شفیق جالندھری پنجاب یونیورسٹی اپنے مختصر مضمون ’’منٹو۔۔۔ افسانے اور سچائیاں‘‘ میں لکھتے ہیں
’’وہ ایک ایسا معالج ہے جو صرف کھٹی میٹھی گولیوں سے ہی علاج نہیں کرتا، ضرورت محسوس ہونے پر نہایت بے تکلفی سے آپریشن بھی شروع کر دیتا ہے۔ اس کا آپریشن کچھ اِس انداز کا ہے کہ اس کے اچانک ہو جانے پر مریض حیران سے رہ جاتے ہیں۔ ذہنی طور پر آپریشن کے لئے پہلے سے آمادہ نہ ہونے کی بِنا پر بعض اوقات وہ گھبرا اور سٹپٹا بھی جاتے ہیں۔ ایسا اِس وقت ہوتا ہے جب منٹو جنس کے مسائل کو سامنے لاتا ہے۔ جنس کے متعلق اکثر لوگ بے حد شرمیلے ہوتے ہیں، بعض شرم کی بجائے احتیاط کو پیشِ نظر رکھتے ہیں، کچھ لوگ کھُلے ڈلے ہوتے ہیں اور بعض فحش گوئی کو اپنا لیتے ہیں۔ منٹو ایک کھُلا ڈلا انسان ہے جس پر فحاشی کا الزام لگتا ہے۔‘‘
شاید یہی بات تھی کہ مخصوص مغربی ادبی حلقوں میں سعادت حسن منٹو کے افسانوں، مضامین اور تحاریر کی ادبی اہمیت عام طور پر ایک ایسے رائٹر کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں اس کا اکثر کام طوائف کے کوٹھے تک محدود سمجھا گیا ہے۔ اسے جنسیات و غیر متنوع موضوعات کا لکھاری کہا جانے لگا۔ جس کے پاس موضوعاتی تنوع بہت کم ہے۔ لیکن ایشین سٹڈیز سنٹر، مشی گن سٹیٹ یو نیو رسٹی، امریکہ کی پروفیسر لیسلے۔اے۔ فلیمنگ اپنے ایک طویل مقالے میں ’’ این اَدر لونلی وائس ‘‘ جو سعادت حسن منٹو کے اردو کام پر لکھا گیا تھا، میں کہتی ہیں۔
’’ایسا نہیں ہے۔ مغرب نے ابھی سعادت حسن منٹو پر کام ہی کب کیا ہے۔ وہ ایک سطحی سوچ کے حامل نقادوں کی تاثراتی رائے سے یہ اخذ کر رہے ہیں۔ پروفیسر لیسلے کا کہنا ہے کہ منٹو کے عہد میں اور بعد از منٹو، جو مصنفین اور نقاد ( زیادہ ترمارکسٹ نظریات سے وابستہ) اردو ادب میں مقبولِ عام کے طور پر پہچانے جاتے تھے انہوں سے بہت کچھ گڈمڈ کر دیا اور بحیثیت نقاد اپنے فرائض سے پہلو تہی برتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ منٹو کے مکمل کام کی طرف توجہ دیتے، جس میں تیئس افسانوی (شارٹ سٹوریز) مجموعے، ایک ناولٹ، پانچ ریڈیو پلے، ایک مکمل ڈرامہ، تین مضامین کے مجموعے، دو خاکوں کے مجموعے اور وہ تمام کام جو مغربی ادب سے ترجمہ کیا گیا کو پورے کا پورا د یکھا جانا از حد ضروری تھا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ نقادوں سے یہ غلطی ہوئی انہوں نے منتخب کام پر اپنی ادبی رائے کا اظہار کیا۔ اس ذاتی طور پر منتخب کئے گے کام میں نقادوں نے صرف ایسے کام کو ہی منتخب کیا جو سنسیشنل تھا، جنسی مسائل پر لکھا گیا تھا اور حقیقی ادب سے اس کی جڑت نسبتاً کمزور تھی اور وہ ترقی پسند ( مارکسٹ نظریات) سے لگاؤ نہیں رکھتا تھا جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان سماجی و معاشی تعلق کو کہیں زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ان سب کا خیال تھا کہ منٹو نے ان ترقی پسند نظریات کو اپنے ادبی کام میں مہمیز نہیں دی جیسا کہ اس عہد میں ہو رہا تھا۔
ایسا لکھنے سے پہلے ڈاکٹر فلیمنگ نے منٹو کے تمام کام کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی دیکھا کہ منٹو ایک ایسے رائٹر کے طور پر سامنے آتا ہے جس نے بالخصوص اپنے افسانوں (شارٹ سٹوریز) میں تنوع کو بے اختیار برتا ہے۔ وہ اپنی نظر سے زندگی کے ان حقیقی مسائل کو اس گہرائی میں جاکر دیکھتا ہے جہاں سماج کا مشترکہ ذہن بھی نہ پہنچا ہو۔‘‘
اپنی اس رائے کو سامنے لاتے ہوئے کارلو کوپالا لکھتا ہے ’’ کہ یہ سب کچھ کہنے سے پہلے ڈاکٹر فلیمنگ منشی پریم چند (ڈی۔ 1936) سے لیکر اب تک عمومی طور پر سارے اردو ادب اور اردو شارٹ سٹوریز کا بالخصوص، بغور جائزہ لیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منٹو کے کام کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے میں نے فرینک۔ او کارنر کے لکھے ہوئے ملتے جلتے مضمون ’’ دی لونلی وائس‘‘ سے متاثر ہو کر استفادہ کیا ہے جہاں انہوں نے افسانوی ادب اور ناول کے درمیان ایک ایسے پُل کو تلاش کیا تھا، جس میں ہمہ جہت سے نکل کر صرف ایک مرکزی کردار کو متن میں متوازی سطح پر اٹھایا جاتا ہے اور اسی کے مسائل کو سماج کے ان دیکھے، مخفی المیوں سے جوڑ دیاجاتا ہے، لیکن بعینہ وہ متن اپنی تہ میں علامتی سطح پر ہمہ جہت مسائل کو ایڈریس کرتا ہے۔ ڈاکٹر فلیمنگ کا یہ بھی خیال ہے کہ فرق صرف یہ ہے کہ فرینک او کارنر ایک انتہائی تہذیب یافتہ سوسائٹی کے سولائزڈ افراد کو اپنی کہانیوں میں لاتا ہے جبکہ منٹو مبینہ طور پر تہذیب یافتہ سوسائٹی کی انتہائی نچلی سطح پر جا کر ایس افراد کو اپنے کردار چنتا ہے جو اپنی سماجی حیثیت میں کوئی مقام ہی نہیں رکھتے بلکہ بادیِ النظر میں سماج کی نفرتوں کا شکا ر ہیں اور یہیں سے ان افراد کی تنہائیوں کا دور شروع ہوتا ہے جس کے بعد ازاں منفی نتائج پوری سوسائٹی پر نظر آتے ہیں۔ ‘‘
یہ وہی بات ہے کہ جو میں پہلے اپنے کسی مختصر مضمون میں منٹو کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ منٹو انہی متذکرہ مبینہ نفرت آلود افراد کر کیریکٹرائز کرتے ہوئے تحت الشعور اور لاشعور کی ان سفلی خواہشات اور ان کے محرکات کو ہمارے شعوری علم کے دائرے میں کھینچ لانے کی کوشش کرتا ہے، جنہیں ہم بالعموم ’’ ضمیر ‘‘ کے دبیز پردوں میں ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔
منٹو کے ممتاز اور مقبول عام افسانوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید بھی لکھا جائے گا کیونکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ منٹو پر لکھنے کے لئے اسی پایہ کے نقاد کا میسر ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے بیشتر نقادوں کی رائے بہرحال ادبی نقطہ نظر سے استدلال کے جھولے میں ڈولتی نظر بھی آتی ہے لیکن حسن عسکری بڑی سچائی سے ’سیاہ حاشئے‘ کی’’حاشیہ آرائی ‘‘ میں منٹو پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’پچھلے دس سال میں نئے ادب کی تحریک نے اردو افسانوی ادب میں گرانقدر اضافے کئے ہیں، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر و بیشتر نئے افسانوں کی محرک تخلیق کی اندرونی لگن نہیں تھی بلکہ خارجی حالات اور واقعات، خواہ ان کا تعلق خود مصنف کی ذات سے ہو یا ماحول سے۔ ممکن ہے کہ یہ بہت حد تک اس رائج الوقت عقیدے کے ماتحت ہوا ہو کہ محض خارجی ماحول کو بدل دینے سے انسانوں کی داخلی زندگی کو بدلا جا سکتا ہے ‘‘
حسن عسکری جیسے جید نقا د اسی مضمون میں چل کر آگے کہتے ہیں۔۔۔۔
’’ برصغیرِ ہندوستان کے یہ فسادات ایسی پیچیدہ چیز ہیں، اور صدیوں کی تاریخ سے، صدیوں آگے کے مستقبل سے، اس بری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق یوں آسانی سے اچھے برے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا، کم از کم ایک معقول ادیب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسے ہوش اڑا دینے والے واقعات کے متعلق سیاسی لوگوں کی سطح پر اتر کر فیصلے کرنے لگے۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں وہی کیا ہے جو ایک ایماندار (سیاسی معنوں میں ایماندار نہیں بلکہ ادیب کی حیثیت سے ایماندار) اور حقیقی ادیب کو ان حالات میں اور ایسے واقعات کے اتنے تھوڑے عرصے بعد لکھتے ہوئے کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے نے نیک و بد کے سوال ہی کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ ان کا نقطہِ نظر نہ سیاسی ہے، نہ عمرانی نہ اخلاقی بلکہ صرف ادبی اور تخلیقی۔ منٹو نے صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں اور ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے۔ ظلم کرنے کی خواہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلانات کار فرما ہیں، انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے اور زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔ ‘‘
یہ وہ اہم سولات ہیں جو منٹو اپنی تحاریر میں اٹھاتا ہے۔ اس نے نہ تو رحم کے جذبات ابھارے ہیں نہ ہی غصے کے یا نفرت کے وہ وہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو فطری طور پر انسان کے اندر پنہاں ہے۔ آئیے ان سوالات کے جواب ہم انکے سیاہ حاشئے میں شامل مختصر افسانوں سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر تقسیمِ ہند کے فوراً بعد لکھے۔
سیاہ حاشیہ ( 1948) میں اپنے مختصر افسانے’’ اشتراکیت‘‘ میں اشتراکیت کی حقیقی روح سے رو گردانی کرتے ہوئے منٹو اشتراکیت کے نام پر صرف روٹی کمانے والوں کو لٹیرے کے روپ میں دیکھتا ہے۔
اس طرح ’تعاون ‘ عنوان کے تحت وہ لوٹ مار کے ایک گروہ کو علامتی انداز سے کتے سے بھِڑا دیتا ہے۔
’ تقسیم ‘ میں وہ مال غنیمت میں سے ظالم برآمد کروا کردوسرے ظالموں کو جہنم واصل کرا دیتا ہے۔
’ اصلاح ‘ میں مرد کے مخصوص اعضا کے حوالے سے ایک ایسی عجیب و غریب صورت پیدا کرتا ہے کہ اعتقاد سے زیادہ اصلاح کا معنوی پہلو غلطی دور کرنے کی کوشش کو علامتی بنا دیتا ہے۔
اسی طرح’ حیوانیت‘، ’کھاد‘، ’کسرِنفسی‘ اور دیگر افسانچوں میں منٹو نے تقسیم ہند پر اپنے فنکار قلم سے ہندو مسلم فسادات، لوٹ مار اور قتل وغارت کو جس مہارت سے پینٹ کیا ہے وہی حقیقی طور پر ایک ادیب کا کردار ہے۔ منٹو نے انسان کو نہ ظالم بنایا نہ مظلوم، غیر معمولی حالات میں اس نے انسانی فطرت کے ان تمام پہلوؤں کو ادیبانہ مہارت و بصیرت سے قاری پر منکشف کر دیا اور اشارہ کرکے خود خاموش ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں انسان اپنی انسانی فطرت میں نہ تو فرشتہ بن سکتا ہے نہ ہی شیطان۔ وہ کتنا ہی غیر معمولی بننے کی کوشش کیوں نہ کرے زندگی کی حقیقت اور فطری تقاضے اسے معمولی معاملات میں گھسیٹ لاتے ہیں۔
متذکرہ بالا اجمالی جائزہ منٹو کے پورے کام کا احاطہ نہیں کرتا، میں اپنے تئیں سمجھتا ہوں کہ منٹو کے جملہ افسانوں، مضامین، خاکوں ڈراموں و دیگر تحاریر وغیرہ پر ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
انہی بنیادوں پر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ منٹو ایک عظیم فنکار تھا اور اپنے عہد سے جڑ کر اس نے اردو ادب کی جو نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں وہ بلاشبہ بے حد سراہے جانے کے قابل ہیں۔ مقبولیت تو اس نے اپنی زندگی میں ہی پا لی تھی لیکن اس کا بلند و بالا عالمی ادبی مقام آنے والے دنوں میں حقیقی منصب و رتبے کا متقاضی ہوگا جو دنیائے ادب کے نقادوں کو انہیں دینا ہوگا کیونکہ منٹو اسی منصب کے قابل ہے۔